ایلف شفق کا ناول: دس منٹ اڑتیس سیکنڈز، اس عجیب دنیا میں


ایلف شفق ؔ ایک ایوارڈ یافتہ برٹش ٹرکش ناولسٹ ہیں اور ترکی میں سب زیادہ پڑھے جانے والی خاتون لکھاری ہیں ان کا کام پچاس زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ایلف ؔ کا ناول، ’‘ دس منٹ اڑتیس سیکنڈز، اس عجیب دنیا میں ”، ایک حیرت انگیز ناول ہے۔ اس کی قرات کے بعد آپ خود کو مجبور پاتے ہیں کہ اس پہ بات کی جائے۔ یہ ناول سن دو ہزار انیس عیسوی کے بکر پرائز کے لئے شارٹ لسٹ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اسے مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔

یہ اپنے انتساب سے ہی آپ کو چونکاتا ہے۔ لیجیے آپ بھی دیکھیے :

’‘ To the women of Istanbul and to the city of Istanbul, which is, and has always been, a she-city ”

یہ ایک موت کہانی ہے، جو موت سے شروع ہوکر موت پہ ختم ہوجاتی ہے، مگر اس قدر زندگی سے بھر پور ہے کہ اپ کے منہ سے بے ساختہ واؤ خارج ہوتا ہے۔ ٹیقولا لیلیؔ نامی ایک طوائف کی موت، ناول کا آغاز اس ایک طوائف کی موت سے ہوتا ہے، جس کی لاش ایک کوڑہ چننے والے لڑکے کو کوڑہ دان سے ملتی ہے۔ ناول کا پہلاحصہ جس کا عنوان ’دی مائنڈ‘ ہے جو ایک تا دس منٹ کے نمبروں پر محیط دس ابواب پہ مشتمل ہے جو اس کی موت کے بعد شروع ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ لیلی کے پانچ بہترین دوستوں کی تعارفی کہانیاں بھی بیان کی گئی ہیں۔ اور یہ پانچ افراد نہیں استنبول کا پنج رنگی چہرہ ہے، قوس قزح ہے، جہاں استنبول کی بھرپور اور رنگا رنگ زندگی چھلکتی ہے۔ ایک تا دس منٹ کا، کاونٹ ڈاؤن شروع ہے، جس میں مصنفہ، لیلیؔ کی ساری زندگی اس کے مردہ دل میں دھڑکتے زندہ دماغ کے ذریعے بیان کرتی ہے جو اس کے مرنے کے دس منٹ اڑتیس سیکنڈ بعد تک زندہ ہے۔ یہ دس منٹ اڑتیس سکینڈ کو جینا اور لکھنا ایک روحانی، باطنی تجربے سے کم نہیں کہ زندگی کا الجھا ہوا اون کا گولہ، ایک دائرے کا گھومتا سفر بالکل خط مستقیم اختیار کرکے ایک فلم کی صورت لیلی ؔ کا دماغ اپنی زندگی کو اپنے دماغ کی پردہ سکرین پہ دیکھتا ہے۔ اس کو پڑھ کے بے ساختہ مجھے قرآن کی وہ آیت یادآئی جو آپ کو یاد دلاتی ہے کہ موت کے بعد آپ کا اعمال نامہ آپ کے سامنے ایسے ہوگا کہ آپ جھٹلا نہ پائیں گے۔ وہ یقیناً یہی پہلے دس منٹ اڑتیس سیکنڈ ہوں گے جس کی وضاحت مصنفہ ان الفاظ میں اس وقت ڈاکٹر کی زبان سے کرتی ہے جب لیلی کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہوتا ہے۔

’‘ مختلف عالمی شہرت یافتہ اداروں کے محققین نے ایسے لوگوں میں دماغ کی مستقل سرگرمی دیکھی ہے جن کا انتقال اسی وقت ہوا ہو۔ کچھ کیسز میں یہ سرگرمی صرف چند منٹ تک جاری رہی جب کہ کچھ دوسرے کیسز میں یہ سرگرمی زیادہ سے زیادہ دس منٹ اور اڑتیس سیکنڈ تک رہی۔ ”

ان ابواب میں لیلی ؔ کی کہانی کے ساتھ ساتھ اس کے بہترین پانچ دوست ہیں اور ان کی کہانیاں ہیں۔ ان دس منٹ میں لیلی کا بچپن اور جوانی بہت خوبصورتی سے پینٹ کی گیا ہے۔ یہ بچپن میں اس کا جنسی استحصال تھا جو اس کی زندگی کا رخ موڑتا ہے اور وانؔ جیسے قصبے میں ساٹھ ستر کی دہائی کی ترک معاشرت اور اوہام پرستی کو یہاں بڑی عمدگی سے باندھا گیا ہے۔

لیلی ؔ کا سب سے پہلا دوست سبوتاج سونان ؔہے جو لیلی کا بچپن کا دوست ہے۔ وانؔ قصبے کی واحد پڑھی لکھی روشن خیال فارماسسٹ کا بیٹا جو ایک حساس ارٹسٹک ذہن کا لڑکا ہے، اس وقت لیلی ؔعفیفہ کاملہ لیلی ؔتھی۔ یہ لیلی ؔ ہی تھی جس نے اسے سبو تاج کے اضافے کے ساتھ بلانا شروع کیا تھا۔

ناسٹلیجانالانؔ پانچ میں دوسری دوست ہے، جو اس کو اس وقت پہلی بار ایک لکڑی کے کارخانے میں ملی، جب وہ عثمان تھا۔ نالان ؔ اس ناول کا بہت مضبوط کردار ہے جو ایک خواجہ سرا ہے۔ جو بار بار کی سرجری اور طویل سفر و مشقت کے بعد، نالان کے روپ میں، اپنے اصلی روپ یعنی ایک عورت کے جسم کو پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ لیلی کی بہت اچھی اور وفادار دوست یہی ہے جو اس کے مر جانے کے بعد پانچوں دوستوں کے سامنے اسے کیلوس کے بے نام و نشان لوگوں کے قبرستان سے لانے کی تجویز یہ کہ کر رکھتی ہے کہ ’‘ وہ کیسے بے نام و نشان ہو سکتی ہے جب کہ اس کے پانچ قریبی دوست ہیں ”

جمیلہ ؔپانچ دوستوں میں سے تیسری ہے جس کا تعلق صومالیہ سے ہے جو ایک مسلم باپ اور عیسائی ماں کی بیٹی ہے۔

زینب ؔ 122 پانچ میں چوتھی دوست ہے جو استبول سے ہزاروں میل دور لبنان میں پیدا ہوئی اور نسلوں سے آباد یہاں کی سنی فیملیز میں آپسی شادیوں کے باعث بونے پن اور پستہ قامت کی بیماری میں مبتلا ہے۔ زینب بی ؔایک ایسی ہی لڑکی ہے جس کی شادی نہ ہوسکی اور حالات اسے استنبول لے آئے۔ زینب ؔکے پاس مخصوص ٹیسو گرافی کا قدیم علم ہے جس کی بنا پر علی سے لیلی کی شادی کی پیشین گوئی اسی نے کی تھی۔ زینب کو لیلی پیار سے زنبیرا ؔ کہتی ہے۔

ہولی وڈ حمیرا ؔ اس پانچ کی ٹولی کا پانچواں کردار ہے جو سینٹ جبرائل کی خانقاہ، مارڈین عراق میں پیدا ہوئی جو ایک سنگر ہے۔

یہ پانچوں کردار اپنے رحجان اور رویوں میں بالکل مختلف ہیں مگر محبت اور دوستی انہیں ایک بانڈ میں باندھ کر رکھتی ہے جس کی وضاحت مصنفہ نے یوں کی ہے ’‘ اگرچہ یہ پانچ دوست میری تخیل کی پیداوار ہیں۔ یہ کردار اصل لوگوں سے متاثر ہو کر لکھے گئے۔ ۔ ۔ جو مقامی، بعد میں آنے والے اور غیر ملکیوں سے متاثر ہوئے۔ ۔ ۔ میری ان سے استنبول میں ملاقات ہوئی تھی۔ جب کہ لیلیٰ اور اس کے دوست مکمل طور پر غیر حقیقی کردار ہیں، اس ناول میں بیان کردہ دوستیاں، کم از کم میری نظر میں، اتنی ہی حقیقی ہیں جتنا کہ یہ دلفریب پرانا شہر حقیقی ہے۔ ”

ان پانچ دوستوں میں نیلان ایک ملحدانہ اپروچ رکھتی ہے جب کہ زینبرا ؔایک مذہب پرست عورت ہے جس کی ہر پیشن گوئی درست ثابت ہوتی ہے۔

ڈیر علی، لیلی کا شوہر اس ناول کا ایک اور خوبصورت کردار ہے جو ایک مارکسسٹ ہے، انقلاب کا داعی اور لیلی کی زندگی میں اس کا داخلہ کسی ہیرو کی طرح ہی ہوتا ہے اور جیسے اچانک وہ آتا ہے اتنی ہی اچانک اور جلدی وہ لیلی کا ساتھ چھوڑ کر چلا جاتا ہے کہ ایک ہنگامے میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اور لیلی کا اسی اپارٹمنٹ میں قیام کرنا جس میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ قیام پذیر رہی محبت اور وفاداری کی ایک مثال ہے۔ لیلی کا مرکزی کردار جو بظاہر ایک طوائف کا کردار ہے اس کو ہیروئن بنانا آسان نہیں تھا مگر مصنفہ یہ کرگزری ہیں اور ایسا بہت ہنر مندی سے کیا گیاہے۔ مصنفہ نے اس کردار کو اس خوب صورتی سے نبھایا ہے کہ انسانی سطح پر یہ کردار جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔

دوسرا حصے کا عنوان ’جسم‘ ہے جس میں، لیلی کا پوسٹ مارٹم، تدفین اور پھر ان پانچوں کا اسے اس بے نام قبرستان سے نکال کر لانا اور پھر اس کی خواہش کے مطابق اسے سمندر کے حوالے کر دینا کہ اس نے ایک بار اس خواہش کا اظہار زینبرا کے سامنے کیا تھا، کا بیان ہے۔

نیلان اس ناول کا سب سے مضبوط کردار ہے، میری نظر میں۔ ۔ ۔ ایک شی میل ہوتے ہوئے ایک رنگا رنگ مضبوط کردار جو کہتا ہے ’‘ میرے لیے روح کچھ نہیں یہ جسم ہی سب کچھ ہے کہ اسے بہت محنت سے حاصل کیا گیا ہے ”مگر اپنی پانچ کی ٹولی کے ساتھ جڑے رہنا، جسم کو پانے کے لیے ڈاکٹر کے ساتھ بھی فلرٹ کرنا، اس جسم کو پانے کی جستجو، جو اصل میں اس کی روح کا لباس ہے، شادی کی رات اپنی دلہن کو چھوڑ آنا ؛ظاہر کرتا ہے کہ نیلان کس قدر مضبوط اور طاقتور روح کا نام ہے۔

پھر یہی نیلان ہے جو فیصلہ کرتی ہے کہ وہ لاوارث قبرستان میں نہیں رہے گی۔ یہی کردار مذہبی بیانیے پہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ایک طوائف کیوں ایسے قبرستان میں دفن کی جائے جبکہ اس کے پانچ چاہنے والے ہیں جو اس کا خاندان ہیں۔ یہ نیلان ہی ہے جو اس ہولناک رات میں خوف ناک قبرستان سے لیلی کی لاش دریافت کرنے کے لئے مختلف قبریں کھودتی ہے۔ پہلی قبر جس میں ایک داڑھی والی لاش نکلتی ہے۔ پھر دوسری قبر۔ ۔ ۔ اور پھرقبر میں اتر کر قبر میں گرے ہوئے سبوتاج سونان کو باہر نکالنا۔ ۔ ۔ لیلی کی لاش کو قبر سے باہرنکالنا پھر تھکن اور زخموں سے چور حالت میں ٹرک چلا کر لانا۔ آپ کہیے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ناول کی اصل ہیروین یہ شی میل نیلان تو نہیں۔ مصنفہ نے ایسی منظر نگاری کی ہے کہ آپ منظر کا حصہ بن جاتے ہیں ا ور اس خوفناک رات میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔

پھر لیلی کا اس تمام تر مشقت کے بعد سمندر کی تہہ میں قیام اس قدر خوبصورت اور زندگی سے پر ہے آپ ملاحظہ کیجیے :

’‘ اس کا دماغ پوری طرح سے بند ہوچکا تھا، اس کا جسم پہلے ہی گل رہا تھا اور اس کی روح بیٹا مچھلی کا پیچھا کر رہی تھی۔ وہ لاوارثوں کے قبرستان کو چھوڑنے کے لئے آزاد تھی۔ وہ خوش تھی ؛ اس متحرک قلم رو کا حصہ بن کر، اس راحت بخش ہم آہنگی کا حصہ بن کر جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور اس وسیع نیلے، روشن ایک نئے شعلے کی صورت پیدائش کے طور پر۔ ”*

ایلف شفق ؔنے اس سب کو تاریخ اور ملکی و بین الاقوامی سیاسی منظر نامے کے ساتھ اتنے دلکش پیرایے میں بیان کیا ہے کہ ناول کے ساتھ دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔ یہ ناول ایسا ہے کہ اس پہ مزید بحث ہو۔ اس خوب صورت ناول کا ترجمہ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔

*Her mind had fully shut down; her body was already decomposing and her soul was chasing a betta fish. She was relieved to have left the Cemetery of the Companionless. She was happy to be part of this vibrant realm, this comforting harmony that she had never thought possible, and this vast blue, bright as the birth of a new flame.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments