مدرسوں کی غنڈہ فورس ختم کیوں نہیں کی جاتی؟


مولانا عبدالعزیز نے اسلام آباد انتظامیہ کو سیکٹر ای۔7 میں واقع جامعہ فریدیہ کا تنازعہ حل کرنے اور اس مدرسہ کو ان کی ملکیت میں دینے کا اہتمام کرنے کے لئے ایک ماہ کی ’مہلت‘ دی ہے۔ یہ گنجائش بھی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنے والے علما کی اس سفارش پر دی گئی ہے کہ ہفتہ 11 جولائی سے مدارس میں امتحان شروع ہورہے ہیں۔ اس دوران مولانا عبدالعزیز جامعہ فریدیہ کے تنازعہ کو طول دے کر طالب علموں کا نقصان نہ کریں۔

خبروں کے مطابق اسلام آباد انتظامیہ نے یقین دلایا ہے کہ اس دوران جامعہ فریدیہ کی ملکیت کے بارے میں معاملات طے کرکے جائز ’مالک‘ کو اس کا قبضہ دلوایا جائے گا۔ اس حوالے سے یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ انتظامیہ یا مولانا عبدالعزیز کی طرف سے اس نام نہاد ’معاہدہ‘ کے بارے میں کوئی واضح بیان جاری نہیں کیا گیا۔ البتہ طرفین نے تصدیق کی ہے کہ مولانا عبدالعزیز اپنی اہلیہ اور 200 کے لگ بھگ حامی طالب علموں کے ہمراہ واپس سیکٹر جی۔ 7 میں جامعہ حفصہ لوٹ گئے ہیں۔ جامعہ حفصہ مولانا عبدالعزیز کا گڑھ ہے اور وہاں سے ہی و ہ پاکستان کے دارالحکومت کے ’امن و امان ‘ کے بارے میں فیصلے صادر کرتے ہیں۔

اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ مولانا عبدالعزیز کا یہ پہلا معاہدہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ پہلی بار ہے کہ حکومت کے نمائیندوں نے اس انتہا پسند مولوی کے ساتھ طے پانے والے کسی معاہدے کو ’خفیہ‘ رکھنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس سال کے شروع میں جامعہ حفصہ کی طالبات اور دیگر حامیوں کے ہمراہ مولانا عبدالعزیز نے لال مسجد اور اس سے متصل جامعہ حفصہ کی پرانی زمین پر دھرنا دیا تھا۔ اس وقت بھی ’مذاکرات‘ اور علما کی مدد، ترغیب و لالچ کے ذریعے مولانا کو لال مسجد سے جانے پر راضی کیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر اسلام آباد انتظامیہ نے جامعہ حفصہ کے لئے دارالحکومت میں مولانا کی من پسند جگہ پر 20 کنال قطعہ اراضی فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تب بھی مولانا نے اپنی شرائط پر ہی لال مسجد کو خالی کیا تھا اور اب جامعہ فریدیہ کو خالی کرتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق انتظامیہ سے وعدہ حاصل کیا ہے۔ دارالحکومت میں امن و امان اور قانون نافذ کرنے کی ذمہ دار انتظامیہ نے ایک ایسے شخص کے ساتھ ایک بار پھر ’مفاہمت‘ سے مسئلہ حل کرنے میں ہی عافیت سمجھی ہے جو 2007 میں مشہور زمانہ لال مسجد تصادم میں براہ راست فوج کے ساتھ جنگ کرنے اور درجنوں افراد کی موت کا ذمہ دار ہے۔

یہ سمجھنا سادہ لوحی ہوگی کہ اسلام آباد پولیس یا ڈپٹی کمشنر اس حساس معاملہ میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ یا یہ کہ جامعہ فریدیہ میں ایک ہفتہ تک جاری رہنے والی تصادم کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے وفاقی حکومت سے اعلیٰ ترین سطح پر رابطہ نہیں کیا گیا ہوگا۔ اگر وزیر اعظم کو براہ راست مطلع نہ بھی کیا گیا ہو تو بھی یہ قیاس ممکن نہیں کہ اس معاملہ کو درپردہ وعدوں کے ذریعے حل کرنے میں وزیر اعظم ہاؤس کی سرپرستی حاصل نہیں۔ یہ صورت حال ایک ایسے وزیر اعظم کی نگرانی میں رونما ہوئی ہے جو نیا پاکستان بناتے ہوئے قانون کی علمداری کو یقینی بنانا چاہتے ہیں یا کم از کم اس کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ خاص طور سے اپوزیشن لیڈروں اور سابقہ حکمرانوں کا نفرت انگیز انداز میں حوالہ دیتے ہوئے انہیں ان کے ’جرائم‘ کی سزا دلوانے کا اعلان ضرور کرتے رہتے ہیں۔ ایسے بے باک و نڈر اور ’کسی سے نہ ڈرنے والے‘ وزیر اعظم کو اس بات کا جواب تو دینا چاہئے کہ ان کی حکومت ایک مولوی سے کیوں خوف زدہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سماج میں انتشار، نفرت اور گروہ بندی کو فروغ دینے والا ایک مولوی دارالحکومت میں اتنا طاقت ور ہوچکا ہے کہ وہ انتظامیہ کو بار بار اپنی شرائط ماننے پر مجبور کرتا ہے۔

دینی مدرسے تعلیم و تربیت کے علاوہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تربیت گاہیں ہونے چاہئیں۔ کوئی بھی مدرسہ خواہ اسے قائم کرنے میں کسی نے بھی کردار ادا کیا ہو، ایک مرتبہ قیام کے بعد کسی ایک فرد یا خاندان کی ملکیت قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اسے ’پبلک پراپرٹی‘ سمجھا جانا چاہئے۔ ملک میں کوئی بھی مدرسہ کوئی ایک مولوی اپنی گرہ سے روپے صرف کرکے قائم کرتا ہے اور نہ ہی اس کے مصارف اپنی جیب سے پورے کرتا ہے۔ وہ لوگوں کی امداد اور چندوں سے ایسا انتظام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ پھر کسی مولوی کو یہ عذر تراشنے کی اجازت کیوں کر دی جا سکتی ہے کہ یہ مدرسہ چونکہ اس کے باپ نے قائم کیا تھا، اس لئے اب وہ اس کی ملکیت ہے۔ اسلام آباد انتظامیہ نے بادی النظر میں مولانا عبدالعزیز کے ساتھ تازہ معاہدہ میں یہی مانا ہے کہ ایک ماہ کے اندر مولانا عبدالغفار کو جامعہ فریدیہ سے نکل جانے پر آمادہ کرلے گی تاکہ عبدالعزیز اپنی اس ملکیت پر قبضہ بحال کر سکیں۔

کسی مدرسہ کی ملکیت پر کھڑا کئے جانے والے اس تنازع سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ملک کے طول و عرض میں موجود ہزاروں مدرسوں کی ملکیت اور انتظام کے بارے میں واضح انتظامی فیصلے کئے جائیں۔ اگر اس حوالے سے ملکی قوانین غیر واضح اور مبہم ہوں تو نئی قانون سازی کے ذریعے اس ابہام کو دور کیا جائے تاکہ کوئی مولوی کسی دینی مدرسے پر حق ملکیت کے نام پر اپنے حامیوں کے ساتھ غنڈہ گردی پر نہ اتر آئے اور اپنی مرضی کا فیصلہ مسلط کرنے پر اصرار نہ کرے۔ پاکستان میں دینی مدرسوں کے ماحول، مالی امور اور انتظام کے علاوہ وہاں دی جانے والی تعلیم کے بارے میں متعدد سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ ملک میں گزشتہ چند دہائیوں سے پھیلنے والی دہشت گردی میں مدرسوں کے کردار کی وجہ سے یہ معاملہ پاکستان کے علاوہ عالمی سطح پر بھی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔

اس پس منظر میں حکومت کو مدرسوں پر کنٹرول کے حوالے سے جرات مندانہ اور قومی مفاد سے ہم آہنگ فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ کے بعد اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے متعدد اقدام کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان میں ایک 20 نکاتی قومی ایکشن پلان بھی شامل تھا۔ اس ایکشن پلان کا بنیادی مقصد ملک کے دینی مدرسوں کو ایک انتظام میں لانے اور ان میں پڑھائے جانے والے نصاب پر نظر ثانی تھا۔ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ مدرسوں کے نصاب سے نفرت انگیز اور فرقہ پسندی پر مبنی مواد خارج کیا جائے گا تاکہ یہ دینی ادارے انتہا پسند عناصر کے ٹھکانے نہ بنیں اور معاشرے میں انتشار پھیلانے اور منافرت کا سبب نہ ہوں۔ پاکستانی حکومت ایسے فیصلوں کو دہشت گردی کے خلاف اپنی جدوجہد کے ثبوت کے طور پر پیش کرتی ہے لیکن ان پر عمل درآمد کے معاملہ میں ہمیشہ تساہل اور کمزوری کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دینی مدرسے چلانے والے مہتممین کے دباؤ میں آج تک قومی ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ گزشتہ حکومت میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ہر تھوڑی دیر بعد مدرسوں کو پابند کرنے کا اعلان ضرور کرتے تھے لیکن نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگا کر برسر اقتدار آنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے اس حوالے سے خاموشی اختیار کی ہے۔

دینی مدرسوں پر افراد یا خاندانوں کا قبضہ سیاسی پارٹیوں پر افراد یا خاندانوں کے قبضہ سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ پاکستان مدارس کو بے لگام چھوڑنے کی بھاری قیمت ادا کرچکا ہے۔ اب بھی ایف اے ٹی ایف جیسے فورمز پر دہشت گردی کی فنانسنگ کے حوالے پاکستان کو جوابدہی پر مجبور کیا جارہا ہے اور اس کا نام بدستور گرے لسٹ پر ہے جسے سفارتی منت سماجت کے ذریعے بلیک لسٹ پر جانے سے روکا جاتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ اب قومی مفاد کے لئے نقصان کا سبب بننے والے دینی مدارس کے بارے میں شفاف حکمت عملی اختیار کی جائے۔ اس میں پہلا قدم مدرسوں پر ذاتی یا خاندانی اجارہ داری یا حق ملکیت کے طریقہ کو ختم کرنا ہونا چاہئے تاکہ مولانا عبدالعزیز جیسے لوگ مدارس کو اپنی غنڈہ گردی مسلط کرنے کے لئے استعمال نہ کریں۔

تحریک انصاف کی حکومت اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر کا وعدہ کر کے اب اس سے فرار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ملک کی ایک اہم اقلیت کو مندر بنا کر دینے کا وعدہ کرنے کے بعد اب مذہبی گروہوں کے دباؤ میں اس معاملہ کو مؤخر کرنے کے بہانے تلاش کئے جا رہے ہیں۔ یہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا کر دراصل مندر تعمیر کروانے کے سرکاری وعدے سے انحراف کی صورت نکالی جا رہی ہے تاکہ ایسے مذہبی انتہا پسندوں سے محفوظ رہا جائے جو مندر کے لئے مخصوص پلاٹ پر اذان دے کر اسلام کی سربلندی کا اعلان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ملک میں ایک آئینی حکومت ہے لیکن لاک ڈاؤن کا معاملہ ہو، مندر کی تعمیر کا مسئلہ ہو یا پھر مدرسوں کے طالب علموں کو غنڈہ فورس بنانے کا طریقہ، حکومت پسپائی اختیار کرکے ایسے عناصر کو مضبوط کررہی ہے جنہوں نے عقیدے کے نام پر معاشرے میں نفرت، فرقہ بندی اور انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے۔

کسی مدرسے کے انتظام اور ملکیت کا معاملہ ایک طرف لیکن اسلام آباد انتظامیہ اور پاکستانی حکومت مولانا عبدالعزیز جیسے کسی شخص سے یہ سوال کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کرتی کہ وہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے والے طالب علموں کی غنڈہ فورس کیسے بنا سکتے ہیں؟ جو حکومت یہ سوال کرتے ہوئے ایسے غیر قانونی اقدام کا تدارک نہ کر سکے، اسے اپنی طاقت پر ناز کرنے کی بجائے کمزوری پر شرمسار ہونا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments