کہیں کھچڑی پک رہی ہے


ہمارے پیارے وزیراعظم کے تقریباً دو سالہ دور حکومت میں عوام تو بیزار ہوہی چکے ہیں اب ان کی پارٹی کے رہنما اور اراکین اسمبلی بھی بیزارنظر آرہے ہیں اور موقع ملتے پھٹ پڑتے ہیں، عمران خان کو جو رعایتی پانچ نمبرز دیے جا سکتے ہیں وہ کورونا وائرس کے ہیں جس کی وجہ سے معیشت بالکل ہی ڈوب گئی ہے، ورنہ انہوں نے حکومت میں آکر جو پالیسیاں اپنائی ہیں اس سے کاروبار تو گزشتہ جولائی سے ہی ٹھپ ہونا شروع ہوگئے تھے، مہنگائی کا جن جتنا اب دندنا رہا ہے اس پہلے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، آمریت، زرداری یا شریف حکومتوں نے بھلے جو بھی تباہی کی ہو مگر وہ مہنگائی کے جن کو نتھ ڈال کر بوتل میں ضرور بند کرلیتے تھے مگر اب یوں محسوس جیسے مہنگائی کا جن اور کپتان صاحب مل کر عوام کو کھارہے ہیں

ہم جیسے جذباتی اور بقول حسن نثار الو کے پٹھے تحریک انصاف کی حمایت کرکے پچھتا رہے ہیں، اب پٹواری اور جیالے دوست طعنے دیتے ہیں کوئی کہتا ہے گھن مزے تبدیلی دے، تو کوئی کہتا ہے، رل تے گئے او پر چس بڑی آئی ہوئے گی تو کوئی کہتا ہے ہور چوپو، ان کا منہ بند کرنے کے لئے ہمارے پاس ایک لفظ بھی نہیں ہے کہ جواب دے کر ان کا منہ بند کرایا جاسکے، ہماری تو یہ حالت ہے کہ جیسے کوئی پسند کی شادی کرلے اور محبوبہ جب بیوی کا روپ دھارتی ہے تو عشق کا بھوت اتر جاتا ہے، پھر گھر والے کہتے ہیں ہن بھگت۔

عمران حکومت کے تھوڑے عرصے بعد ہی تحریک انصاف میں بیڈ گورننس، فیورٹ ازم اور نا اہلی کی باتیں شروع ہوگئی تھیں، جیسے جیسے حالات خراب ہو رہے ہیں ان کے ناقدین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پارٹی رہنماؤں کے بعد اب پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی بھی قوت برداشت ختم ہوتی نظر آ رہی ہے

چند روز قبل ملتان سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ملک احمد حسین ڈیہڑ نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرخارجہ و تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی پر برس پڑے، ان کا کہنا تھا کہ ملتان میں اس وقت جتنی کرپشن ہو رہی ہے اتنی پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوئی، انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ناکام بنانے کی سازش ہو رہی ہے، خان صاحب کے مشن کو قتل کیا جا رہا ہے اگر یہ خان صاحب سے مخلص ہوتے تو خان صاحب مائنس ون کی بات کرتے؟ اگر وہ جا کر کہیں کہ بسم اللہ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں پھر تو بسم اللہ کرنے والوں کی دیر ہے اور اگر بسم اللہ کرنے والے ہی خان صاحب سے مخلص نہ ہوں تو کہاں سے بسم اللہ ہو گی، خان صاحب کو خبر دار کریں گے کہ خدا کے لئے ان سے بچ کر رہیں، قومی اسمبلی میں ان کی تقریر چور کی داڑھی میں تنکا والی بات ہے۔

احمد حسین ڈیہڑ نے تاریخ رقم کی ہے، 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کو ایلیکٹ ایبل پارٹی میں شامل کرنے کا بخار چڑھا ہوا تھا، خان صاحب ہر قیمت پر الیکشن جیتنا چاہتے تھے اس کے لئے انہوں نے اپنے مخلص ترین کارکنوں کو نظر انداز کیا، اسی فارمولے کے تحت سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو شکست دینے کے لئے سابق وفاقی وزیر سکندر بوسن کو این اے 154 کا ٹکٹ دیدیا، اسی سیٹ پر ملک احمد حسین ڈیہڑ بھی امیدوار تھے مگر پارٹی نے اس مخلص کارکن کو نظر انداز کر دیا، ملک احمدحسین ڈیہڑ نے ہر ممکن کوشش کی مگر خان صاحب نہ مانے جس پر ملک احمد حسین ڈیہڑ ملتان سے اپنے سینکڑوں کارکنوں کے ہمراہ بنی گالہ پہنچ گئے اور دھرنا دیدیا، ان کا مطالبہ تھا کہ ٹکٹ لے کر ہی واپس جاؤں گا، کئی روز دھرنا جاری رہا بالآخر عمران خان نے ملک احمد حسین ڈیہڑ کو بلایا اور سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو ہم نے اس حلقہ سے یوسف رضا گیلانی کو ہر صورت ہرانا ہے جو پیپلزپارٹی کے لئے بڑا دھچکہ ہوگا، تم یوسف رضا گیلانی کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اگر تم کو ٹکٹ دیا تو سکندر بوسن آزاد کھڑا ہو جائے گا اس صورت میں تمھارا جیتنا ناممکن ہے اور یہ سیٹ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی

عمران خان کا موقف سننے کے بعد ملک احمد حسین ڈیہڑ نے کہا کہ خان صاحب آپ مجھے ٹکٹ دیں اگر میں ان دونوں کو نہ ہرایا تو زندگی بھر آپ سے ٹکٹ مانگنے نہیں آؤں گا، اس بات پر عمران خان نے ہا ں کردی اور ملک احمد حسین ڈیہڑ کو ٹکٹ دیدیا، ملک احمد حسین ڈیہڑ شیر کا بچہ ثابت ہوا اور انہوں نے یوسف رضا گیلانی اور سکندر بوسن جیسے نامور پہلوانوں کو الیکشن کے میدان میں چت کر دیا، الیکشن جیتنے کے بعد جب بھی پارٹی اجلاس ہوتا ہے تو عمران خان ملک احمد حسین ڈیہڑ کو اٹھ کر تپاک سے ملتے ہیں اور وہاں موجود سب سے کہتے ہیں یہ ہے میرا شیر جس نے دو جن گرائے ہیں۔

ان حالات میں ملک احمد حسین ڈیہڑ جیسا پارٹی کا مخلص کارکن بھی پھٹ پڑے تو یقین کرلینا چاہیے کہ کہیں کچھ ہو رہا ہے، حالات ان کے ہاتھ سے ریت کی طرح نکل رہے ہیں اور کہیں کوئی کھچڑی پک رہی ہے جس کی بازگشت گزشتہ کئی دنوں سے سنائی دے رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments