ایک بے ہودہ موضوع اور دو سینئر تجزیہ کاروں کا تذکرہ!


عباس ناصر صاحب ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر اور آج کل اسی اخبار میں ہفتہ وار مضمون لکھتے ہیں۔ اعزاز سید بھی روز نامہ جنگ میں لکھتے ہیں۔ میں ان دونوں نامورتجزیہ کاروں کو اکثر دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ چار ہزار سال قبل وادی سندھ میں آباد قدیم باشندوں کے مذہب کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں ہیں، تاہم ہڑپہ کے مقام سے ایک ایسی مہر برآمد ہوئی ہے جس پر ایک برہنہ دیوی کی تصویر ہے جس کے رحم سے ایک پودا اگ رہا ہے۔ قدیم باشندے اپنے تمام امور کا ماخذ اس دیوی کے پیٹ کو سمجھتے تھے۔

وطن عزیز میں کچھ نامور تجزیہ کاروں کے ہاں ’اسٹیبلشمنٹ‘ قدیم ہڑپہ کی کالی دیوی ہے۔ ہر بار کی طرح اس اتوار بھی عباس ناصر صاحب کا مضمون میں نے دلچسپی سے پڑھا ہے۔ عباس صاحب کو خدا نے دلکش تحریرتخلیق کرنے کی اعلٰی صلاحیت سے نواز رکھا ہے۔ کاش وہ اپنے مضامین کے لئے کثیر الجہت موضوعات کا انتخاب کیا کریں۔

اعزاز سید صاحب کا ’ہم سب‘ میں چھپا حالیہ مضمون دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ابھی سنتھیا رچی پر ان کی تحقیق جاری ہے۔ غالباً ڈور کا سرا وہ جس جگہ لے کر جانا چاہ رہے ہیں، وہاں تک لے جا نہیں پا رہے۔

ہماری سنہری تاریخ جہاں ہمارے اسلاف کی جا بجا شجاعت کی داستانوں سے لبریز ہے تو وہیں سینکڑ وں ’ایمان فروشوں‘ کی کہانیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ صلیبی جنگوں اور غرناتا کی داستانوں میں کثرت سے ان ہوش ربا حسیناؤ ں کا ذکرملتا ہے، ہمارے اکثر بادشاہوں، سلطانوں اور سرداروں کے دل جن کی قاتل اداؤں کے ہاتھوں گھائل ہوتے رہے ہیں۔ اگر سنتھیا رچی نے عشرہ بھر ہم پاکستانیوں کو ہانکے پہ رکھا ہے تواس بار معاملہ مختلف کیوں کرہے!

ماضی قریب میں بھی کئی ایک گوری خواتین صحافیوں کے روپ میں ہمارے ہاں آتی جاتی رہی ہیں۔ بڑے بڑے قائدین سے جن کی ملاقاتیں رہیں۔ ایک ایسی ہی یورپی خاتون صحافی کو ہمارے ایک مدبر قومی رہنما نے ایک ملاقات میں مبینہ طور پر ایک آئی فون تحفتا دینے کی پیشکش کی تو الٹا اس احسان فراموش نے ان کی نیت کو مشکوک ٹھہرا دیا۔

جولیو آندریاٹی کو جنگ عظیم دوئم کے بعد اٹلی کا تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس عرصے کے دوران ان کو جن درجنوں عالمی مشاہیر سے واسطہ رہا، ان میں سے لگ بھگ تین درجن تاریخ ساز شخصیات سے اپنی ملاقاتوں کا احوال، خاکوں کی صورت انہوں نے اپنی 1982 ء میں پہلی بارچھپنے والی ’لائیوز‘ (Lives) نامی کتاب میں قلم بند کیا ہے۔ جیسا کہ عہد ساز شخصیات کے تذکرے پر مبنی کسی بھی مغربی مصنف کی ترتیب دی گئی فہرست کے باب میں عام ہے، اس کتاب میں شامل مشاہیر کی اکثریت کا تعلق بھی مغرب سے ہی ہے۔

تاہم جہاں متعدد امریکی صدور، برطانوی و یورپی وزراء اعظم اورمعروف فنکاروں کے علاوہ کامریڈ کاسترو جیسی عہد ساز شخصیات کا تذکرہ کتاب میں ملتا ہے، وہیں بر صغیر سے نوجوان اندرا گاندھی کے ساتھ ساتھ پانچ مسلمان حکمران بھی اس انتخاب میں شامل ہیں۔ مسلمان مشاہیر میں سے ’فاتح برطانیہ‘ عدی امین، مصر کے شاہ فاروق اور شاہ ایران رضا پہلوی کے خاکے ہم جیسوں کے لئے دلچسپی کا کچھ سامان رکھتے ہیں۔

1951 ء میں قاہرہ کے اندر منعقدہ کچھ خصوصی تقریبات میں جولیوآندریاٹی اٹلی کی حکومت کی طرف سے شریک ہوئے، تو انہیں مصر کے شاہ فاروق کو قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ مصنف سے ملاقات میں شاہ نے انہیں اطلاع دی کہ مصر کے عوام ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اپنے خلاف کسی بھی منفی تاثر کو انہوں نے اسلام دشمنوں کے شکست خوردہ ذہنوں کی پیدا وار قرار دیا۔ اپنے دورے کے دوران جہاں مصنف مصر کے گلی کوچوں میں افلاس کے مارے گرد آلود مصریوں اور جا بجا مکھیوں سے اٹے بھکاری بچوں کی بھیڑ کا احوال لکھتے ہیں، تو دوسری طرف شاہی محل میں برپا عظیم عشائیے میں مصری وزیراعظم کی سر سے پاؤں تک طلائی زیورات میں لدی بیگم سے ان کی مڈ بھیڑ کا ذکر بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔

ایسی ہی کسی تقریب میں شاہ فاروق، مصنف کے سامنے اپنے بچپن کے اس اطالوی نژاد دوست انتونیو کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جسے انہوں نے اٹلی پر قابض انگریزوں کے مظالم سے بچا کر مصر کی شہریت عطا کی تھی۔ اب شاہی دربار میں تعیناتی کے بعد انتونیو کے بنیادی فرائض منصبی میں اپنے دوست اور مصر کے ہر د لعز یزباد شاہ کے لئے خوبصورت اطالوی لڑکیوں کا انتخاب اور مصری عوام کی ہڈیوں کے گودے سے کشید کردہ دولت کو سوئیٹزر لینڈ کے بینکوں میں ٹھکانے لگانا شامل تھا۔

شاہ فاروق شمپیئن کے انتخاب کا بہت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ تاہم اسلامی شعائر کے احترام کے پیش نظر سرعام وہ صرف کیلے کا جوس پیتے تھے۔ مصنف کا بیان ہے کہ معروف اطالوی اوپرا کی شاندار پرفارمینس کے دوران بھی شاہ نے خود کو اسی مشروب تک محدود رکھا۔ تقریب کے اختتام پر جب اطالوی سفیر نے اوپرا کے فنکاروں کے شاہ سے تعارف کے دوران رومانیہ کی دلکش و نوخیز گلوکارہ کے لباس کی تعریف کی تو شاہ نے صاف بتایا کہ ان کے نزدیک عورتوں کے باب میں ان کے زیب تن کیے ہوئے لباس سے زیادہ اہمیت اس امرکی ہے کہ لباس کے اندر کیا ہے۔ مصنف کی رائے ہے کہ اگر شاہ 1930 ء کے عشرے میں تخت نشینی سے قبل کچھ وقت کسی سکول میں صرف کر لیتے تو ایسے مواقع پر ان کا رویہ قدرے بہتر ہوتا۔ مصنف کی رائے سے اختلاف کی گنجائش بہر حال موجود ہے۔

1952 ء کے فوجی انقلاب کے نتیجے میں شاہ کو معزول کر کے ملک بدر کر دیا گیا۔ انتونیو کو فوجی حکمرانوں نے گرفتار کر لیا تھا۔ چونکہ سویئٹزرلینڈ کے بنکوں میں پڑی دولت کو نکالنے کے لئے چیک پر شاہ کے علاوہ انتونیو کے دستخط بھی درکارتھے، لہٰذا شاہ نے اٹلی میں اپنی بقیہ زندگی کسمپرسی کی حالت میں تنہائی اور سستے نائٹ کلبوں میں بسر کی۔ کسی شب اسی عالم میں ایک گمنام نائٹ کلب کی میز پرمصر کے جلا وطن بادشاہ کے دماغ کی شریان پھٹ گئی۔

شاہ فاروق کی بہن ایران کے شاہ رضا پہلوی کی پہلی بیوی تھیں۔ اتفاق سے شاہ ایران کا خاکہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ دو شادیاں اور ایرانی حرم سرا کو بھگتانے کے بعد شاہ ایران کسی سرکاری دورے پر وینس تشریف لائے تو ان کے استقبال کے لئے کتاب کے مصنف بھی ائر پورٹ پر موجود تھے۔ قطارباندھے سرکاری زعماء سے سرسری تعارف کے فوراً بعد شاہ نے افسر مہمان داری کو شب بسری کے لئے کسی مقامی خاتون کی دستیابی کا حکم دیتے ہوئے اسے سکتے میں چھوڑ ا اور خود ہوٹل کے لئے روانہ ہو گئے۔

مذکورہ کتاب میں شامل دیگر مشاہیر کے خاکوں سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ قاری بین الاقوامی امور سے خاطر خواہ واقفیت رکھتا ہو کہ جہاندیدہ آندریاٹی اکثر مشاہیر سے جڑے پیچیدہ تاریخی واقعات کا محض اجمالی حوالہ دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ تاہم سینئر تجزیہ کار اعزاز سید صاحب اگر مذکورہ دو بادشاہوں کے خاکوں پر توجہ مرکوزرکھیں تو میرا اندازہ ہے کہ ناصرف انہیں ہمارے مقامی حکمرانوں کی نفسیات سمجھنے کا موقع ملے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ اس آگاہی کے نتیجے میں انہیں خوبرو امریکی خاتون کی پاکستان میں ایک عرصے سے بلا روک و ٹوک آمد ورفت، ان کی پر اسرار سرگرمیوں اور ان کے حالیہ بے ہودہ الزامات کی تحقیق میں بھی کچھ آسانی میسر آ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments