پورٹ آتھر کا عقوبت خانہ اور وقت کی کروٹ


یار کل ہم پورٹ آرتھر جیل دیکھنے جائیں گے۔ فرحان نے اعلان کرتے ہوئے کہا۔ ارے یار جیل بھی کوئی دیکھنے کی جگہ ہے توبہ توبہ کرو اور کہیں اور چلو، عامر نے فوراً ٹوکتے ہوئے کہا۔ ارے یار وہاں اور بھی کافی خوبصورت جگہیں دیکھنے والی، وہاں بھی چلیں گے لیکن جیل بھی لازمی دیکھیں گے۔ ہاں اس دفعہ سب اپنی ٹکٹ خود خرید یں گے۔ فرحان نے بھی متنبہ کرتے ہوئے کہا۔ چلو جی، ایک تو جیل دیکھو وہ بھی خود سے پیسے دے کر، ماشاءاللہ فرحان تمہارے دماغ میں ایسے خیالات کیسے آ جاتے ہیں؟ عامر نے طنز کرتے ہوئے کہا۔ میرے بھائی ایک دفعہ چلو تو سہی تمہیں پسند آئے گی اور وہ جیل نہیں ہے ایک ثقافتی ورثہ بن چکا ہے جسے دیکھنے ہر سال ہزاروں لوگ آتے ہیں ہم اکیلے نہیں جا رہے، فرحان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

اگلے روز ہم جیل دیکھنے نکلے، پورٹ آرتھر، ہوبارٹ شہر سے لگ بھگ 90 کلو میڑ کے فاصلہ پر، جنوب مشرقی علاقہ میں واقع ہے۔ ہم تین دوست تھے عثمان، عامر اور فرحان۔ یار ایک بات تو بتاؤ۔ عامر نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے فرحان سے پوچھا۔ ہاں پوچھو فرحان نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔ اتنی دور جاکر یہ جیل دیکھنے کی کیا وجہ ہے؟ اس میں کیا خاص بات ہے؟ یار یہ جیل بہت پرانی ہے۔ یہاں پر انگلینڈ سے ان مجرموں کو لایا جاتا تھا جو وہاں پر سزا یافتہ ہوتے تھے۔

ان میں سے کچھ ایسے تھے جن کو سزائے موت ہو جاتی تھیں تو ان کو یہ پیش کش دی جاتی تھی، اگر تم وہاں جاکر اپنی سزا گزارتے ہو تو تمہاری سزائے موت ختم کر دی جائے گی۔ 1788 سے یہ عمل شروع ہوا۔ پہلے ان مجرموں کو نیو ساؤتھ ویلز میں لایا گیا۔ اور زیادہ خطرناک مجرموں کو یہاں پورٹ آرتھر لایا جاتا تھا۔ فرحان نے تفصیل سے بتایا۔ اتنی درو سزا کاٹنے بھیجتے تھے؟ عامر نے حیران ہو کر پوچھا؟ میرے خیال سے انہوں نے یہ زمین آباد کرنی تھی اور کوئی ٹیلی فون یا انٹرنیٹ تو تھا نہیں کہ دور رہ کر بھی اپنوں کے قریب رہا جائے تو شاید سرکار نے سوچا ہو کہ ویسے تو شاہد آباد کار وہاں نہ جائیں کیوں نہ ان مجرموں کو جن مجرموں کو سزائے موت دی گئی ہے ان کو یہ پیش کش دے کر دیکھ لیتے شاہد کوئی رضا مند ہو جائے۔ اور جو اپنی سزا پوری کر لے، تو وہ وہاں رہ کر اس زمین کو آباد کرے۔ اس طرح برطانوی حکومت نے اس غیر آباد زمین کو آباد کرنا شروع کیا۔

تمہارے خیال سے ان کا یہ فیصلہ ٹھیک تھا؟ عامر کے سوالات جاری تھے۔ ہاں، میرے خیال سے ٹھیک تھا۔ اس کی کافی ساری وجوہات ہیں پہلی بات یہ کہ یہاں کے مقامی باشندے یہاں پر تقریباً ستر ہزار سال سے رہ رہے تھے۔ لیکن ان میں سے کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ اپنی دنیا سے آگے اور باہر جایا جائے اور اپنے جزیرے کے علاوہ بھی کچھ دریافت کیا جائے۔ آسٹریلیا پورے کا پورا جزیرہ ہے۔ اس لیے وہ اپنے جزیرے میں رہے، لیکن شاید قدرت اس زمین کو آباد کرنا چاہ رہی تھی۔ یورپ کے لوگوں نے نامعلوم زمینون کو دریافت کرنا شروع کیا۔ پہلے جو لوگ یہاں پہنچے وہ کپٹن کوک اور اس کے ساتھی تھے۔ جو کہ یہاں پر 1770 میں پہنچے اور 22 اگست 1770 کو آسٹریلیا کو برطانیہ کا حصہ بنانے کا کیا اعلان کیا۔ فرحان بھی سفر میں بات چیت کا مزہ لے رہا تھا۔

فرحان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، دیکھو یار کہاں ستر ہزار سال اور پھر صرف دو سو سال۔ یورپ کے لوگوں نے اس ملک کی قسمت بدل کے رکھ دی۔ اور موجودہ حکومت دن بدن اس کو آباد کر رہی ہے۔ آج کل بھی یہاں پر حکومت نے یہ حوصلہ افزا اعلان کیا ہوا ہے کہ جو کوئی کوئی 5 بڑے سہروں کے اعلاوہ کئیں جا کر رہے، اس کو جلدی شہریت دے گے۔ مزید یہ کہ، یہ لوگ یہ بات جان گئے اگر ترقی کرنی ہے تو دنیا کے بہترین لوگوں کو یہاں بلایا جائے، بہترین لوگ ہی بہترین معاشرے کا قیام عمل میں لاتے ہیں۔ تمہیں پتہ ہو گا کہ دنیا کے دس بہترین شہروں کی فہرست میں آسٹریلیا کے تین شہر آتے ہیں جن میں ملبورن، سڈنی اور ایڈیلیڈ شامل ہیں۔

اتنے میں ہم لوگ وہاں جیل کے باہر پہنچ گئے اورجیل کی کار پارکنگ میں گاڑی پارک کی۔ سستی سی ٹکٹ تھی۔ ٹکٹ لے کر کے ہم احاطے میں گئے، تو سامنے ہی ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت نظر آئی۔ وہاں ٹور گائیڈ بھی کھڑے تھے جو ہر آدھے گھنٹے کے بعد وہاں سے ایک گروپ کو جیل کی سیر کروانے لے کر جاتے تھے۔ دس منٹ میں اگلا گروپ نکلنے والا تھا تو ہم بھی رک گئے اور گروپ کے لوگوں کے اکٹھا ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ ٹور گائیڈ بہت ہی شائستہ طبیعت کا مالک تھا اور اس نے تفصیل سے سیر کروائی۔ ٹکٹ میں تین سہولتیں میسر تھی، جس میں جیل کی سیر، ملحقہ جنگل کی چہل قدمی اور اس کے ساتھ ملحقہ سمندر میں کشتی سیر شامل تھی۔

ٹکٹ کے پیسے پورے کیے، تینوں سہولتوں کا مزہ لینے کے بعد واپسی کی طرف چل پڑے۔ عثمان جب جیل کے احاطے کے سامنے سے گزر رہا تھا جیل کو غور سے دیکھنے لگا، اب کیا چیز رہ گئی ہے جس کو کھوجنے کے لئے روک گے ہو؟ چلو میں تو پہلے ہی بہت تھک گیا ہوں۔ عامر نے تنگ آتے ہوئے عثمان کو کہا۔ یار وقت بھی کیسا جادوگر ہے، اس جگہ پر خطرناک مجرموں کو رکھا جاتا تھا۔ ایک گھر سے دوری کا دکھ توسلتے ہی تھے۔ یہاں کے عقوبت خانون کی اذیت بھی ان کے لیے تکلیف ہوتی ہوگی۔

طرح طرح کی سزائیں لتے، جانے کتنے ہی قیدی مر گئے ہو ں گے۔ ان کو یہ جیل وحشت کدہ لگتی ہوگی، ہر وقت یہ منصوبے بناتے ہوں گے کہ یہاں سے بھاگ جائیں۔ لیکن دیکھو وقت نے کروٹ لی اور اس جیل کی وحشت ختم ہو گئی ہے۔ لوگ یہاں اپنی مرضی سے آتے ہیں اور اس جگہ کو دیکھنے کے پیسے بھی دیتے ہیں۔ اور یہاں پر بنائی گئی تصویریں اپنے گھر والوں کو اور دوستوں کو دکھاتے ہیں، کہ یہاں اس جگہ آئے تھے۔ یہ صرف وقت کی جادوگری ہے وقت بدلے تو سب بدل جاتا ہے۔ عثمان جو کہ سارے سفر میں خاموش تھا آخر بول پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments