کرائے دار نے برقعہ پہن کر مکان مالک کو لوٹ لیا


پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں جناح روڈ کا رہائشی عثمان اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔ دن بھر ریڑھی پر دہی بھلے بیچ کر جو کمائی ہوتی اس سے وہ اپنے گھروالوں کا پیٹ بمشکل پال رہا تھا۔ اس کی زندگی کی گزر بسر کا واحد ذریعہ ٹھیلا تھا۔ غربت کی وجہ سے اس کے بیوی بچوں کو فاقہ کشی کی عادت ہوچکی تھی اس لئے گھر والوں کو کھانے کو ملے نہ ملے، سب سے پہلے وہ گھر کا کرایہ ادا کرتا۔ عثمان کو گھر کے خرچہ سے زیاہ مکان کاکرایہ دینے کی فکر رہتی تھی کیونکہ مالک مکان نے کہہ رکھا تھا کہ اگرکرایہ دینے میں تاخیر ہوئی یا کرایہ نہ دیا تو مکان فوری خالی کرنا ہوگا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں کورونا وائرس کی آمد ہوئی تو ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ لاکھوں لوگ جو دیہاڑی دار تھے، وہ زندہ تو تھے لیکن غربت اور بھوک کے ہاتھوں مرنے لگے۔ کورونا کی وجہ سے جب لاک ڈاؤن لگایا گیا تو سب سے زیادہ دیہاڑی دار افراد متاثر ہوئے۔ دیہاڑی دار افراد کی کمائی ہوائی کمائی کہلاتی ہے یعنی اگر دیہاڑی لگ جائے توگھر والوں کو کچھ کھانے کو مل جاتا ہے نہیں تو فاقہ کشی کرنی پڑتی ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے عثمان بھی اپنی ریڑھی نہ لگا سکا۔ مکان کا کرایہ دینا تو دور کی بات وہ بیوی بچوں کو ایک وقت کی روٹی دینے سے بھی قاصر ہوگیا۔ کسی طرح امداد میں ملنے والے راشن سے گھر والوں کے زندہ رہنے کا سبب توبن گیا لیکن وہ مکان کا کرایہ نہ دے سکا۔ فاقہ کشی اورکرایہ کی ادائیگی کے حوالے سے مکان مالک کی منت سماجت کرتے کرتے بے رحم وقت اسی طرح گزرتا گیا۔ مکان کا دو ماہ کاکرایہ واجب الادا ہونے پر آخر مکان مالک نے گھر خالی کرنے کی دھمکی دی۔

اس دھمکی پر وہ شدید ذہنی کرب میں مبتلا ہوکر سوچنے لگا کہ اگر مکان مالک نے سچ میں گھر خالی کرا لیا تو کورونا وائرس کی فضا میں بیوی بچوں کو لے کر وہ کہاں جائے گا جبکہ اس کے سگے اور دوست پہلے ہی اس کاساتھ چھوڑ چکے تھے۔ مکان کا کرایہ دینے کے لئے اس نے ہر جگہ ہاتھ پھیلائے، اپنے دکھوں کی داستان سنائی، آنسو بہائے لیکن کسی جگہ سے بھی کرایہ ادا کرنے کے لئے رقم کا بندوبست نہ ہوسکا ادھرمالک مکان کی جانب سے دی گئی مہلت بھی ختم ہونے والی تھی۔

آخر اس نے دل میں وہ کام کرنے کا تہیہ کیا جس کا شاید اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ مالک مکان کی بہترمالی حیثیت کے پیش نظر عثمان نے اسے لوٹنے کا پروگرام بنایا۔ ایک دن صبح بیوی کو کسی ضروی کام کا کہہ کرعثمان گھر سے نکلا اوربرقعہ پوش خاتون کے حلیہ میں مکان مالک کو لوٹنے اس کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس نے کالے رنگ کا برقعہ اور سفید رنگ کے دستانے پہن رکھے تھے اور ایک تیز دھارآلہ بھی چھپا رکھا تھا تاکہ مکان مالک کو ڈرا کر رقم لوٹی جاسکے۔ برقعہ پہنے حلیہ اور نسوانی چال کی وجہ سے کوئی بھی یہ نہ جان سکا کہ برقعہ کے اندر کوئی خاتون نہیں بلکہ ایک مرد ہے۔ ادھر مکان مالک اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا عثمان نے مکان مالک کوتیز دھار آلہ سے ڈرایا اور انتالیس ہزار روپے ہتھیا کر رفو چکر ہو گیا۔

کہتے ہیں چور اپنا نشان کہیں نہ کہیں چھوڑ جاتا ہے۔ عثمان نے برقعہ پوش خاتون کا حلیہ تو اپنا لیا لیکن نسوانی آواز صحیح طرح نہ نکال سکا۔ واردات کے دوران مالک مکان عثمان کو برقعہ کی وجہ سے ظاہری طور پرپہچان نہ سکا لیکن برقعہ پوش کی آواز پر اسے کچھ شک سا ہوا، اسے برقعہ پوش کی آواز کرایہ دار عثمان سے ملتی جلتی لگ رہی تھی۔ مالک مکان نے فوری پولیس کواپنا شک ظاہر کیا۔ پولیس کی تفتیش کے بعد ثابت ہوگیا کہ عثمان نے برقعہ پوش خاتون بن کر اپنے مالک مکان کو لوٹا ہے۔

پولیس کے سامنے عثمان نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا اور اس جرم کو کرنے کی وجہ بننے والی درد بھری داستان بھی سنائی۔ اس کی داستان سن کر پولیس والوں کو اس پر رحم آ گیا، انھوں نے خود پیسے جمع کیے اوراس کے گھر کا کرایہ پورا کرکے رقم اس کی بیوی کودے دی۔ اس موقع پر پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم کو اس کے جرم کی سزا ضرورملے گی لیکن کرائے کی ادائیگی سے اس کے بیوی بچے بے گھرہونے سے بچ جائیں گے۔ پولیس کی اس نیکی پر ہر کسی نے تعریف کرتے ہوئے انھیں دعائیں دیں ہیں۔

مختلف ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق عثمان کا کہنا تھا کہ مکان کے کرائے کے لئے پیسے نہ ہونا، غربت، بے روزگاری اوربچوں کو بھوکا دیکھ کر وہ ذہنی مریض بن گیا تھا اسی لئے یہ غیر قانونی حرکت اس سے سرزد ہوئی۔ عثمان کو قانون سے کیا سزا ملتی ہے؟ یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ کورونا کی وجہ سے سب سے زیادہ دیہاڑی دار متاثر ہوئے ہیں جس کا اظہار متعدد بار وزیر اعظم عمران خان بھی کرچکے ہیں اسی بنا پر حکومت نے دیہاڑی دار ور مستحق افراد کے لئے احساس پروگرام کے تحت راشن اور مالی امداد سمیت کئی دیگر اقدامات کیے ہیں۔ اس لئے دیہاڑی داراور مستحق افراد کو چاہیے کہ وہ عثمان کی طرح کوئی بھی غیر قانونی قدم اٹھانے کی بجائے خود کو احساس پروگرام میں رجسٹرڈ کروائیں تاکہ ان تک حکومتی مالی امداد اور راشن پہنچ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments