صرف آٹھ باتیں۔ ۔ ۔ ۔


ان آٹھ باتوں سے تو آپ بھی محفوظ نہیں ہیں اور حاتم نے بھی انہی آٹھ باتوں کا تذکرہ کیاتھا جنہیں سن کر شیخ بلخی نے بھی یہ اقرارکیاتھا کہ تمام علوم کی جڑ یہی آٹھ باتیں ہیں۔

1:دنیا کا کون سا انسان ہے جس کا کوئی نہ کوئی محبوب نہ ہو یا اسے کسی محبوب کی ضرورت نہ ہو؟

2: یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ قیمتی چیز کو سنبھال کر رکھتا ہے اور اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اس قیمتی چیز کو کسی محفوظ جگہ سنبھال کر رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بینکوں کا تصور پیداہواکیونکہ انسان کو دولت رکھنے کے لیے کسی محفوظ جگہ کی ضرورت تھی۔

3: دنیا کا کوئی مذہب پڑھ لیں اس میں جنت اور دوزخ کا تصور موجود ہے۔ مسلمان، ہندو، یہودی، عیسائی، سب کے ہاں نہ صرف جنت دوزخ کا تصور موجود ہے بلکہ جنت کے حصول اور دوزخ سے بچنے کے طریقہ بھی بتایا گیا ہے ۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوزخ سے بچنا چاہتا ہے اور جنت میں جانا چاہتا ہے۔

4: عزت، پوری دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ملے جسے ”عزت مند“ کہلانا پسند نہ ہو یا اسے یہ بات پسند ہو کہ اسے ”بے عزت“ کہا جائے اور اس کی عزت (Respect) نہ کی جائے۔ آپ پوری دنیا گھوم لیں آپ کو ایک بھی ایسا ملک نہیں ملے گا جہاں عزت مند انسان کو ناپسند کیا جاتا ہو اور بے عزت لوگوں کو پسند کیا جاتا ہو۔

5: انسان کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ اسے برانہ کہا جائے۔ ایک تحقیق کے مطابق، بلکہ آپ خود بھی اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور آج تک جو لڑائیاں آپ کے علم میں ہیں ان کا تجزیہ کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بیشتر لڑائی جھگڑے اس بات پر ہوئے کہ ایک فریق نے دوسرے کو براکہا تھا۔ یعنی ہر انسان یہ بات پسند کرتا ہے کہ اسے اچھاکہا جائے نہ کہ برا۔

6: انسان کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ اس کی کسی سے دشمنی نہ ہو یا کوئی بھی اس کا دشمن نہ ہو۔ آپ دنیا کی عدالتوں میں موجود مقدموں کا ریکارڈ نکال کر دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے کہ سب مقدمات میں ایک چیز مشترک ہو گی اور وہ ہے دشمنی۔ ہر انسان دشمنی یا دشمنوں سے بچنا چاہتا ہے اور اگر اس کی کسی سے یا کسی کی اس سے دشمنی ہے تو وہ کم از کم اس دشمن سے محفوظ رہنے کا خواہش مند ضرور ہے۔

7: لالچ، یہ ایک ایسی سیڑھی ہے جس پر چڑھنے والے کا ہر قدم ذلت کی طرف اٹھ رہا ہوتا ہے۔ شاید یہی ہے کہ وجہ ہے کہ قومیں اپنے بچوں کو بچپن میں ہی نصاب میں لالچی کتے (Greedy Dog) کی کہانی پڑھاتی ہیں تاکہ انہیں پتا چلے کہ لالچ صرف کتوں کے لائق ہے نہ کہ انسان کے اور یہ کتے کو اس کی اپنی ہڈی سے بھی محروم کر دیتی ہے۔ کوئی بھی انسان لالچی کہلانا پسند نہیں کرتا لیکن شاید ہی کوئی ہو جو اس سے خالی ہو۔

8:بھروسا، یہ انسان کی ابدی اور ازلی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں ہر کسی کو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی پر بھروسے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھروسامند انسان شروع سے معاشرے کی ضرورت رہا ہے۔ یہ ایک ایسا وصف ہے جو دشمن کو بھی آپ کی چوکھٹ پر لے آتا ہے۔ کفار مکہ آپ ﷺ کے جانی دشمن تھے لیکن بھروسا اتنا کرتے تھے کہ امانتیں رکھنے کی باری آتی تو پورے مکے میں آپ سے بڑھ کر کوئی بھروسے دار نظر نہ آتا تھا۔

جدید نفسیات کی روشنی میں ان تمام باتوں کا تعلق روحانیت (Spiritualism) سے ہے۔ انسان کی کچھ بیماریوں کا تعلق جسم سے ہوتا ہے اور کچھ کا تعلق روح سے۔ جسمانی بیماریوں کا علاج میڈیکل میں موجود ہے لیکن روحانی اور باطنی امراض کا علاج صوفیاجبکہ جدید دور کی اصطلاح میں سائیکالوجسٹ کے ہاں ملتا ہے۔ انبیا اور اولیا انہی امراض کا علاج کر کے انسان کو باطنی تطہیر کا حامل بنایا کرتے تھے۔ ان آٹھ چیزوں کا علاج کیسے کیا جائے؟

ایک روش شیخ بلخی ؒ نے اپنے شاگرد حاتم سے پوچھا: تم بتیس سالوں سے میرے ساتھ ہو۔ اتنے عرصے میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا ہے؟ حاتم نے جواب دیا :استاد محترم صرف آٹھ مسئلے ہی سیکھ سکا ہوں۔ حضرت بلخی نے کہا:اتنے عرصے میں صرف آٹھ باتیں؟ حاتم نے جواب دیا : جناب اس سے زیادہ کچھ نہیں سیکھ سکا۔ شیخ بلخی ؒ نے پوچھا: اچھا بتاؤ کیا سیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: 1 : میں نے دیکھا کہ ہر کسی کا کوئی نہ کوئی محبوب ہوتا ہے جسے وہ جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا محبوب زیادہ سے زیادہ قبر میں مٹی ڈالنے تک اس کا ساتھ دیتا ہے۔

میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ قبر میں انسان کے ساتھ صرف اعمال جاتے ہیں۔ پس میں نے نیکیوں کو اپنا محبوب بنایا۔ 2 :میں نے دیکھا جس کے پاس کوئی قیمتی چیز ہوتی ہے وہ اسے محفوظ رکھناچاہتا ہے۔ پھر میں نے اللہ کا فرمان پڑھا کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔ پس میرے پاس جو بھی چیز قیمتی تھی میں نے اسے اللہ کی طرف پھیر دیا تاکہ محفوظ رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ 3 :میں نے دیکھا کہ ہر انسان جنت کا خواہش مند ہے۔

پھر اللہ کا یہ فرمان پڑھا کہ جو اللہ کے سامنے جوابدہ ہونے سے ڈرتا رہا اس کا ٹھکاناجنت ہے۔ پس میں نے اپنے نفس کا احتساب کر ناشروع کر دیا۔ 4 :میں نے دیکھا کہ دنیا میں ہر کوئی عزت کا متمنی ہے۔ میں نے سوچا کہ عزت کیسے کمائی جائے تو اللہ کا یہ فرمان نظر آیا کہ اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو متقی ہے پس میں نے تقویٰ اختیار کر لیا۔ 5 : میں نے جان لیا کہ تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے تو حسد سے محفوظ ہو گیا۔ 6 : دشمن کا خیال آیا تو سوچا کہ میرا اصلی دشمن کون ہے؟

اللہ کا فرمان دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرا اصلی دشمن شیطان ہے پس میں نے انسانوں سے دشمنی چھوڑدی اور امن پالیا۔ 7 :میں نے دیکھا کہ اس دنیا میں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ کمانے کی خاطر لالچ میں گرفتار ہو گیا ہے تو اللہ کے اس فرمان کی طرف توجہ کی کہ رزق کی ذمہ داری اور تقسیم ہمارے ذمہ ہے۔ پس میں نے اللہ پر توکل کر لیا کہ میرے حصے کا رزق مجھ سے کوئی چھین نہیں سکتا تو لالچ سے محفوظ ہو گیا۔ 8 : میں نے غور کیا کہ جب انسان کا بھروساٹوٹتا ہے تو وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

پس میں نے اللہ کی اس فرمان کی طرف دھیان دیا: جو اللہ پر بھروسا کرتا ہے وہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ پس میں نے اللہ پر بھروساکرنا شروع کر دیا اور ٹوٹنے محفوظ رہا۔ یہ سن کر شیخ بلخی ؒ نے فرمایا:اے میرے پیارے شاگرد! سلامت رہو۔ میں نے تمام قرآنی اور پہلی آسمانی کتابوں کے علوم کی جڑ انہی آٹھ باتوں کو پایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments