ایک خاموش قاتل قوم کی جڑیں کاٹ رہا ہے .



جب بھی نشہ اور منشیات زدہ لوگوں، گھروں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ تو اس میں صنف مرد کو ہی ہم عموماً شمار کرتے ہیں۔ اور تصویر کے اسی رخ کو ہی ہم بیان کرتے ہیں۔ نشے سے جڑی تباہیاں، خرابیاں، غفلتیں اور تہمتیں مرد کے ہی جھولی میں ڈالی جاتی ہیں۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں وجود، معیشت اور بہتری و ابتری کا کم و بیش سارا ذمہ داری مرد پہ ہی پڑتا ہے۔ لیکن اچھی اور صحت مند معاشرے میں مرد سے بھی پہلے عورت کا ہاتھ ہے اور وہی عورت مرد سے بھی زیادہ نشے میں لت پت ہے جو مرد کی خانگی زندگی پر مختلف پہلوؤں سے اثر انداز ہورہا ہے۔ اور سب سے زیادہ اپنے اور اپنے اولاد کے لئے تباہی کا باعث بن رہا ہے۔

بجا ہے کہ ہماری عورتیں چرس، ہیروئن، شراب اور اس جیسی دوسری تباہ کن منشیات کی مردوں جیسی عادی نہیں مگر ”حقہ“ وہ نشہ ہے جیسے یہ مخلوق خدا فیشن ٹرینڈ کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ بلکہ گھر آنے پر مہمان کو ٹریٹ کے طور پر ہیش کی جاتی ہے۔ پیش نہ کرنے پر اس کے طعنے لگتے ہیں۔ ہماری شادیاں اور دوسری رسومات بغیر اس کے ادھورے ہیں۔ اور یہ رجحان زیادہ تر کراچی، بلوچستان اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ جبکہ مرد حضرات بھی اس کے سحر میں مبتلا ہیں اور سب سے زیادہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے گاؤں کے رہنے والے اس بھلا کے چنگل میں پھنسے ہیں۔

حقے میں استعمال ہونے والی پیسے ہوئی تمباکو اور شرنی سے بننے والی ایک خاص تمباکو ( گڈاکو ) سے مختلف قسم کی زہریلی عناصر خارج ہوتی ہیں۔ جن میں بنزین سر سرفہرست ہے جو بریسٹ کینسر اور بلڈ کینسر کا موجب بنتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حقہ پینے کے لمبے دورانیہ کے باعث یہ سگریٹ کے مقابلے میں % 20 زیادہ دھواں اور نکوٹین پھپڑوں تک پہنچاتا ہے۔ اس کے دھوؤں میں آرسینک، بینزین، نکل اور لیڈ جیسی خطرناک عناصر پائے جاتے ہیں۔

اپنے چھوٹے سے شہر میں برییسٹ کینسر کے 7 مریضوں کے بارے میں جانچ پڑتال سے پتہ چلا کہ ان میں قدر مشترک یہ تھا کہ حقہ ان سب کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ یہاں تک کے ایک کا کہنا تھا کہ رمضان میں سحری سے لے کر عام دنوں کے تینوں وقت کے کھانوں کے بعد اگر میں حقہ نہ پیتی تو جیسے سر میں کچھ بھاری پن سا درد ہوتا۔

حقہ سے جنم لینے والی دوسری سب سے بڑی بیماری عورتوں میں ہاضمہ کی خرابی بلکہ سرطان بھی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق بلوچستان کے ضلع گوادر میں ہر تین میں سے دو عورتوں کی زندگی میں حقہ لازمی جز ہے، اسی لیے ان علاقوں میں ہپٹائٹس کے بے شمار مریض ہیں۔

حاملہ عورتیں بھی چونکہ اس بلائے خاموش کے چنگل سے آزاد نہیں تو ان کے پیدا ہونے والے بچوں میں بھی سرفیکٹنٹ کی شدید کمی ہوتی ہے۔ نتیجاً وہ دمہ کے تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔

عورتیں کسی بھی قوم کی بنیاد ہوتی ہیں۔ ان کی عزت کے ساتھ ساتھ صحت بھی اتنی اہم ہوتی ہے لیکن چونکہ ناخواندگی کی وجہ سے مرد حضرات بھی حقہ کو ایک معمولی نشہ سمجھ کر آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتی ہے۔ اور نشہ کی عادی مائیں اپنی بچوں کو پیدائش سے پہلے وراثت میں نشہ زدہ خون فراہم کرتی ہیں جو بعد میں مختلف مہلک ڈرگز سے خاندان اور معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

اس ضمن میں حکومتی خاموشی ہمیشہ سمجھ سے بالاتر رہی ہے۔ کم و بیش تمام قوم نشے کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہے۔ اور حکومت خواب خرگوش میں ڈوبی ہوئی ہے۔ نالائقیوں، مجبوریوں اور بدعنوانیوں کے تمغے سجھائے حکومت بس دیکھ سکتی ہے کہ 21 ویں صدی میں ایک نشہ سے لتھڑی ہوئی قوم بھی چاند پر جانے کے سپنے دیکھ رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments