محترمہ فاطمہ جناح اور ان کی کتاب ”میرا بھائی“


ایک رات پہلے وہ شادی کی تقریب میں شامل ہوئیں اور اگلی صبح، حسب روایت، اخبار لینے کے لئے ان کے کمرے کا دروازہ نہ کھلا۔ جب کافی دیر تک دروازہ نہ کھلا تو لیڈی ہدایت اللہ کی موجودگی میں غسل خانہ کی کھڑکی توڑی گئی، کمرے میں جاکر معلوم ہوا کہ محترمہ فاطمہ جناح خالق حقیقی سے جا ملی ہیں۔ اپنی ”مادر ملت“ کے ساتھ دوران زندگی ”زندہ دل“ قوم نے جو کیا وہ تو باعث شرمندگی ہے ہی مگر 9 جولائی ( 1967 ) کو ان کی ہونے والی ”موت“ نے بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیا:

جیسا کہ وفات سے قبل فاطمہ جناح ”قصر فاطمہ“ کے تمام دروازے بند کروا کے چابی اپنے پاس منگوا لیا کرتی تھیں اور اگلی صبح کھڑکی سے چابی نیچے پھینک دیتی تھیں۔ تو فاطمہ جناح کو یہ کس قسم کا ڈر تھا؟ محترمہ کا آخری دیدار کیوں نہ کرنے دیا گیا؟ ان کے جنازے پر لاٹھی چارج کس کے حکم پر ہوا؟ محترمہ کی وفات کے بعد قائداعظم کے بھانجے، اکبر، ایوب خان کے دور میں پاکستان آئے، انہوں نے فاطمہ جناح کے قتل کی تحقیقات کرانے کی درخواست کی تو انہیں ”کورا“ جواب کیوں دیا گیا؟

غسل دینے والی خاتون کی طرف سے سے محترمہ کی گردن پر زخم ہونے اور ان کے کپڑے خون میں لت پت ہونے کا دعوی کیا گیا تو جنوری 1971 میں غلام سرور نامی شخص نے اختر علی محمود ایڈووکیٹ کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ایک پٹیشن دائر کی۔ اس درخواست پر سماعت کی تاریخ بھی مقرر کی گئی مگر کیا وجوہات بنیں کہ اس کیس کو آگے نہیں چلایا جا سکا؟ اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب یا تو تاریخ کے پاس ہی نہیں یا پھر تاریخ جواب دینا نہیں چاہتی۔

یہ سوال تو محترمہ کی وفات کے متعلق ہیں جن کے جواب تلاش کرنا دیوار میں ٹکریں مارنے جیسا ہے۔ اب ایک سوال اس وقت سے متعلق جب وہ حیات تھیں، وہ یہ کہ فاطمہ جناح کی طرف سے لکھی گئی ایک مختصر کتاب مائی برادر (میرا بھائی) اتنے سالوں تک منظر عام پر کیوں نہ آئی؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ یہ کتاب اس لیے ناقابل اشاعت تھی کیونکہ یہ ”نظریہ پاکستان“ کے خلاف تھی؟ فاطمہ جناح کی کتاب پر اٹھتے سوالوں کا جواب قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں دیا ہے کہ ”میرا بھائی“ میں دو مقام ایسے آتے ہیں جن کی وجہ سے اس کی اشاعت میں پس و پیش ہوتا رہا ہے۔ ان دو مقامات میں سے ایک ملاحظہ فرمائیں :

یہ واقعہ جولائی 1948 کا ہے جب قائداعظم علالت کی وجہ سے علاج اور آرام کے لیے زیارت میں تشریف رکھتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے لکھا ہے کہ جولائی کے آخر میں ایک روز وزیر اعظم لیاقت علی خان اور سیکرٹری جنرل مسٹر محمد علی اچانک زیارت پہنچ گئے۔ ان کے آنے کی پہلے سے کوئی اطلاع نہ تھی۔ وزیر اعظم نے ڈاکٹر الہی بخش سے پوچھا کہ قائد اعظم کی صحت کے متعلق ان کی تشخیص کیا ہے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ اسے مس فاطمہ جناح نے یہاں بلایا ہے اس لیے وہ اپنے مریض کے متعلق کوئی بات صرف انہی کو بتا سکتے ہیں۔ ”لیکن وزیر اعظم کی حیثیت سے میں قائد اعظم کی صحت کے متعلق متفکر ہوں“ ۔ ڈاکٹر نے ادب سے جواب دیا۔ ”جی ہاں، بے شک، لیکن میں اپنے مریض کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں بتا سکتا“ ۔ جب مس فاطمہ جناح نے قائد اعظم کو وزیراعظم کی آمد کی اطلاع دی تو وہ مسکرائے اور فرمایا۔ ”تم جانتی ہو وہ کیوں آئے ہیں؟ وہ دیکھنا چاہتے ہیں ہیں کہ میری علالت کتنی شدید ہے۔ میں کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہوں۔ تم نیچے جاؤ اور پرائم منسٹر سے کہہ دو کہ میں انہیں ابھی ملوں گا۔“

مس فاطمہ جناح نے کہا اب کافی دیر ہو گئی ہے۔ وہ کل صبح ان سے مل لیں۔
”نہیں۔“ قائد اعظم نے فرمایا۔ ”انہیں ابھی آنے دو اور بچشم خود دیکھ لینے دو۔“

وزیر اعظم نصف گھنٹے کے قریب قائد اعظم کے پاس رہے۔ اس کے بعد جب مس جناح اندر گئیں تو قائداعظم بے حد تھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے کچھ جوس مانگا، اور پھر چوہدری محمد علی کو اپنے پاس بلایا۔ سیکریٹری جنرل 15 منٹ تک قائد اعظم کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد مس فاطمہ جناح دوبارہ قائد اعظم کے کمرے میں گئیں اور پوچھا کہ کیا وہ جوس یا کافی پینا پسند فرمائیں گے؟ قائداعظم نے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ وہ کسی سوچ میں محو تھے۔ اب ڈنر کا وقت آ گیا تھا۔ قائد اعظم نے مس فاطمہ جناح سے فرمایا۔ ”بہتر ہے تم نیچے چلی جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ“ ۔ ”نہیں۔“ مس جناح نے اصراراً کہا۔ ”میں آپ کے پاس ہی بیٹھوں گی اور یہیں پر کھانا کھا لوں گی۔“ ”نہیں۔“ قائد اعظم نے فرمایا۔ ”یہ مناسب نہیں۔ وہ یہاں پر ہمارے مہمان ہیں۔ جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔“

مس فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ کھانے کی میز پر انہوں نے وزیر اعظم کو بڑے خوشگوار موڈ میں پایا۔ وہ ہنسی خوشی پر مذاق باتیں کرتے رہے جب کہ مس جناح کا اپنا دل اپنے بھائی کے لئے خوف سے کانپ رہا تھا، جو اوپر کی منزل میں بستر علالت پر اکیلے پڑے تھے۔ کھانے کے دوران چوہدری محمد علی چپ چاپ کسی سوچ میں گم رہے۔ کھا نا ختم ہونے سے پہلے ہی مس فاطمہ جناح اوپر چلی گئیں۔ انہوں نے بڑے ضبط سے اپنے آنسوؤں کو روک رکھا تھا۔ قائداعظم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ”فاطی، تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیے۔“

قدرت اللہ شہاب نے انگریزی مسودے کے الفاظ بھی شامل کتاب کیے ہیں۔ میرے پاس اس کتاب مائی برادر کا اردو ترجمہ ”میرا بھائی“ کے نام سے موجود ہے، جسے الفیصل ناشران نے شائع کیا اور ایڈیشن مارچ 2009 ہے۔ اس کتاب میں لیاقت علی خان کے متعلق یہ واقعہ بالکل توڑ مروڑ کے لکھا گیا ہے اور کچھ الفاظ کو تو سرے سے لکھنے کی زحمت ہی نہیں کی گئی، ہو سکتا ہے ایسا لکھنے کا فیصلہ ”نظریہ پاکستان“ کی حفاظت کرتے ہوئے ”ملک کے وسیع تر مفاد“ میں کیا گیا ہو۔ مگر آخر کب تک ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے ”حقائق“ نظر نہ آنے کا دعوی کرتے رہیں گے اور کب تک دور کنارے کھڑے حقائق ہم پر ہنستے رہیں گے۔ کب تک؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments