کورونائی تعلیم اور طالبعلم


پاکستان میں نظام تعلیم پہلے ہی سے مفلوج تھا اور اب یہ نظام کورونا کے زیر عتاب آ چکا ہے اور تعلیمی ادارے ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے زیر نگرانی تعلیمی مافیاء کا روپ دھار چکے ہیں۔ ہماری کسی بھی یونیورسٹی کا نام دنیا کے ٹاپ 007 یونیورسٹیوں کی لسٹ میں نہیں آتا لیکن ہمارے تعلیمی نظام اور اداروں کا جو بھی حال ہو ہم نے تو ترقی یافتہ ممالک کی نقل اتارنی ہی ہے اور بغیر نیٹ اور بجلی کے آن لائن کلاسس لینی ہیں۔ جب ہماری یونیورسٹیوں کا دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں سے موازنہ کرایا جاتا ہے اور معیار تعلیم کی رپورٹس نظروں کے سامنے لائی جاتی ہیں تودل کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی پاکستانی طلباء اتنے ہونہار اور ذہین ہیں کہ اس بیمار نظام میں بھی پھلتے پھولتے ہیں اور دنیا میں اپنا لوہا منوا کے پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں۔

کوروناکی وجہ سے لوک ڈاؤن نے وسائل سے محروم طلباء کے لئے مشکلات کا پہاڈکھڑا کر دیا ہے۔ ان حالات میں ایک طرف وہ طلباء ہیں جو کسی چھوٹے کسان، دکاندار، ڈرائیور یا دیہاڈیدار مزدورکے بچے ہیں۔ ایک دیہاڈی دارمزدور جودن بھر محنت کرکے رات تھکا ماندہ گھر آتا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے اور کچھ پیسے اپنا پیٹ کاٹ کر بچاتا اور اپنے بچوں کی اسکولوں کی فیس ادا کرتاہے، اس بڑی مشکل میں گزر بسر کرنے میں کچھ باہمت مزدور اپنے بچوں کو یونیورسٹی میں پڑھانے کی جسارت کرتے ہیں۔ اب وہ دیہاڈی دار مزدوران مشکل حالات میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرے یابچوں کی فیس ادا کرے؟

دوسری طرف وہ طلباء ہیں جن کا تعلق پاکستان کے دوردراز علاقوں سے ہے جہاں نیٹ تو دور بجلی اور موبائل سگنل کو بھی لوگ ترستے ہیں۔ جس میں بلوچستان، اندرون سندھ، کے پی کے، جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقے اور گلگت بلتستان بھی شامل ہے۔ ان پسماندہ علاقوں کے تعلیمی مسائل اور محرومیاں بے پناہ ہیں مگر حوصلے پھر بھی جوان ہیں۔ جو طلباء پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو انٹرنیٹ سگنل کی تلاش میں ایسے نکلتے ہیں جیسے کوہ نور کی تلاش میں نکلے ہوں۔ ان طلباء کو انٹر نیٹ سگنل کی کھوج میں کئی کلو میٹرس کی مسافت طے کر نا پڑتی ہے کیونکہ انٹرنیٹ کے سگنل بلند وبالا جگہوں میں میسر آتے ہیں۔ گویا کہ انٹرنیٹ کے سگنل ایک پہاڑی طالبعلم کے لئے ایسے ہی ہے جیسے کوئی گوہر نایاب۔

ان حالات کے پیش نظر ملک بھر کے کئی شہروں میں اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی طرف سے تعلیمی محرومیوں کے خاتمے کے لئے احتجاج بھی کیے گیے۔ بلوچستان میں تو کئی طلباء کو زیر حراست بھی لیا گیا اور طلباء کو احتجاج سے روکنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔ گلگت بلتستان میں بھی طلباء نے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ جس میں طلباء نے سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (SCO) کی اجاراداری اور غیر معیاری سروس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ آن لائن کلاسسزہونے کی صورت میں طلباء کے لئے ٹیوشن فیس میں مکمل رعایت ا ور دوردراز کے طلباء کے لئے ہاسٹل فیس میں سو فیصد رعایت کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

آج اکیسویں صدی میں جو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، بائیو ٹیکنالوجی اور 5 جی کا دور ہے اور اس دور کی مناسبت سے ہوا، پانی اور غذا کے ساتھ انٹر نیٹ بھی انسان کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ کورونا کی بدولت تعلیم کا نظام بھی آن لائن کی طرف منتقل ہو چکا ہے لیکن پاکستانی طلباء کی بد قسمتی کہ یہاں یہ بھی کھوکھلے پن کا شکار ہے۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں جہاں آج کے اس دور میں بھی انٹرنیٹ اور اور موبائل سگنل کی سہولت موجود نہیں وہاں انٹرنیٹ اور سگنل کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے تاکہ طلباء کے مسائل میں کچھ افاقہ ہو سکے۔ حکام بالا طلباء کے مسائل کے ساتھ سنجیدہ ہو جائے کیونکہ پاکستان کا اصل مستقبل طلباء ہی ہیں۔ اگر طلباء کا مستقبل خطرے میں ہوگا تو پاکستان کی سا لمیت خطرے میں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments