لفافہ کہانی


صبح صبح گیٹ پر اخبار لینے گئے تو اخبار کے ساتھ ایک خاکی لفافہ دیکھ کر ہم پہ شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ ہم نے سوچا کہ شاید کوئی حساس ادارے کا ہرکارہ ہمارے گھر جے آئی ٹی کی رپورٹ پھینک گیا ہے۔ چشم تصور سے ہم نے دیکھا کہ مختلف ٹی وی چینلوں کی نیلی نیلی پیلی پیلی ویگنیں اور پک اپس اپنے چھتوں پر چھتری نما بڑے بڑے اینٹینے سجائے ہماری رہائش گاہ کے باہر کھڑی ہیں اور بے شمار مخبوط الحواس رپورٹر اپنی اپنی گلابی اردو میں ہم سے وصول شدہ جی آئی ٹی رپورٹ کے مندرجات پر سوال کر رہے ہیں۔

اور ہم شان بے نیازی کے ساتھ بڑے بڑے پردہ نشیینوں کو بے پردہ کر رہے ہیں۔ بہرحال کانپتی ٹانگوں اور لرزتے ہاتھوں کے ساتھ جب ہم نے خاکی لفافہ کھولا تو۔ ۔ ۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ۔ کے مصداق سے اس میں عید قربا ن کا اشتہار تھا جس میں تحریر تھا کہ گائے کا حصہ ڈالنے کے ساڑھے چودہ ہزار روپے اور گاؤ ں کے پلے ہوئے پینتیس کلو کے سالم دیسی بکرے کی قیمت پینتالیس ہزار ہو گی۔ ہمارے ادارے میں جید علماء، فقہا اور مشائخ کی نگرانی میں ذبح کے فرائض انجام دیے جاتے ہیں۔ نیز ہمارے یہاں بچون کے ختنے اور استخارے کا کام تسلی بخش طریقے سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پچاسی سالہ بہرے اور نابینا حافظ قرآن حکیم صاحب کے تیار کردہ نسخے سے کورونا کا شافی علاج بھی شرطیہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔ آخر میں مصرعہ لکھا تھا کہ۔ آواز سگاں کم نہ کنند رزق گدا را

لفافے سے ہمیں یاد آیا کہ لفافہ ہماری ثقافتی اور سیاسی زندگی کا جزو لاینفک ہے۔ شادی بیاہ اور مختلف رسومات کے موقع پر لفافوں میں بڑے اہتمام سے رقوم پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن سیاست میں لفافے کا رواج سن اسی کی دہائی میں شروع ہوا۔ جب سیاست کا رخ جاگیرداروں سے سرمایہ داروں، تاجروں، صنعت کاروں اور آہن گروں کی طرف مڑا۔

جب سیاست جاگیرداروں کے ہاتھ میں تھی تو دیہات اور گاؤں گوٹھوں میں نجی جیلیں اور عقوبت خانے ہوتے تھے۔ جہاں کے جاگیردار اپنی پنچائتیں سجا کر فیصلے صادر کرتے تھے۔ نہ تھانے کچہری کا ٹنٹنا، نہ قانون اور اصول وضوابط کی مکروہات۔ ساری خدائی ایک طرف جورو کا بھائی ایک طرف۔ جب سیاست صنعت کاروں کے ہتھے چڑھی تو انہوں نے سوچا، یہ ٹکے ٹکے صحافی خواہ مخواہ منہ کو آتے ہیں۔ چنانچہ ان کا منہ بند کر نے کے لئے لفافوں کا کام لیا گیا۔ چند سرپھروں کو چھوڑ کر صحافیوں کی بڑی تعداد لفافوں کی چکا چوند میں ایسی غرق ہوئی کہ منافقت کے عالمی ریکارڈ قائم ہو گئے۔

بہت شروع کی بات ہے، ایک صنعت کارسیاست دان کے دولت کدے پر ہر اتوار کو محفل ہوتی تھی۔ جہاں اللہ ماشا اللہ کثیر تعداد میں حق گو، اہل قلم و قرطاس، جوق در جوق شرکت کرتے تھے۔ محفل کے آغاز میں سیاسی مخالفین کی شان بڑھانے کے لئے تبرہ بازی اور یاوہ گوئی ہوتی تھی۔ پھر لطیفوں اور جگت بازی اور پھکڑ بازی کا سیشن ہوتا تھا۔ جس میں سارے گھسے پٹے لطیفے دہرائے جاتے تھے۔ اور صاحب مسند نشین لوٹ پوٹ ہوتے تھے۔ بعد میں حاضرین کی تواضع انواع اقسام کے کھانوں سے کی جاتی تھی۔

روانگی کے وقت ایک کارندہ طباق میں لفافے لے کر کھڑا ہوتا اور ایک ایک لفافہ دیتا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب اہل قلم چار پانچ ہزار روپے کے لفافے سے بہل جاتے تھا۔ بعد میں کچھ یوں ہوا کہ لفافہ پیچھے رہ گیا اور بات رہائشی پلاٹوں، زرعی زمینوں اور اعلی رہائش گاہوں تک پہنچ گئی۔ ۔ ۔ ۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔

ہماری تہذیبی روایات میں لفافے نے اپنی اہمیت کا سکہ بٹھا دیا ہے۔ ایک سول جج صاحب کی عدالت میں وکیل نے چار کتابوں میں پی ایل ڈی (سابقہ فیصلوں کے ریکارڈ کی کتابیں ) پیش کرتے ہوئے جج صاحب سے استدعا کی کہ ان کتابوں کے صفحہ نمبر فلاں فلاں فلاں میں سابقہ فیصلوں کی نقول موجود ہیں جن سے میرے مقدمے کو تقویت ملتی ہے۔ جج صاحب نے کچھ وقفے کے لئے عدالت معطل کی اور کتابیں اپنے چیمبر میں منگوائیں۔ وکیل صاحب کے بتائے ہوئے ہر صفحہ پر ایک لفافہ تھا جس میں پانچ پانچ ہزار روپے کے نوٹ تھے۔ دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جج صاحب نے وکیل صاحب سے کہا کہ آپ کے دلائل مضبوط ہیں۔ اگلی پیشی پر اسی طرح کی کم از کم پانچ مثالیں اور پیش کریں تو آپ مقدمہ جیت سکتے ہیں۔

لفافہ کے فیوض و برکات سے انکار ممکن نہیں۔ بعض دل جلے تو ضبط تولید کے لئے استعمال ہونے والے بغیر ہوا کے غبارے کو بھی لفافہ کہتے ہیں۔ یہ وہ لفافہ ہے جس نے پورے معاشرے کو نئی راہیں دکھائی ہیں۔ عفت و عزت کے فرسودہ دعوؤں کو تار تار کر دیا ہے۔ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ چنانچہ پبلک پارکوں اور طلبا و طالبات کے ہوسٹلوں میں اس لفافے نے ہیجان برپا کر دیا ہے۔ اور نوجوان نسل درس و تدریس کے ساتھ عملی زندگی کا آغاز بھی ان لفافوں کی برکت سے کرتے ہیں۔

گزرے زمانے میں جب موبائل کمپیوٹر وغیرہ موجو د نہیں تھے تو خبررسانی کے لئے تار بھیجا جاتا تھا۔ عموماً یہ تار کسی سانحہ ارتحال کی خبر دیتا تھا۔ انگریزی زبان کے اختصار کا یہ نادر نمونہ ہوتا تھا۔ جس کسی کے گھر ڈاکیہ یہ تار ملجگے لفافے میں لے کر جاتا، وہاں لفافہ کھولنے سے پہلے ہی کہرام مچ جاتا کہ یقیناً کسی عزیز نے جان جان آفرین کے سپرد کر دی ہے۔ تار کی تحریر اس قدر مجہول اور مختصر ہوتی کہ عموماً یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ انتقال خالو جان کا ہوا ہے یا تار بھیجنے والے کا۔ بہرحال آنے والے وقت نے لفافے کو خوشی و انبساط کی علامت بنا دیا۔

لفافے کا تعلق ہر مکتبہ فکر اور زندگی کے تما م شعبوں تک بہ احسن و خوبی پہنچ چکا ہے۔ کام کے جائز یا ناجائز ہونے کی کوئی تخصیص نہیں۔ لفافہ جتنا بھاری ہوگا آپ کا کام اتنی ہی برق رفتاری اور سرعت سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔

پہلے سادہ زمانے تھے۔ خط و کتابت کے لئے کارڈ استعمال ہوتے تھے۔ جو کہنا مقصود ہوتا، بغیر لگی لپٹی رکھے، کہہ دیا جاتا تھا۔ اآدھے سے زیادہ کارڈ القابات اور دعاؤں پر مبنی ہوتا تھا۔ کہیں ایک جملے میں بتا دیا جاتا تھا کہ برخوردار ذی وقار عبدالقدوس میاں جماعت پنجم میں پاس ہو کر ششم میں چلے گئے ہیں۔ بعد کے زمانے میں کارڈ کی جگہ لفافے نے لے لی۔ لفافے میں بہت اہتمام سے عشقیہ خطوط بھیجے جاتے تھے۔ جو خطوط سے زیادہ ادبی شہ پارے ہوتے تھے۔

اگر کسی عاشق کا خط پکڑا جاتا تو اس کی تواضع گھونسوں، تھپڑوں، طمانچوں اور لاتوں سے کی جاتی تھی۔ آج کے دور کی طرح خودکار ہتھیار چلانے اور تیزاب پھینکنے کی سہولت میسر نہیں تھی۔ ماردھاڑ بھی بہت رسان سے ہوتی تھی۔ قتل و غارت گری سے زیادہ اصلاح احوال کی طرف توجہ دلائی جاتی تھی۔

زمانہ بدل گیا۔ لفافوں کی جگہ شاپنگ بیگ آ گیا۔ پٹ سن کی بنی بوریاں تو ہمیشہ سے تھیں لیکن اس کا صحیح استعمال تب شروع ہوا کہ جب ان بوروں میں بدن دریدہ لاشیں رکھی گئیں۔ آنے والا مورخ لکھے گا کہ ہماری قوم نے لفافوں سے بوریوں تک کا سفر جس اہتمام سے کیا، اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے، کم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments