مولانا مودودی اور مغرب میں بسے مسلمانوں کو لاحق سنگین خدشات


\"khurramعیسائیت، اسلام، ہندومت، بدھ مت، سکھ ازم، یہودیت اور قدیم چینی فلاسفہ کو اس وقت دنیا کے بڑے اور اہم ترین مذاہب کی حیثیت حاصل ہے۔ خود کو لامذہب کہنے والے افراد بھی انتہائی کثیر تعداد میں موجود ہیں اور کم از کم مغربی ممالک میں ان میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ باہمی اختلافات اور تنوع کے باوجود یہ خیال بعید از قیاس اور خلافِ عقل لگتا ہے کہ وہ عقائد جن کے ماننے والوں کی تعداد کروڑوں سے متجاوز ہو اور جو کئی سو سال کے نشیب و فراز سے گزر کر اب تک سلامت ہوں وہ بنیادی طور پر انسان دشمنی، سفاکیت، تنگ نظری، بد طینتی، جنونیت، جبر و قہر، استحصال اور تشدد کے داعی و موید بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ تمام بڑے مذاہب کا نام لے کر اس کے پرجوش حامیوں نے ایسے کارنامے سرانجام دئیےکہ حیوان بھی شرما جائیں۔

ہماری آنکھوں کے سامنے خود کو اعلیٰ تہذیبی اقدار کا پاسبان کہنے والے سیکولر معاشروں میں بھی اچانک دائیں بازو کی تنگ نظر اور نسل پرست سیاست کو غلبہ حاصل ہورہا ہے۔ امریکہ کے حالیہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع فتح ہو، برطانیہ کو یورپ سے الگ کرنے والے بریکسٹ ریفرنڈم، بھارت میں مودی کی عوامی مقبولیت یا یورپ میں سفید فام نسل پرستی کی پھیلتی لہر، ان تمام مظاہر میں ایک مرکزی عامل اسلام سے بڑھتا ہوا خوف رہا ہے اور مسلمان تارکینِ وطن کے خلاف امتیازی قوانین بنانے کا مطالبہ ایک پرکشش نعرہ بنتا جا رہا ہے۔

\"maulana-maudoodi\"سیاسی اور سماجی رویوں میں عوامی سطح پر یہ بدلاؤ نہ یکایک ہوا ہے اور نہ اس کی صرف کوئی ایک وجہ ہے لیکن کچھ سٹیریو ٹائپ ہیں جو مستحکم ہوتے جارہے ہیں۔ مثلا\” اگر کسی غیر مسلم سے پوچھا جائے کہ مسلمان ریاست سے کیا مراد ہے تووہ فوری طور پر جن ممالک کا نام لے گا وہ سعودی عرب، ایران اور پاکستان ہی ہوں گے۔ اسی طرح گو عام مسلمان شدت پسندی کی طرف مائل نہیں اور بالخصوص جو مغربی ممالک کی سیاسی جماعتوں میں متحرک ہیں وہ روشن خیال اور غیر متعصب ہیں لیکن پھر بھی اگر مسلمانوں کی سیاسی تنظیموں کے لئے دریافت کیا جائے تو طالبان، داعش، بوکو حرام اور القائدہ کا ذکر بھی کہیں سے بیچ میں آجاتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کو مرچ مسالہ لگا کر سنسنی خیزی پیدا کی گئی اور مسلم مخالف نفرت کی آگ کو ہوا دی گئی لیکن انصاف سے بات کریں اور صرف فرانس میں ہونے والے ان حملوں کو ذہن میں لائیں جن میں ٹنوں وزنی لاری سے سینکڑوں معصوم انسانوں کو کچلا گیا یا سال بھر پہلے بٹاکلان میں سو کے قریب نفوس کو غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنا کر آہستہ اور اذیت ناک موت کے گھاٹ اتارا گیا تو یہ اسلاموفوبیا کچھ سمجھ میں آنے لگے گا۔

 دوسری جنگِ عظیم تک یورپ میں مسلمان صرف البانیہ، بوسنیا، کوسوو، مقدونیہ وغیرہ جیسے علاقوں تک محدود تھے۔ جنگ کے بعد جب تباہ حال معیشتوں کی بحالی ہوئی تو سستے اور سخت جان مزدوروں کے لئے برطانیہ نے پنجاب اور کشمیر، جبکہ جرمنی اور فرانس نے ترکی، شمالی افریقہ(الجزائر، مراکش) اور ایران سے ناخواندہ اور غیرتربیت یافتہ افرادی قوت کو لا کر اپنے یہاں بسایا جو سب مخصوص دیہی پس منظر کے حامل تھے۔ میزبان ممالک کے کلچر اور زبان سے نابلد پہلی نسل کے صنعتی کارکنوں نے شادی کے لئے اپنے وطن بلکہ ترجیحاً اپنے ہی خاندانوں کی ان پڑھ یا نیم خواندہ خواتین کا انتخاب کیا۔ ان ممالک میں اب جو مسلمان نظر آتے ہیں وہ انہی مزدوروں کی دوسری اور تیسری نسل ہے۔ 1973 کے بعد سے لیبر امیگریشن پر پابندی عائد ہوگئی اور آہستہ آہستہ اس کی جگہ سیاسی پناہ گزینوں اور پروفیشنل امیگریشن نے لے لی۔ امریکہ میں مسلم مہاجرت کا پہلا مرحلہ اس لئے نہیں گزرا کیونکہ انہیں جسمانی اور سستی محنت کے لئے اپنے پچھواڑے کی غریب ریاستوں سے ہسپانک دستیاب ہوگئے تھے۔ 1973 ہی میں اوپیک کی کوششوں سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور عربی شیوخ نے اس دولت سے امریکی بینکوں، جوئے خانوں اور قیمتی جائدادوں کی سرپرستی میں دلچسپی لینی شروع کی۔ ساتھ ہی ساتھ ستر کی دہائی کے اواخر سے پاکستانی اور مصری ڈاکٹرز بھی امریکہ ہجرت کرنے لگے۔ 2010 کے اعداد و شمار  \"uniin\"    کے مطابق آبادی میں تناسب کے لحاظ سے مسلمان امریکہ میں ایک فیصد، برطانیہ میں چار اعشاریہ آٹھ فیصد، بیلجئم اور جرمنی میں چھ، چھ فیصد اور فرانس میں ساڑھے سات فیصد تھے۔

2011ء کی ناکام عرب بہار کے بعد اور شام اور لبیا میں خانہ جنگی سے اپنی جان بچا کر لاکھوں مسلمان پناہ گزین یورپ میں داخل ہوئے۔ جرمنی میں انہیں سستی اور غیرقانونی لیبر کے طور پر استعمال کرنے کی رپورٹس موجود ہیں اور برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں اس معاملے پر تلخی کی خبریں عام ہو چکی ہیں۔ ان بڑے سرمایہ دار ممالک میں تناؤ اس امر کی چغلی کھاتا ہے کہ اصل مسئلہ آپس میں معاشی مسابقت کا ہے جس کو کوئی اور شکل دینے کے لئے غریب، بے بس اور بے آواز مہاجرین کو جواز بنایا جارہا ہے۔

تاریخی ترقی کے مختلف مراحل سے آنے والے انسان جن کی زبان، رہن سہن، ثقافت، اقدار اور اخلاقیات سب مختلف ہوں اور صرف معاشی مجبوریاں قریب لے آئی ہوں \"angry\"آپس میں اس وقت تک ہم آہنگ اور مدغم نہیں ہوسکتے جب تک جذب و انجذاب کی خواہش دو طرفہ نہ ہو۔ نمک پانی میں حل ہوجاتا ہے لیکن ریت کو پانی میں ڈال کر کتنا ہی چمچہ گھما لیں وہ حل نہیں ہوتی۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے

خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے

کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے

اس ساری کشاکش میں ایک اہم کردار مسلم بنیاد پرستوں کا ہے جوایک طرف تو خود مسلمان ممالک کی پسماندگی، جہالت اور سیاسی عدم استحکام کا باعث ہیں، دوسری طرف وہ مغرب میں بسے مسلمانوں کو میزبان ماحول سے دور رہنے، کراہیت کھانے اور اپنی عظمت پر فخر کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے ہر قریہ میں جاری ایک بے مقصد جنگ میں بھی انہوں نے ہی جھونکا ہے اور ردِ عمل میں مسلم دشمنی کی لہر کو تیز کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے بھی وہ اپنے لنگوٹ \"google-a-muslims-yaz\"کس رہے ہیں۔ مولانا مودودی جن کو بجا طور پر تمام پر تشدد اسلامی تحریکوں کا نظریاتی بانی اور مفکرِ اعظم قرار دیا جاسکتا ہے کی تصنیف \’اسلامی ریاست\’ سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں:

٭مسلمان کہیں بھی مخلوط آبادی میں امن سے زندگی نہیں گزار سکتے۔

٭ کیا (اسلام) نے دنیا بھر کی حکومتوں اور سلطنتوں کے لئے پرامن رعیت فراہم کرنے کا اجارہ لیا ہے کہ ہر حکومت کو خواہ اس کا نظام کسی نوعیت کا ہو اپنی مشینری چلانے کے لئے اسلام کے کارخانہ سے ڈھلے ڈھلائے پرزے حاصل ہو جایا کریں۔ کیا اس کا کام یہی ہے کہ چند عقائد اور چند اصول اخلاق کی تعلیم دے کر آدمیوں میں اتنی لچک اور اتنی نرمی پیدا کردے کہ وہ ہر ںظامِ تمدن میں باآسانی کھپ سکے۔\"paris18n-3-web\"

٭ایک فاترالعقل ہی ہو سکتا ہے جو ایک ہی وقت میں اپنے پیش کردہ نظام کی پیروی کا مطالبہ بھی کرے اور ساتھ ہی دوسرے نظامات کے اندر پر امن وفادارانہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم بھی دے۔

٭جہاد کو نہ اس عذر کی بنا پر بند کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت بڑے جبابرہ ہم پر مسلط ہیں نہ اس بات کو جہاد نہ کرنے کے لئے بہانہ بنایا جاسکتا ہے کہ حکومت اگرچہ کفار کی ہے مگر ہم کو امن نصیب ہے اور ہمارے ساتھ انصاف ہورہا ہے۔ اور نہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہے کہ اگر ان کے اپنے ملک میں عدل کا دور دورہ ہو تو وہ مطمئن ہو کر بیٹھ رہیں۔

٭یقیناً ہمارے وجود کو ہر غیر اسلامی حکومت کے لئے کھلا چیلنج ہونا ہی چاہئے۔ کوئی اس کو برداشت کرے یا نہ کرے۔ غیر مسلموں کے ساتھ تعاون و تعامل ہوسکے یا نہ ہوسکے۔

\"islam-behead\"

٭جس کسی نے امن و سلامتی کا مطلب یہ سمجھا کہ شیطانی نظامات کے زیرِ سایہ اطمینان کے ساتھ سارے کاروبار چلتے بھی رہین اور مسلمان کی نکسیر تک نہ پھوٹے اس نے اسلام کا نکتۂ نظر بالکل نہیں سمجھا۔ اسلام کو دوسروں کا قائم کردہ امن نہیں بلکہ اپنا قائم قائم کردہ امن مظلوب ہے۔

٭اسلام یہ تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان آگے بڑھ کر نظامِ زندگی پر قبضہ کرلیں۔

٭ہمارے لئے یہ سوال قطعاً اہمیت نہیں رکھتا کہ غیر مسلم حکومتیں اپنے دائرۂ اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہیں اور کیا نہیں۔ ہم جس چیز کو حق سمجھیں گے اس پر اپنے ملک میں عمل کریں گے۔

\"terror-pic905-895x505-99656\"

پاکستان میں جنرل ضیا کے دور میں مولانا مودودی کے انہی نظریات کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا گیا اور اس سوچ کے حامل افراد کو کلیدی عہدوں پر فائز کیا گیا۔ چالیس سال گزرنے کے بعد بھی اس عمل پر نظرِ ثانی کرنے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ اسی نکتۂ نظر سے لیس افراد آپ کو مغرب میں بسے پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور عام مسلمانوں کو غیر ضروری تصادم سے بچانے کے بجائے اپنی کمیونٹی میں خوش فہمی، احساسِ تفاخر اور نفرت کو بڑھاتے ہیں۔

 مسلمانوں کو غیر اسلامی حکومتوں کے لئے چیلنج بننے کا درس دینے والے اسلامی انقلاب کے نقیب مولانا مودودی تمام عمر مغرب کی مادی ترقی اور تمکن ارض اللہ کو حقارت کی نظر سے دیکھنے اور دکھانے کے بعد جب 76 سال کی عمر میں اس بے مقصد اور فانی دنیا سے رخصت ہوئے تو بذاتِ خود نیویارک کے ایک اسپتال میں مہینوں سے زیرِ علاج تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments