وزیر ہوا بازی کی بیان بیازی اور کچھ سوالات


وفاقی وزیر ہوا بازی کے اس بیان کے بعد کہ پی آئی اے اور دنیا کی کچھ دوسری ایئرلائنز میں کام کرنے والے بہت سے پاکستانی پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں، ”دیکھتی آنکھوں“ اور ”سنتے کانوں“ نے سمجھ لیا تھا کہ اب پاکستانی پائلٹوں اور پی آئی اے کی خیر نہیں۔ وجہ اس کی صاف ہے۔ پاکستان اور پاکستانیوں پر ہمارے دشمنوں کے ”رڈارز“ ہر دم چوکس رہتے ہیں۔ وہ اسی انتظار میں ہوتے ہیں کہ کوئی معمولی سی بات ملے تاکہ اس کا بتنگڑ بنایا جا سکے۔

اس معاملے میں تو خیر سے ہم نے رڈار آپریٹرز کا کام بہت ہی آسان کر دیا اور ”آبیل مجھے مار“ والا محاورہ سو فیصد سچ ثابت کر دیا۔ اس ”خود کش“ اعترافی بیان کی نوعیت ایسی ہی ہے کہ انسان خود تھانے حاضر ہو کر اپنے خلاف ایف آئی آر درج کروادے۔ اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ہمارے تمام پائلٹ، انجینئرز وغیرہ چاہے وہ ہمارے اپنے ملک میں تھے یا بیرون ممالک وقتی طور پر گھر بیٹھ گئے ہیں اور پی آئی اے دنیا میں اچھوت بن چکی ہے۔

ہم لوگ شاید کچھ زیادہ ہی خوش فہم ہیں۔ بیان کی سنگینی کے پیش نظر بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ شاید وزیرصاحب کی چھٹی کروا دی جائے گی۔ ایسا سوچنے والے غلط تھے۔ وزیر اعظم صاحب نے وزیر صاحب کے بیان کی حمایت کی کہ اگر ہم پائلٹوں کے خلاف کیس نہ اٹھاتے تو نہ جانے کتنے لوگوں کا خون ہماری گردن پر ہوتا۔ وزیرموصوف نے ”شاباش“ ملنے کے بعد ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے ”مشکوک“ پائلٹس کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ توپوں کا رخ دوسروں کی طرف موڑنے کی کوشش کی ہے کہ یہ جعلی پائلٹ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھرتی کیے تھے۔

ہوا بازی کے ماہرین تفصیل کے ساتھ بتا چکے ہیں کہ پائلٹ کے جعلی لائسنس کا حصول ناممکنات میں سے ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی پائلٹ نے بے ضرر تحریری امتحان خود نہ دیا ہو۔ اس کی چھان بین ہو سکتی تھی، اس کے لئے پورا جہاز ڈبونا ضروری نہیں تھا۔ اس معاملے نے بہت سے سوال بھی پیدا کر دیے ہیں۔ فرض کریں کہ بہت سے لائسنسز جعلی ہیں۔ کیا اس کے قصور وار صرف پائلٹس ہیں، وہ لوگ نہیں جنہوں نے جاری کیے؟ ان پائلٹس میں پاکستانی فضائیہ کے ریٹائرڈ پائلٹس بھی ہیں (صحافی جناب طلعت حسین کے بقول ایک ایسا پائلٹ بھی اس کی زد میں آیا ہے جو ایف سولہ لڑاکا جہاز اڑاتا رہا ہے ) ۔

پاک فضائیہ کی صلاحیتوں اور تربیت کے اعلٰی معیار کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ کیا یہ اعلٰی تربیت یافتہ پائلٹس بھی جعلی لائسنسز کے حامل ہیں؟ ویت نام، ملائشیا، قطر، دبئی اور دوسرے ملکوں کی ائرلائنز میں کام کرنے والے پائلٹس، انجینئرز اور دوسرا عملہ بھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے وہاں بھرتی کروایا؟ کیا دنیا بھر کی ان ائر لائنز میں جہاں ہمارے تربیت یافتہ یا ہمارے پائلٹس جہاز اڑاتے ہیں، کسی مسافر، کسی کمپنی، کسی ادارے نے شکایت کی ہو کہ دوران پرواز کوئی گڑبڑ ہو رہی تھی، ٹیک آف میں خرابی تھی یا لینڈنگ کے وقت کوئی مسئلہ تھا؟

کسی ایسے غیر ملکی جہاز کا حادثہ آپ نے سنا ہو، جس کا پائلٹ پاکستانی ہو؟ ہم نے تو نہیں سنا۔ کسی غیر ملکی ائرلائن کے کسی پاکستانی انجینئرز کے تکنیکی کام میں خرابی کی کوئی اطلاع آپ کے پاس ہے؟ کسی غیر ملکی ائرلائن نے اس بیان سے پہلے کسی پاکستانی پائلٹ یا انجینئر کو اس کے کام کی کوتاہی کی وجہ سے کبھی فارغ کیا؟ سب کچھ اس بیان کے بعد ہی ہوا۔ اگر آپ کے بقول ان کے لائسنس جعلی تھے تو آپ کی حکومت دو سال سے کیا کر رہی تھی؟ کیا وہ اس انتظار میں تھی کہ ایک حادثہ ہو، اس میں بے گناہ لوگ مارے جائیں تو پھر ہم یہ مسئلہ اٹھائیں گے؟ ان سب سوالات کے جوابات وزیر موصوف کو دینے چاہئیں۔ غیر ملکی ائرلائنز کو بھی چاہیے تھا کہ ان پائلٹ کو گراونڈ کرنے سے پہلے ان کا ٹریک ریکارڈ تو دیکھ لیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments