فیض صاحب روایت پرست باغی (2)۔


بڑے انسان چھوٹے واقعات سے پہچانے جاتے ہیں، الفاظ کی جمع ترتیب بعض اوقات ایسے خیال کو جنم دے دیتی ہے کہ جس کا خود صاحب ہنر کو گماں بھی نہیں ہوتا۔

الفاظ کی پیشہ گری میں کچھ بہت اچھے پیشہ ور دیکھے گئے جو اپنی عام روزمرہ زندگی میں کردار کے حوالے سے کمزور واقع ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے بعض اوقات بڑے انسانوں کو ملنے سے مایوسی ہوتی ہے۔ فیض صاحب کے فکری اسلوب اور فنی محاسن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ میں نے اس مضمون کو ان کے روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات تک محدود رکھا ہے اور آپ کو محسوس ہو گا کہ فیض صاحب کو جو عزت نصیب ہوئی ہے اس کی بڑی وجہ شاعری کے علاوہ ان کی خوبصورت اور دھیمی شخصیت تھی۔

یہ واقعہ شاید صادق مسیح نے سنایا تھا جو لوک ورثہ کا ملازم بھی تھا اورفیض صاحب کا باورچی بھی۔ اسی کی زبانی سنیے

’جب فیض صاحب دفتر سے چھٹی کرکے چلے جاتے تو ہم صفائی کرنے والے، چپڑاسی اور سیکورٹی گارڈ وغیرہ ان کے کمرے میں اے سی لگا کر مزے سے فرش پر سو جاتے، ایک دن کیا ہوا کہ فیض صاحب کوئی فائل دفتر ہی بھول گئے۔ دفتر واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ فرش پر ہم لمبی قطار بنائے سو رہے ہیں۔ فیض صاحب نے دیکھا تو خاموشی سے دھیرے دھیرے قدم رکھتے اس الماری کی جانب بڑھے جس میں فائل پڑی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا ہم سب لوگ کچھ اس طرح سو رہے تھے کہ الماری تک پہنچنا مشکل تھا۔ فیض صاحب درمیان میں کوئی خالی جگہ دیکھتے وہاں پاؤں رکھتے اور پھر اگلی خالی جگہ کی تلاش کرتے۔ کرتے کرتے وہ الماری تک پہنچ گئے۔ میں الماری کے پاس ہی سویا ہوا تھا۔ انہوں نے احتیاط سے الماری کھولی، فائل نکالی اور الماری بند کرنے لگے۔ الماری بند کرنے کے دوران ہلکی سی آواز پیدا ہوئی جس سے میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو سامنے صاحب فائل ہاتھ میں تھامے میری طرف ہی دیکھ رہے تھے۔ میں اتنا شرمسار کہ اٹھنا محال۔ لیکن صاحب نے مجھے لیٹے رہنے کااشارہ کیا اور ہلکی سی آواز میں اتنا کہا، بھئی کچھ اس طرح سویا کرو کہ دفتر واپس آنا پڑے تو راستہ تو ہو۔ یہ کہہ کر وہ اسی طرح خالی جگہوں پر پاؤں رکھتے خاموشی سے واپس چلے گئے‘

ان کی بیٹی سے ایک واقعہ سنا۔ ” میں اس وقت چھوٹی سی بچی تھی، واش روم گئی تو وہاں دیکھا کہ ایک لال بیگ بیٹھا ہے۔ میں خوفزدہ ہو گئی واپس بھاگی اور ابا کو بتا یا، ابا نے تسلی دی کہ کچھ نہیں کہتا ہے لال بیگ لیکن میں نے اس وقت تک واش روم جانے سے انکار کر دیا جب تک کہ لال بیگ کو مار نہ دیا جائے۔ ابا بادل ناخواستہ اٹھے۔ ایک ہاتھ میں چپل اٹھائی اور واش روم میں گھس گئے۔ دروازہ بند تھا لیکن مجھے لال بیگ کو مارنے کی آوازیں سنائی دے رہیں تھیں۔ آخر فیض صاحب باہر نکلے اور کہا اب تسلی سے جاؤ۔ میں اندر گئی اور دیکھا کہ چپل پڑی ہے۔ جیسا کہ بچوں میں تجسس ہوتا ہے جیسا کہ بچوں میں تجسس ہوتا ہے اسی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر میں لال بیگ کی لاش دیکھنا چاہتی تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے چپل اٹھائی تو حیران رہ گئی۔ چپل کے نیچے کچھ نہیں تھا۔ اصل میں ہوا یہ تھا کہ ابا نے واش روم جا کر لال بیگ کو شو شو کر کے بھگا دیا تھا اور چپل کو فرش پر زور زور سے مارنے کا ڈرامہ کر کہ واپس آ گئے تھے۔ “

1962 میں فیض صاحب کو لینن امن انعام ملا، انعام ملنے کے بعد تہمتوں اور ملامتوں میں کچھ اور تیزی آ گئی۔ ایک خاص اخبار تو فیض صاحب کو لینن امن انعام یافتہ یوں لکھتا جیسے کسی نام کے ساتھ سزا یافتہ لکھا جاتا ہے۔ مگر وہ ان سے کبھی برہم نہ ہوئے۔ مستنصر حسین تارڑ نے اس دور کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ” فیض صاحب کی اس دور میں بہت مخالفت ہوئی۔ میں اس عہد میں تھااور ایک خاص سیکشن نے جس طرح ان کی کردار کشی کی ہے میں اس کا شاہد ہوں۔ ہم کڑھتے تھے اور جواب بھی دیتے تھے۔

افتخار عارف کہتے ہیں۔ ”میں نے ان سے اپنے سارے تعلق کے زمانے میں کبھی یہ نہیں دیکھا کہ فیض صاحب نے کسی کے بارے میں کوئی نامناسب کلمہ کہا ہو۔ کوئی ناروا جملہ کہا ہو۔ کوئی غیبت کسی کی کی ہو، کسی کی غیبت میں شریک رہے ہوں۔ “

فیض صاحب کی غیبت نہ کرنے کی عادت بہت مشہور بھی ہوئی اور ان کی پہچان کا لازمی جزو بن گئی۔ اسی وجہ سے خصوصی طور پر یہ سوال میں نے سلیمہ ہاشمی سے پوچھا۔

انہوں نے کہا۔ ” دیکھیں جب آپ غیبت کرتے ہیں تو آپ وہ حالات پیدا کرتے ہیں جس سے فساد برپا ہو سکتا ہے تو یہ تو انہوں نے ٹھان لی تھی کہ کسی کی غیبت نہیں کرنی۔ دوسرا یہ کہ وہ سمجھتے تھے انسان میں بنیادی طور پر صرف اچھائی ہی اچھائی ہے۔ “

مستنصر حسین تارڑ بولے۔ ” یہ بڑا عجیب لگتا ہے کہ آپ میں انسان کی بنیادی جبلتیں جیسے غصہ، حسدیا برائی کا رد عمل دینا وغیرہ سرے سے ہی نہ ہوں۔ اور حیرت انگیز بات ہے کہ واقعی یہ فیض صاحب میں سرے سے ہی موجود نہیں تھیں۔ “

کشور ناہید بولیں۔ ” حفیظ صاحب نے کچھ فضول سی باتیں کی تھیں کہ اس نے فلاں معاہدہ اتنے میں بیچ دیا وغیرہ وغیرہ۔ تو ہم نے کہا کہ فیض صاحب اس کا جواب دیں تو انہوں نے کہا میں جواب نہیں دیتا“

افتخار عارف نے کہا، ” کوئی تھے جن کے ہاں فیض صاحب جانے لگے۔ میں نام نہیں لوں گا۔ زہرہ آپا نے کہا کہ فیض صاحب آپ ہاں کہہ دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں تو اس پر انہوں نے کہا بھئی وہ ہمارے دوست ہیں۔ ، زہرہ آپا نے کہا نہیں وہ دوست نہیں ہیں آپ کے خلاف باتیں کرتے ہیں، تو اس پر فیض صاحب کہنے لگے بھئی آپ سنتی کیوں ہیں؟

اسی بات کو بڑھاتے ہوئے سلیمہ ہاشمی کہتی ہیں، ” میری اماں جو ہیں وہ ابا کی بہت سائیڈ لیتی تھیں اور ان کے حقوق کی بہت علمبردار تھیں۔ اس معاملے میں انہوں نے بہت ابا کو لعن طعن کی اور کہا کہ تمھیں پتہ ہے اس شخص نے تمھارے ساتھ کیا کیا اور تم بالکل اس کے ساتھ کھانا کھانے نہیں جاؤ گے۔ ادھر اماں نے منہ موڑا اور ادھر نکل گئے ابا ان سے ملنے۔ ویسے تو میری عادت بھی ابا کی طرح ہی ہے لیکن اس معاملے میں، میں نے بھی احتجاج کیا اورکہا کہ ابا۔ آپ کو معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے ساتھ بہت زیادتی کی اور آپ کو ان سے نہیں ملنا چاہیے۔ انہوں نے میری طرف گھورتے ہوئے دیکھا اور کہا۔ ”اپنی اماں کی سائیڈ نہ لیا کرو“

کشور ناہید نے کہا، ” ہم بیٹھے ہوتے تھے ان کے پاس اور چھیڑتے رہتے تھے ان کو۔ وہ زیادہ سے زیادہ بس یہی کہتے تھے ”اچھا بکواس بند کرو“۔

ارشد محمود نے ایک واقعہ سنایا۔ ” ایک دن میں فیض صاحب کے پاس بیٹھا تھا، ساتھ ہی کمرے میں شعیب ہاشمی بھی بیٹھے تھے جو ان کے داماد بھی ہیں۔ میں نے فیض صاحب سے کہا، فیض صاحب آپ نے بھی ایم اے کیا ہے اور میں نے بھی ایم کیا ہے۔ آپ نے بھی گورنمنٹ کالج سے پڑھا ہے۔ میں بھی گورنمنٹ کالج سے پڑھا ہوں۔ آپ نے بھی سولہ جماعتیں پڑھیں ہیں میں نے بھی سولہ جماعتیں پڑھیں ہیں۔ تو اس پر فیض صاحب نے تنگ آکر کہا بھئی تم کیا کہنا چاہ رہے ہو۔ میں نے کہا دیکھیں ناں یہ سب قدر مشترک ہوتے ہوئے بھی آپ ”فیض صاحب “ ہیں اور میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ اس پر فیض صاحب نے کہا بھی دیکھو تم میں اور ہم میں ایک بنیادی فرق ہے۔ ہمارے استاد تھے پطرس بخاری اور داماد کی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اور تمھارے یہ شعیب ہاشمی۔
تو بعد میں مجھے شعیب ہاشمی نے باہر نکل کر بہت برا بھلا کہا کہ تم میرے سسر سے ایسے سوالات جان بوجھ کر کیوں پوچھتے ہو جن سے میری بے عزتی ہو۔

تارڑ صاحب نے کہا، ” دیکھئے اشفاق صاحب نے جو رائے فیض صاحب کے حوالے سے دی ہے وہ بہت قابل غور ہے کہ ’کبھی اکیلے بیٹھے بیٹھے، خاموش اور چپ چاپ میں سوچا کرتا ہوں کہ فیض صاحب اگر حضور سرور کائناتﷺ کے زمانے میں ہوتے تو ان کے چہیتے غلاموں میں سے ہوتے، ۔ اب یہ بات جو اشفاق صاحب نے کہی ہے یونہی تو نہیں کہی۔ میں سمجھتا ہوں اشفاق صاحب ظاہر ہے کہ اس طرح کی رائے جب کسی کے بارے میں دیں گے تو صدق دل سے ہی دیں گے۔ “

افتخار عارف نے یادوں کو آواز دی۔ ” لندن میں گوپی چند نارنگ میرے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ میں، نارنگ اور فیض صاحب یونیورسٹی کے ہال میں پہنچے۔ اب جب لوگوں نے دیکھا کہ فیض صاحب آرہے ہیں تو سب ہندوستانی پاکستانی اکٹھے ہو ئے کوئی مصافحہ کر رہا ہے تو کوئی ہاتھوں کو بوسہ دے رہا ہے کوئی قدموں کو ہاتھ لگا رہا ہے۔ تو وہاں ایک شیعہ عالم تھے حجتہ الاسلام مہدی حکیم۔ شہید ہو گئے بعد میں۔ انہوں نے پو چھا کسی سے کہ یہ کون صاحب ہیں؟

تو میں نے ان کو یہ سوال پوچھتے سنا۔ میں نے پلٹ کر ان سے کہا کہ یہ فیض احمد فیض ہیں اور اردو شاعری کے ’آیت اللہ العظمیٰ، ہیں۔

(جاری ہے)

وقار احمد ملک
اس سیریز کے دیگر حصےفیض احمد فیض روایت پرست باغی (1)۔فیض احمد فیض : روایت پرست باغی (3)۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments