فیس بک انتظامیہ کا دوہرا معیار


امریکا میں سیاہ فام شہری کی سفید فام پولیس افسر نے نسلی عصبیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماورائے عدالت جان لے لی، تو دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے خلاف شدید عوامی ردعمل نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کی۔ صدر ٹرمپ اپنے منتازع بیانات کی وجہ سے سوشل میڈیا میں شہرت رکھتے ہیں، ٹویٹر کا استعمال، کسی جنگی ہتھیار کے طرح کرنا ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ تاہم سوشل نیٹ ورک کے سب سے بڑے سماجی رابطے کی ویب سائٹ، فیس بک کو اس وقت شدیداخلاقی و معاشی دباؤ کا سامنا ہے۔

فیس بک کو اس سے قبل 2016 میں امریکی صدارتی انتخابات لاکھوں اور 2019 میں پانچ کروڑ صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت نہ کرنے کے الزامات کا سامنا رہا اور فیس بک انتظامیہ کو اعتراف کرنا پڑا کہ صارفین کی نصف تعداد کا ڈیٹا چوری ہوا۔ واضح رہے کہ فیس بک انتظامیہ اخلاقی و انتظامی ضوابط کے تحت دوہرے معیار کا شکار ہے۔ جس بنا پر عوام کے شدید ردعمل کے مد نظر تجارتی کمپنیوں نے فیس بک بائیکاٹ اور فیس بک ڈیلیٹ مہم میں حصہ لے کر اشتہارات میں کمی کی، جس کی وجہ سے فیس بک کے مالک مارک ذکر برگ کو قریبا 7 ارب ڈالر (سوا گیارہ کھرب روپے ) کا نقصان ہوچکا ہے، دولت میں کمی کے باعث مارک ذکر برگ دنیا کی امیرترین اشخاص کی فہرست میں تیسرے سے چوتھے نمبر پر آچکے ہیں۔

گو کہ فیس بک کو اشتہارات نہ دینے کہ مہم امریکی سیاہ فام فارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شروع ہوئی، کیونکہ فیس بک انتظامیہ پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے منافع کے لئے ایسے مواد کو جاری کرتا ہے، جس سے تشدد و نفرت پھیلتا ہو۔ فیس بک انتظامیہ نے بائیکاٹ کرنے والی کمپنیوں سے مذاکرات بھی کیے تاہم جون کے آخری مذاکرات میں مارک ذکربرگ، کاروباری کمپنیوں کو مطمئن کرنے میں ناکام دکھائی دیے۔ مشہور زمانہ سینکڑوں برانڈز نے فیس بک سوشل نیٹ ورک کو نفرت بند کرو (Stop Hate For Profit) کے ٹرینڈ پراشتہارات نہ دینے کا فیصلہ کیا، تمام تر کوششوں کے باوجود، سوشل میڈیا گروپ اب تک احتجاجی تحریک کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔

اب اس مہم میں مشہور جرمن گروپس، جن میں کھیلوں کا سازو سامان اور ملبوسات بنانے والی معروف جرمن کمپنیاں ایڈیڈاس، پوما، ووکس ویگن، ایس اے پی اور ہینکل بھی شامل ہوگئے اور کمپنیوں نے فیس بک اور انسٹاگرام کو اشتہارات نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ کچھ کمپنیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف جولائی میں ہی نہیں بلکہ غیر معینہ مدت تک فیس بک پر اشتہار بندکرنا چاہتے ہیں۔ کچھ معاملات میں، اشتہارات ر رکنے سے نہ صرف فیس بک، بلکہ دوسرے آن لائن پلیٹ فارم جیسے کہ ٹویٹر اور یوٹیوب پر بھی اثر پڑے گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل مائیکرو سافٹ، یونی لیور، ہونڈا، فورڈ، کوکاکولا، پیپسی، اسٹار بکس، چاکلیٹ جائنٹ ہرشیز سمیت دیگر معروف ادارے بائیکاٹ مہم میں شامل ہوئے۔

بائیکاٹ مہم پر ورلڈ ایسوسی ایشن آف ایڈورٹائزرز ڈبلیو ایف اے کے ایک سروے کے مطابق 58 کمپنیوں میں سے ایک تہائی، جو عالمی اشتہاری اخراجات میں $ 92 ارب کی نمائندگی کرتی ہے۔ پانچ میں سے دو نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، اور تیس فیصد، نے کہا تھا کہ وہ بائیکاٹ میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ سروے 25 اور 26 جون کو کیا گیا تھا، اور تب سے اس تحریک نے ایک بار پھر تیزرفتاری اختیار کرلی ہے۔ اب تعداد 400 کمپنیوں سے زاید ہوچکی ہے۔

آن لائن پورٹل ”ایکزیوس“ کی ایک رپورٹ کے مطابق پرنس ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن نے کمپنیوں کے سی ای اوز کو بائیکاٹ میں شامل ہونے پر مجبور کیا۔ فیس بک کے خلاف بائیکاٹ کی یہ پہلی مہم نہیں ہے۔ دو سال قبل سوشل نیٹ ورک اور برطانوی کمپنی کیمبرج اینالیٹیکا نے ڈیٹا اسکینڈل کے بعد، صارفین کو ”#deletefacebook“ کے ٹرینڈکے تحت اپنے اکاؤنٹس کو حذف کرنے کو کہا گیا تھا۔ تاہم، اس مہم کو واضح کامیابی نہیں مل سکی۔

معاشی تجزیہ گاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیس بک بائیکاٹ مہم گرچہ انتظامیہ کے لئے نقصان کا باعث بن رہی ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان خود ان کمپنیوں کو ہی ہوگا جو سستے نرخوں پر زیادہ سے زیادہ افراد تک دنیا بھر میں اپنی پراڈکٹ کی تشہیر کرتے ہیں۔ گذشہ برس فیس بک کی آمدنی 70 ارب ڈالر رہی جس میں اشتہاری کمپنیوں کا حصہ صرف چھ فیصد تھا۔

فیس بک کے مالک مارک زک برگر نے جارج فلائیڈ کی ویڈیو فیس بک پر پوسٹ کرنے والے صارف ڈانیلا فرازیرکی تعریف کی تھی کہ اس عمل سے نسل پرستی کے رجحان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ فیس بک نے اظہار یک جہتی کے نام پر اپنا لوگو بھی سیاہ کر دیا تھا، اور نسل پرستی کے خلاف کا م کرنے والی این جی اوز کو ایک کروڑ ڈالرز کی مالی امداد دینے کی پیش کش بھی کی۔ فیس بک انتظامیہ یہاں دوہرے معیار کا شکار نظر آتی ہے۔ بالخصوص تجارتی مفادات کے تحت فیس بک انتظامیہ دین اسلام، حضرت محمد ﷺ، قرآن پاک اور اصحاب رسول رضوان اللہ اجمعین کے خلاف اسلام فوبیا جیسی پوسٹوں کو ختم کرنے کے بجائے بڑھاوے کا موجب بنتی ہے۔

یہاں یہ بات امر بھی قابل ذکر ہے مقبوضہ کشمیر میں ہند انتہا پسندوں کی ریاستی دہشت گردی کو نمایاں کرنے والی تصاویر، ویڈیو و تحاریر کو اخلاقی نظم وضبط کے خلاف کرکے پوسٹ ڈیلیٹ کرادی جاتی ہے یا پھر صار ف ک اکاؤنٹ ہی بند کر دیا جاتا ہے۔ فیس بک سوشل نیٹ ورک میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دنیا بھر میں مسلم امہ کے مذہبی جذبات مجروح کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے خلاف فیس بک انتظامیہ کا دوہرا معیار، انصاف فراہم کرنے میں حائل رہا ہے۔

فیس بک کے خلاف تجارتی اداروں کی جانب سے بائیکاٹ مہم کے پس منظر میں بھی تجارتی مقاصد کارفرما ہیں، کیونکہ نسل پرستی کی ہنگامہ آرائیوں و پر تشدد مظاہروں میں ان کی املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے، جب کہ کرونا صورتحال کے بعد معاشی جھٹکے میں تجارتی کمپنیوں کو اپنے تمام صارفین کے لئے یکساں رویہ اختیار کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ نسل پرستی کے خلاف مہم صرف امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ دنیا بھر میں اس کے اثرات پھیلے۔

2018 کو سری لنکا میں فیس بک نے پر تشدد ہنگامو ں میں اپنا پلیٹ فارم استعمال ہونے کا اعتراف کیا۔ یہ انکشاف فیس بل انتظامیہ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں ازخود کیا، جس کے مطابق فیس بک انتظامیہ نے سری لنکا ہنگاموں میں نفرت انگیز مواد کو روکنے کے خلاف سنجیدگی نہیں دکھائی۔ خیال رہے کہ 2018 میں سری لنکا میں فسادات ایک جھوٹی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہوئے تھے، اس جھوٹی ویڈیو میں ایک مسلمان کو سنہالی بدھ مردوں کے کھانے میہں نس بندی کی دوا شامل کرنے کا اعتراف کرتے دکھا یا گیا تھا۔

اسی طرح نیوزی لینڈ میں سفید فام دہشت گرد نے فیس بک کی لائیو اسٹریم ویڈیو میں مسلمانوں کو نشانہ بناتے دکھایا گیا، کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں دہشت گردی کے اس واقعے میں 50 مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ فیس بک کو اس قسم کی ویڈیو براہ راست دکھانے پر بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد فیس بک نے 12 لاکھ اپ لوڈ ویڈیوز کو بلاک اور لائیو اسٹریم ویڈیو کی 15 لاکھ نقول کو ڈیلیٹ کیا۔ جب کہ دہشت گردی کی ستائش و حمایت پر مبنی لاکھوں ویڈیوز کو بھی بلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

بھارت میں ہندو توا کے تحت مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی کی ویڈیو یا پوسٹ کو اگر کسی انتہا پسند ہندو نے پوسٹ کیا ہے تو اسے بلاک یا ڈیلیٹ نہیں کیا جاتا، بلکہ مقبوضہ کشمیر و بھارت میں مسلمانوں کے حق میں مظالم پر مبنی قریبا ہر پوسٹ کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق الجزیرہ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 2017 سے 2019 تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کو دنیا کے سامنے لانے والی 10 لاکھ سے زائد ٹویٹس کو ڈیلیٹ کیا گیا۔

عالمی سطح پر فیس بک کی جانب سے 17 ہزار 807 مواد کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں جنوری سے جولائی 2019 تک 31 فیصد مواد پاکستان کی جانب سے شائع کیا گیا تھا۔ 2019 کی پہلی ششماہی میں فیس بک کی جانب سے پاکستان میں ایسے 5 ہزار 690 مواد کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں 2018 کی دوسری ششماہی میں 4 ہزار 174 پوسٹس کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ فیس بک کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت دنیا میں سرفہرست ہے جس نے سال 2019 میں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ پابندیاں اور بندشیں لگائیں۔ فیس بک کے مطابق رواں سال بھارت کی جانب سے تقریباً 45 ہفتے سے زیادہ عرصے تک انٹرنیٹ کی سہولت کو بند رکھا اور کئی علاقوں خصوصاً بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ سہولت متاثر ہونے سے صارفین فیس بک تک رسائی حاصل نہیں کرسکے۔

فیس بک انتظامیہ کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر غیر جانبدار رویئے کا مظاہرہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، مغرب کے لئے الگ معیار اور مشرق کے لئے جداگانہ، فیس بک کو متنازع بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک نے اپنی مملکت میں فیس بک کے استعمال پر پابندی عاید کی ہوئی ہے۔ نفرت انگیز مواد چاہے، مذہب یا نسل پرستی یا فرقہ وارنہ ہو، اسے سماجی رابطے کی عالمگیر سائٹ پر نہیں ہونا چاہیے۔ نفرت کی تجارت کسی کے مفاد میں نہیں ہے، اظہار رائے کی آزادی میں بلا امتیاز نظریے کو مد نظر رکھنا زیادہ مقدم ہے کیونکہ پر امن دنیا کے لئے یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔ نفرت انگیز تجارت ایک بہیمانہ اقدام ہے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کو ایسا انصرام اختیار کرنے کی ضرورت جہا ں انسانیت و مذہب کا احترام بلا امتیاز رنگ و نسل ہو، تجارتی مفاد کے لئے نفرت انگیز پوسٹوں سے امن و انصاف میسر نہیں آسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments