فیض احمد فیض روایت پرست باغی (1)۔


فیض صاحب بھی برا شعر پڑھتے تھے۔ میں بھی برے شعر پڑھتی ہوں۔ ’ میرے برا شعر پڑھنے پر فیض صاحب کہا کرتے کیسے شعر پڑھتی ہو۔ اچھی طرح گھاس کاٹا کرو ” یہ بات کشور ناہید نے مجھے ڈاکیومنٹری کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے بتائی۔ جیو نیوز میںفیض صاحب پر بنائی ڈاکیومنٹری کا نام ’روایت پرست باغی‘ رکھا تھا اور ایکسپریس نیوز میں ان پر ایک گھنٹہ دورانیہ پر محیط ڈاکیومنٹری کا نام ’جنوں میں جتنی بھی گذری‘ رکھا۔ ان دونوں ڈاکیومینٹریز کے لیے کی گئی تحقیق اور انٹر ویوز سے بہت کچھ یاد آرہا ہے۔

سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ کبھی کبھی میری امی ایلس جارج چڑ کرابا سے کہتیں ’میں یہ نہیں مان سکتی کہ ایک آٹھویں جماعت کا لڑکا بغل میں شیلے کیٹس اور بائرن لے کر گھومتا تھا‘ اور ابا کہتے ’بھئی میں گھومتا تھا بغل میں شیلے کیٹس اور بائرن کو لے کر۔

فیض صاحب کے گھر کے پاس ہی ایک حویلی تھی جہاں مشاعرے ہوتے تھے۔ فیض صاحب نے بھی حصہ لینا شروع کیا جس پر ان کے استاد منشی سراج دین نے کہا ’میاں ٹھیک ہے تم بہت تلاش سے شعر کہتے ہو مگر یہ کام چھوڑ دو جب دل و دماغ میں پختگی آجائے تب یہ کام کرنا‘۔ فیض صاحب نے شعر کہنا ترک کر دیا۔ جب ایف اے کی جماعت میں تھے تو مرے کالج کے یوسف سلیم چشتی نے شاعری پر اکسایا تو دوبارہ شعر کہنا شروع کر دیا۔ پہلا باقاعدہ شعر یہیں تخلیق ہوا۔

لب بند ہیں ساقی میری آنکھوں کو پلا دے
وہ جام جو منت کش صہبا نہیں ہوتا

فیض صاحب کی شخصیت کا ایک حسین اور سادگی کا ایک پہلو ہمارے سامنے آشکار ہوتا ہے کہ کسی نے کہا شعر ترک کر دو انہوں نے ترک کر دیا کسی نے کہا شاعری کرو انہوں نے شعر کہنا شروع کر دیا

سلیمہ ہاشمی نے بتایا ”فیض صاحب کو ان کے والد جب لاہور لے کر آئے تو سیدھا علامہ صاحب کے پاس لے گئے۔ چرنوں میں بٹھایا اور کہا کہ میں اپنا بیٹا آپ کے پاس لے کر آیا ہوں اور یہ وہ لمحے تھے کہ فیض صاحب کے دل میں علامہ اقبال کی عزت دل میں اس طرح بیٹھی کہ آخر دم تک اس میں فرق نہ آیا“۔

افتخار عارف کہنے لگے ’بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ترقی پسند تحریک کا پہلا اجلاس جو 1936 میں لکھنو میں منعقد ہو ا اور جس کی صدارت پریم چند نے کی تو اس میں جو وفد پنجاب سے گیا تھا ان میں ڈاکٹر رشید جہاں، صاحبزادہ محمود الظفر اور فیض صاحب شامل تھے‘۔

اس ڈاکیومینٹری کے لیے میں کالا قادر گیا۔ فیض صاحب کا آبائی گھر دیکھااور وہ چھوٹی سی مسجد بھی دیکھی جو ان کے محلے میں تھی۔

میں نے لوک ورثہ میں تین سال کام کیا۔ وہاں پرانے لوگوں سے بہت سے عجیب و غریب واقعات سنے جو اس مضمون میں آپ کو بتاؤں گا۔ مزید یہ کہ ایلس جارج کے انٹرویو کے لیے میں پی ٹی وی کا بہت شکر گزار ہوں کیونکہ ایلس وفات پا چکیں تھیں۔ اس لیے پی ٹی وی سے ان کا انٹرویو حاصل کیا۔

ایلس جارج نے شادی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’تین افراد کی چھوٹی سی بارات تھی۔ میں نے فیض سے پوچھا، انگوٹھی لے کر آئے ہیں؟ انہوں نے کہا بالکل لے کر آیا ہوں۔ تو میں نے کہا کہ تمھارے پاس پیسے کہاں سے آئے؟ کہنے لگے میاں افتخار الدین سے قرض لیا تھا واپس تو دینا نہیں۔ میں نے کہا کیا یہ میرے ناپ کی ہے۔ کہنے لگے ہاں۔ میں نے انگوٹھی پہن کر چیک نہیں کی۔ سوچا نکاح سے پہلے بد شگونی والی بات ہے۔ شام کو دعوت ہوئی تھی۔ شاعر لوگ آئے ہوئے تھے مشاعرہ بھی ہوا تھا‘۔

سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ فیض کی شادی میں ان کی بہن کا بہت کردار تھا جس نے ماں کو یہ کہہ کر راضی کیا تھا کہ فیض کے گوری خاتون سے جو بچے پیدا ہوں گے وہ بہت خوبصورت ہوں گے لیکن جب میں پیدا ہوئی تو بالکل بھی خوبصورت نہیں تھی۔ کالی کلوٹی عجیب سے بالوں والی۔ تو میری ماں ایلس جارج نے رونا شروع کر دیا۔ اس پر بیگم آمنہ مجید نے میری ماں کو ڈانٹا اور کہا ’ایلس جب یہ بڑی ہوگی خود بخود خوبصورت ہو جائے گی‘ سلیمہ ہاشمی نے یہ واقعہ سناتے ہوئے بے اختیار قہقہہ لگایا۔

پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ ہر چھ مہینے بعد ہمارے گھر میں ایک جھگڑا ہوتا تھا اور ایلس کہتیں ” اب یہ سگریٹ مزید نہیں چلے گی میں تمھیں طلاق دے دوں گی۔ اس پر ابا سگریٹ کی راکھ جھاڑتے ہوئے آہستہ سے کہتے ’اوکے‘

کشور ناہید نے کہا کہ ایلس جارج بہت سلیقے والی عورت تھی اور ڈسپلن کے حوالے سے سخت تھیں۔ گلاس شیشے پر نہیں پیڈ پر رکھنا لازم تھا کہ شیشے پر داغ پڑ جاتے تھے تو ہم نظم وضبط کے عادی نہیں تھے کسی نے گلاس کہیں رکھ دیا تو کسی نے کہیں۔ اس پر حمید اختر کہا کرتے ’گلاس صحیح جگہ رکھو۔ ملکہ الزبتھ ناراض ہو جائے گی‘

مستنصر حسین تارڑ نے کیا خوب واقعہ سنایا، کہنے لگے میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور فیض صاحب کی ان دنوں دھوم تھی۔ میں ایک دن پاکستان ٹائمز کے دفتر پہنچ گیا اور مقصد تھا فیض صاحب سے آٹو گراف لینا۔ اب میں چھوٹا سا نیکر پہنا بچہ ڈرتا تھا تو باہر کھڑے چوکیدار سے پوچھا فیض صاحب اندر ہیں؟ کہنے لگا کون؟ ایڈیٹر صاحب؟

میں نے کہا ہاں ایڈیٹر صاحب کہنے لگا بس باہر نکلنے والے ہیں۔ میں دھوپ میں کھڑا رہا کافی دیر بعد فیض صاحب آتے دکھائی دے تو میں ڈرتا ہوا آگے گیا اور اپنی آٹو گراف بُک آگے رکھ دی۔ انہوں نے اس پر لکھا ” ہم پرورش ِ لوح و قلم کرتے رہیں گے“ میں نے دیکھا تو مایوس ہوا کہ میری اتنی لیاقت نہیں تھی کہ سمجھ سکتا کہ یہ لوح وقلم کیا ہوتے ہیں اور ان کی پرورش کیوں کر ہوتی ہے؟ میں نے فورا کہا فیض صاحب وہ والا لکھ کر دیں ”رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی“ کہنے لگے بھئی وہ تو ہمیں یاد نہیں میں نے کہا مجھے یاد ہے۔ تو اس طرح میں لکھواتا گیا اور وہ لکھتے گئے۔ بہت زمانے بعد نیشنل سنٹر اسلام آباد میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں میں بھی مقررین میں شامل تھا تو میں نے اپنی تقریر کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ فیض صاحب کی مدح تو پوری دنیا ہی کرتی ہے لیکن اس بندے کو کوئی پوچھتا ہی نہیں جو ان کو شعر لکھواتا رہا ہے۔ جس پر فیض صاحب نے مجھے بڑے تعجب سے دیکھا کیونکہ ان کو یہ واقعہ کہاں یا د ہونا تھا۔ اور جب میں نے آٹو گراف والا واقعہ سنا یا تو بہت خوش ہوئے۔

فیض صاحب پنڈی سازش کیس سے رہائی پاتے ہوئے

مارچ 1951 کو وزیر اعظم پاکستان نے اعلان کیا کہ دشمنوں کی ایک سازش پکڑی گئی ہے اس سازش میں فیض صاحب سمیت چودہ مردوں اور ایک عورت کو گرفتار کر لیا گیا۔

ایلس جارج نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ہم اوپر والے فلیٹ میں رہتے تھے۔ آواز آئی اور میں نے کھڑکی سے نیچے برآمدے میں دیکھا وہاں پچاس مسلح پولیس والے کھڑے تھے میں نے فیض کو جگایا اور کہا کہ نیچے پولیس والے کھڑے ہیں کوئی ریڈ لگتا ہے۔ کس لیے؟ فیض صاحب نے جواب دیا مجھے نہیں پتہ۔ سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ بہت صبح کا وقت تھا ہم سوئے ہوئے تھے جب اماں نے مجھے جھنجوڑا اور کہا کہ ابو کو خدا حافظ کہو۔ بس اتنا مجھے یاد ہے کہ میں نیند میں تھی اور ابو نے مجھے پیار کیا۔

دوسرے دن پولیس والے گھر کی تلاشی کے لیے آئے تو اماں جو قاعدے قانون سے واقف تھیں انہوں نے کہا کہ وارنٹ لے کر آئے ہیں؟ وارنٹ دکھائیں اور پھر انہوں نے کہا کہ میری طرف سے بھی گواہ ہوں گے۔ اس کے بعد انہوں نے صوفی تبسم کو بلایا اور تلاشی میں زیادہ تر مارکسسٹ لٹریچر کی کتابیں ہی تھیں۔ تو پوری ایک فہرست بنائی گئی جس پر صوفی چچا اور میری اماں کے دستخط ہوئے۔ بعد میں جب وہ کتابیں بطور ثبوت جج کے سامنے پیش کی گئیں کہ دیکھیں یہ قیدی نمبر فلاں فلاں کس طرح کی کتابیں پڑھتا تھا۔ اور کتابوں کے سر ورق پر زیادہ تر میری اماں کا نام ہی لکھا تھا ”ایلس جارج “ تو جج نے کہا بھائی یہ تو ان کا نام ہی نہیں ہے۔ لگتا ہے آپ غلط ملزم پکڑ لائے ہیں۔

فتح محمد ملک نے کہا کہ ان کی بیٹی نے کہا کہ تمام کیمونسٹ اور ترقی پسند ہمارے گھر کا راستہ بھول گئے تھے جب ابا کو قید کر لیا گیا تھا۔ یہی بات میں نے سلیمہ ہاشمی سے پوچھی تو انہوں نے یہ کہ کر تائید کی کہ ظاہر ہے ایسے موقع پرغیر کیا، اپنے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔

کشور ناہید نے کہا کہ ہم نے فیض صاحب سے کبھی پنڈی سازش کیس کے حوالے سے نہیں پوچھا۔ ارشد محمود نے بتایا کہ کبھی ہم پوچھتے تو کہتے۔ ’بھئی ہم نے کیا سازش کرنی تھی یہ ہمارے خلاف ایک سازش ہوئی تھی‘

کشور ناہید نے کہا کہ ان چار برسوں میں ایلس نے ان تھک محنت کی۔ سائیکل پر پاکستان ٹائمز کے دفتر جاتیں تھیں اور بچوں کا صفحہ ایڈٹ کرتیں تھیں، اس دوران انہوں نے ساری ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔ اس پر فتح محمد ملک نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ فیض صاحب کی ایک خوش قسمتی یہ تھی کہ ایلس جیسا رفیق کار ان کو میسر آیا۔ سلیمہ ہاشمی نے کہا کہ جسٹس کیانی تھے جنہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ
Threat to public safety
کیسے ہو سکتے ہیں جب انہوں نے کوئی کارروائی ہی نہیں کی اور فیض صاحب کی رہائی کا حکم دیا

تو اس پر میری اماں نے کہا کہ جج صاحب اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ دوبارہ ان کو گرفتار نہیں کریں گے۔ جس پر جسٹس صاحب نے کہا کہ بے فکر ہو جائیں اب صرف مارشل لاء ہی ہے کہ جس میں ان کو دوبارہ گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک سلیمہ ہاشمی نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا پتہ تھا کہ آئندہ یہ بھی ہو گا۔

اکتوبر 1958 میں جب مارشل لاءلگا تو فیض صاحب روس گئے ہوئے تھے۔ لوگوں نے کہا بھی کہ ابھی پاکستان نہ جائیں لیکن بقول سلیمہ ہاشمی میری سالگرہ تھی اور فیض صاحب کہتے کہ بیٹی کی سالگرہ ہے اس لیے مجھے پاکستان پہنچنا ہے لہٰذا وہ 13 دسمبر کو آگئے تھے 14 دسمبر کو بیٹی کی سالگرہ پر ساتھ تھے اور 15 دسمبر کو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

اس قید سے رہائی کے بعد خفیہ والے ہر وقت ان کے پیچھے رہتے۔ ارشد محمود نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ ڈرائیور کے ساتھ لاہور میں کسی جگہ گئے۔ دوسرے دن ڈرائیور نہیں تھا تو خود ہی گاڑی چلارہے تھے اور اسی جگہ جانا تھا۔ ہوا یہ کہ فیض صاحب راستہ بھول گئے۔ ایک جگہ گاڑی کھڑی کی اور اس جیپ کی جانب آئے جو اپنی طرف سے چھپ کر ان کی جاسوسی کر رہے تھے۔ جیپ کے پاس آئے اور کہا، ’ بھئی وہ تمھیں یاد ہے ہم کل کہاں گئے تھے‘۔ جاسوس کہنے لگے ”جی بالکل“ فیض صاحب نے کہا، ”بھئی ہم راستہ بھول گئے ہیں تو تم آگے آگے چلو ہم تمھارے پیچھے پیچھے آتے ہیں“ (جاری ہے)

وقار احمد ملک
اس سیریز کے دیگر حصےفیض صاحب روایت پرست باغی (2)۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments