وینٹی لیٹر پہ پڑی انسانیت کو بچا لیں


مختلف انواع کے جانوروں اور پرندوں کی انسان کے ساتھ وقت گزرنے کے ساتھ کسی حد تک مانوسیت کا پیدا ہو جانا ایک عام سی بات ہے۔ مفید مویشیوں کے علاوہ کچھ دوسرے جانور بھی ہیں جو بظاہر تو بھیڑ بکریوں اور بھینسوں کی طرح کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے لیکن انسان کی قربت میں رہنے کی وجہ سے مانوس ضرور ہونے لگتے ہیں۔ جیسا کہ بلی اور کتے کی مختلف اقسام جن کو اکثر پالتو جانوروں کے طور پر گھروں میں شوقیہ اور چوکیداری کی غرض سے بھی رکھا جاتا ہے۔

یہ جانور زیادہ عرصے تک صحبت انسان میں رہنے کے نتیجے میں بعض اوقات ایسی حرکات و سکنات بھی کرنے لگتے ہیں جو انسانی افعال سے بہت حد تک مشابہت رکھتی ہیں۔ جیسے طوطا ہماری زبان بولنے لگتا ہے۔ بندر ہمارے جیسی چالیں چلنے لگتا ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں کسی بھی الٹی سیدھی حرکت پہ انسان کو بندر کے ساتھ نسبت دی جاتی ہے کہ ”تم بندروں والی حرکتیں کر رہے ہو۔“ بہرحال دنیا کے مختلف حصوں میں اس طرح کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو انسانی عقل کو دنگ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ حال ہی میں فلوریڈا میں ایک کار کو دائرے کی شکل میں ریورس گیئر میں مسلسل کافی دیر تک چلتے ہوئے دیکھا گیا۔ پتا چلا کہ وہ گاڑی گھمانے والا ٹیلنٹڈ ڈرائیور کوئی انسان نہیں بلکہ ایک کتا تھا۔

کچھ اسی طرز کا ایک اور انوکھا واقعہ جارجیا میں دیکھنے کو ملا۔ جارجیا (Georgia) یورپ اور ایشیا کے بارڈر پہ واقع ایک ملک ہے جو کسی زمانے میں سوویت سوشلسٹ ریپبلک کہلاتا تھا اور سال 1991 ء تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔ اس واقعہ میں بھی اتفاق سے مرکزی ہیرو ایک پالتو کتا ہی ہے۔ اس کتے کا نام کوپاتا (Kupata) ہے۔ جارجیا علاقے باٹومی (Batumi) کی ایک سڑک پہ چوک میں لگے کیمروں میں اچانک ایک غیر معمولی سا منظر اس وقت دیکھا گیا جب یہ کوپاتا شہر کی اس مصروف سڑک پہ تن تنہا بڑے جذبے اور رعب کے ساتھ ایک ذمہ دار ٹریفک وارڈن کا کردار نبھاتا ہوا پایا گیا۔

کوپاتا سکول جاتے بچوں کے ایک گروپ کو گاڑیاں روک کر زیبرا کراسنگ لائنوں کو عبور کروا رہا تھا۔ جونہی بچے سڑک عبور کرنے کے لئے سڑک کے پاس آ کر رکتے تو یہ کتا زور زور سے بھونکتا ہوا سڑک کے بیچ گاڑیوں کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے اور آنے والی ٹریفک کو اپنی دہشت سے روک لیتا ہے۔ اس طرح بچے آرام سے باحفاظت سڑک عبور کر کے دوسری طرف چلے جاتے ہیں۔ کوپاتا اس دوران رکی ہوئی ٹریفک پہ کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھا کہ کوئی گاڑی آگے آنے کی کوشش نہ کرے۔ ماننا پڑے گا کہ کتے کی اس ساری مشق کا مقصد بلا شک و شبہ وہی ہے جو ایک انسان ٹریفک وارڈن کا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی جسمانی ساخت کے باعث اس کا انداز ذرا اور قسم کا تھا۔

کتے کی اس ادا پہ شہریوں اور اہل علاقہ کو بہت رشک آیا اور متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ سوشل میڈیا پہ یہ چست مددگار نیا وارڈن بہت پسند کیا جانے لگا۔ لوگوں کی طرف سے طرح طرح کے تعریفی کلمات سے بھی جاری ہوئے۔ کسی نے لکھا کہ ”چھوٹا سا پیارا ڈوگ جس نے زندگی میں اپنا مقصد ڈھونڈ لیا اور وہ اپنی جاب سے محبت کرنے والا ہے۔“ یہ تعریف واقعتاً ایک کھرا سچ لگتی ہے۔ ایک اور صارف نے تو اس وارڈن کے لئے باقاعدہ رہائش کا بندوبست کرنے کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔ کہا، ”کیا ہی حیرت انگیز ڈوگ ہے۔ کسی کو چاہیے کہ اس کو زندگی بھر کے لئے ایک گھر دے دے۔ بچوں کے محافظ کے لئے اس سے اچھا اور کیا کیا جا سکتا ہے بھلا۔“

اس قدر خوشگوار اور منفرد عوامی ردعمل کو بڑی اہمیت دی گئی۔ کوپاتا کے اس طرزعمل کو خدمت خلق خدا کا جذبہ رکھنے والے تمام حلقوں میں خوب سراہا گیا۔ عوامی مطالبات کے پیش نظر اور اس کے غیرمعمولی عمل کے اعتراف میں الگ سے ایک اعزازی گھر بھی الاٹ کیا گیا جس میں وہ رہے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ کوپاتا کو ”پیپلز چوائس سٹار“ کا خطاب بھی دیا گیا۔

انسانی عقل کی حیرت کا اندازہ لگانا اس وقت واقعی مشکل ہو جاتا ہے کہ دماغ اور عقل کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی تمام تر صلاحیتیں تو ہمیشہ سے انسان کی میراث رہی ہیں۔ تو یہ ایک کتا جانوروں کے نچلے ترین درجے میں سے نکل کے اس خوبی اور وصف میں بھلا کیسے اشتراک کر سکتا ہے۔ بہرحال اس سوال کو فی الوقت سوال ہی رہنے دیتے ہیں اور اصل بات اور مسئلے کی طرف واپس آتے ہیں۔

دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو تو یہ محض ایک انوکھا سا واقعہ اور مزاح بھری کہانی ہے۔ لیکن غور کیا جائے اور سوچ بچار کے دریچے کھولے جائیں تو اپنے اندر ایک گہری اور سنجیدہ فکر لئے ہوئے ہے۔ ایک جانور اور وہ بھی کتا۔ اس کا سڑک پہ آنا، بچوں کو دیکھنا اور بھانپ لینا کہ بچے سڑک پار کرنا چاہتے ہیں۔ پھر بیچ سڑک کے آکر گاڑیوں کے سامنے بھونک بھونک کر اپنی مخصوص زبان اور انداز میں پرزور اعلان کرنا کہ رک جاؤ، رک جاؤ، ننھے بچوں کو پہلے گزرنا جانے دو۔ یہ تو رہا سارا عمل جو کتے نے کیا۔ اور پھر کتے کی اس مکمل رضاکارانہ ڈیوٹی کے جواب میں وہاں کے عوام کا اس قدر محبت اور شفقت بھرا ردعمل کہ اس کو باقاعدہ طور پر ایک خوبصورت اعترافی و تعریفی اعزاز اور گھر سے بھی نواز دیا گیا۔

اب کہنے کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ ہم ایسے کتے پالنا شروع کر دیں کہ جو ہمارے لئے ذمہ دار اور فرض شناس وارڈن کا کام سرانجام دیں۔ اور پھر ان پہ وہی انعام و کرام نچھاور کرنے لگیں۔ ویسے تو پاکستانی قوم کسی بھی چیز یا کام کی نقل کرنے میں دیر نہیں کرتی۔ لیکن اگر غور کریں تو یہ سب کچھ ہماری انفرادی و اجتماعی فکر و سوچ اور معاشرتی اور سماجی اخلاقیات کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہے اگر سمجھیں تو۔ ہر اس معاشرے کے لئے ایک سبق ہے جہاں انسانوں کی قدر و قیمت پیسے اور مادیت کے دباؤ تلے دب کر ختم ہوتی جارہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments