آج کی عورت


ردا ایک سلجھی اور پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ خوبصورتی، سلیقہ اور علم کی دولت ہونے کے ساتھ ساتھ والدین کی فرمانبردار بھی تھی اور اسی فرمانبرداری کے تحت اس نے شادی کے معاملے میں بھی والدین کی مرضی کے آگے سر جھکا دیا۔

وہی ردا جو اپنی تمام تر خوبیوں کی وجہ سے خاندان میں توجہ کا مرکز رہتی تھی سسرال میں تعریف تو کیا بے جا تنقید کا نشانہ بنتی گئی۔ سسرال والوں کے تمام تر کام کرنے کے باوجود کوئی اس سے خوش نہ ہوتا ساس سونے جاگنے سے لے کر آنے جانے پہ بھی پابندی لگائے رکھتی۔ ردا والدین کا گھر چھوڑ کر جیل میں آ گئی ہو جیسے اور نہ صرف یہ بلکہ تعنے اور ذلت آمیز الفاظ اس کا دل چھلنی کرتے رہتے۔

شادی کے بعد عورت کام تمام تر مان اس کا شوہر ہوتا ہے مگر جب کبھی ردا سسرال والوں کی چھبتی باتوں کو سہہ کر ایک قیدی کی سی حیثیت سے اپنے شوہر کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی تو اسے مایوسی کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا۔ ۔ ۔ عورت مضبوط مرد پسند کرتی ہے جو اس کے ساتھ کسی قسم کا ظلم اور نا انصافی نہ ہونے دے بلکہ ایک چٹان کی مانند اس کے دفاع میں ساتھ کھڑا ہو۔ مگر نہیں ردا کو تو ایک کمزور مرد ملا جو والدین کے احترام کے نام پر دن رات بیوی کی نا حق بے عزتی ہوتے دیکھتا اور جب کبھی ردا اپنے حق میں بولتی تو دو تماچے رسید کر دیتا اور خاموش ہونے کا کہتا۔ ۔ ۔ یہی سلوک اگر اس کی بہن کے ساتھ ہوتا تو ردا کی ساس آسمان سر پہ اٹھا لیتی۔ ۔ ۔ اور وہ بے چاری یہ سوچتی کہ ہمارا معاشرہ اتنا منافق کیوں ہے بیٹی اور بہو کے لیے انصاف کا دوہرا معیار کیوں رکھتا ہے؟

ردا نے اسی دلدل میں زندگی کا ایک طویل عرصہ گزار دیا لیکن جب وہ خود اپنی بہو کو بیاہ کر لائی تو اس دن عہد کیا کہ آج سے وہ ان تمام دقیانوسی رسم و رواج کو دفنا دے گی جس میں بہو کی صورت میں گھریلو ملازمہ لائی جاتی ہے اور صرف اسے ملازمہ ہی نہیں بلکہ زر خرید غلام سمجھ کر اس کے سونے جاگنے، ہنسنے بولنے، کھانے پینے اور باہر آنے جانے کا بھی اجازت نامہ بجانب سسرال لینا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ ہر انسان آزاد ہے اپنی سوچ میں عمل میں اور سب سے بڑھ کر خود کی عزت کے دفاع میں لٰہذا کوئی شخص یہ اختیار نہیں رکھتا کہ آپ کی انا کو ٹھیس پہنچائے۔

۔ ۔ ہمارے ہاں بیٹیوں کو بچپن سے سمجھایا جاتا ہے یہ نہ کیا تو سسرال والے کیا کہیں گے وہ نہ کیا تو کیا کہیں گے۔ ۔ ۔ یہی چیز ہم بیٹوں کو کیوں نہیں سمجھاتے؟ کیوں صرف بیٹیوں کو ہی برداشت کا درس دیا جاتا ہے؟ بیٹیوں کی ایسی تربیت کیوں نہیں کی جاتی کہ ان کی وجہ سے کسی عورت کو تکلیف نہ ہو؟ ہم اولاد کی تربیت میں بھی نا انصافی کر جاتے ہیں بیٹی کو مرد کی کنیز اوربیٹے کو عورت کا حکمران بناتے ہیں اسی لیے عورت کی عزت اس کی عادت میں شامل ہی نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments