ایا صوفیہ، صوفیہ اورمسجد شب بھر


دیدے ترکت کو اوغوز قبیلہ کے سردار یاقووی خان نے اپنا سفیر مقرر کر کے جب آنحضور ﷺ کے پاس بھیجا تو اس نے وہیں اسلام قبول کر لیا اس نے آپ ﷺ کے لب مبارک سے یہ حدیث سنی کہ ”تم قسطنطنیہ ضرور فتح کرو گے اس کا امیر بہترین امیر اور اس کو فتح کرنے والا لشکر بہترین لشکر ہوگا“ ایک اور روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ ”جس کسی نے میری امت میں سے مدینہ قیصرہ (قسطنطنیہ) پر پہلے چڑھائی کی اس کے لئے بخشش ہے“ ۔

دیدے ترکت ایک ذہین فطین شخص تھا اور اس کے چہرے پر سفید داڑھی تھی۔ ترکوں کے مسائل حل کرنے کی بنا پر اور سفید داڑھی کی وجہ سے اس کا نام ایکسیکل پڑ گیا کیونکہ ایکسیکل ترکی میں سفید داڑھی کو کہتے ہیں۔ بعد میں اسی نام سے یعنی سفید داڑھی والے لوگ ایک خفیہ تنظیم بھی بنائی گئی جس کا کام یہ تھا کہ وہ سفید داڑھی والوں کو تیار کرتے اور انہیں خفیہ مشن پر بھیج دیا جاتا۔ ان کا ایک ہی مشن تھا وہ یہ کہ ایک ایسی فوج تیار کرنا جو قسطنطنیہ کو فتح کر کے اس پر اسلام کا جھنڈا لہرا ئے۔ اسلامی علم کیسے لہرایا گیا اس سے قبل ہم دیکھتے ہیں کہ قسطنطنیہ کی کیا تاریخ رہی ہے اور رومیوں کا اتنا بڑا چرچ کیسے ایک مسجد میں تبدیل ہوا جس کے بارے میں 10 مئی کو ترکی عدالت عالیہ کی طرف سے فیصلہ ہوا کہ اسے مسجد کے سٹیٹس پر بحال کر دیا جائے۔

قسطنطنیہ کا سب سے پرانا نام بازنطین تھا جو کہ 668 قبل از مسیح یونانیوں کے اپنے بادشاہ کے نام کی نسبت سے اسے آباد کیا اس کا شروع میں نام بازنظیم تھا جو تلفظ کے بگاڑ کی وجہ سے بازنطین بنا۔ 330 عیسوی میں قسطنطین نے ایک خواب دیکھا جس میں اسے قسطنطینن کو دوبارہ آباد کرنے کا اشارہ دیا گیا۔ قسطنطین اعظم نے اپنا خواب پورا کیا اور اس شہر کو اپنا نام دیا۔ بعد ازاں اس شہر کو نو روما، مدینہ قیصرہ یا اہل یورپ کے نام بھی دیے گئے جو کہ شہرت نہ پاسکے۔

یہ شہر رومن سلطنت کا ایک حصہ تھا۔ دنیا کی بڑی بڑی قوموں میں سے ایک رومن سلطنت بھی تھی جس کا دارالحکومت روم (اٹلی) تھا۔ 27 قبل از مسیح اس کی بنیاد آگسٹس سیزر نے رکھی تھی۔ اس سلطنت سے دنیا کے بہت کے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے اپنی دھاک دنیا میں بٹھائی لیکن پانچ صدی عیسوی میں رومن سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک مشرق میں جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ تھا اور اس میں یونان، ایشیائے کوچک، شام، مصر اور حبشہ جیسے مشہور ممالک شامل تھے جبکہ دوسرا حصہ مغرب میں تھا جس کا مرکز روم تھا۔

یورپ کے بیشتر علاقے اس حصہ میں شامل تھے۔ مشرقی حصہ جس کا دارالحکومت قسطنطنیہ تھا اس کا مذہبی پیشوا پٹریارکPatriarch کہلاتا تھا۔ یہ آرتھوڈکس فرقہ کہلاتے تھے جبکہ روم میں مسند نشین عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کو پوپ یا پاپا کہتے تھے۔ پوپ روم میں مسند نشین تھا اور اس کے ماننے والے کیتھولک فرقہ کہلاتے تھے۔ بادشاہ قسطنطین نے اصل میں جب عیسائیت قبول کی تو اس کے ساتھ اس کی قوم بھی عیسائی مذہب کے پیروکار بن گئے۔

اس نے قسطنطین میں ایک بڑے چرچ کی بنیاد رکھی جسے مکمل کرنے کیے کئی سال لگے۔ پوری دنیا سے آرتھوڈکس خیالات کے عیسائی اس چرچ میں عبادت کونے کو اپنے لئے ایک اعزاز خایل کرتے تھے۔ تاریخ اس چرچ کو ایاصوفیہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اس عالمی مرکز میں عیسائی عباد کرنے کو سب سے افضل سمجھتے تھے۔ اسی لئے دنیا کے کونے کونے سے عیسائی یہاں ضرور جمع ہوتے تھے۔

1299 میں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے سردار عثمان نے اس علاقہ کو فتح کرنے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا کیونکہ اس نسل کو قسطنطنیہ فتح کرنے کو خواب نسل در نسل سینہ سینہ بتایا جاتا تھا۔ بلکہ ان قبائل کا تو کوڈ ورڈ ہی یہی تھا۔ کہ یہ راستہ کہاں کو جاتا ہے تو اس کا جواب ہوتا، کزل ایلما یعنی سرخ سیب۔ اس سرخ سیب سے مراد اصل میں قسطنطنہ کو ہی لیا جاتا تھا۔ جو کہ ترکوں کی اصل منزل تھی۔ اس منزل کو سلطان مراد کے بیٹے سلطان محمد فاتح نے مراد تک پہچایا۔

سلطان محمد فاتح نے اس علاقہ کو چودہ دن کے محاصرہ کے بعد 1453 میں فتح کیا۔ یعنی ترکوں کے اس خواب کو کہ جو لشکر فتح کرے گا بہترین ہوگا اور امیر بہترین امیر ہوگا، شرمندہ تعبیر کیا۔ سلطان محمد فاتح نے اس شہر کا نام تبدیل کر کے اسلام بول رکھا جو کہ تلفظ میں مشکل ادائیگی کی بنا پر استنبول کہلایا۔ 1453 سے لے کر 1924 تک یہ مسجد ہی رہی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد جب عثمانیہ خلافت کا خاتمہ ہوا تومصطفی کمال اتا ترک نے جدید اور سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی۔

اس نے فرانس، انگلینڈ، اٹلی اور یونان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے معاہدہ لوزان کہا جاتا ہے۔ بالآخر 1935 میں اتاترک نے سے مسجد سے میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ اور دارالحکومت بھی استنبول سے انقرہ تبدیل کر دیا۔ 31 مئی 2014 میں نوجوانان اناطولیہ ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں کھلے عام نماز ادا کی جس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ ایاصوفیہ ایک میوزیم نہیں بلکہ ایک مسجد ہے۔ اور مسلمانوں کے پانچ سو سالہ حکومت کے شاندار ماضی کا ایک ورثہ ہے۔

یعنی اس دن یہ آغاز ہو گیا کہ اس میوزیم کو مسجد مں تبدیل کر دیا جائے۔ موجودہ صدر ترکی طیب اردوان نے اپنی انتخابی منشور میں عوام سے وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ ایاصوفیہ کو پھر سے مسجد بنائیں گے۔ طیب حکومت نے اپنے اس وعدہ کو 10 مئی 2020 میں پایہ تکمیل کو اس وقت پہنچا دیا جب ترکی کی عدالت عالیہ نے ایا صوفیہ کے مسجد کے سٹیٹس کو بحال کرنے کے احکامات صادر فرمائے۔

اس فیصلہ کے خلاف ایک خاص قسم کی ذہنیت اور ایجنڈا رکھنے والے لوگ ایاصوفیہ کو مسجد کی حیثیت دینے کے خلاف بھی ہیں، ان میں طیب اردوان کے بین الاقوامی مخالفین، سلطنت عثمانیہ کے حاسدین، فاشسٹ اور متعصب عیسائی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک چرچ تھا اس لئے اس کی وہی حیثیت برقرار رہنی چاہیے۔ اگر ایسا کوئی قانون ہے تو پھر بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں سینکڑوں مساجد کو کس قانون کے تحت بند کیا گیا ہے، ابھی حال ہی میں اپنے ایک سٹوڈنٹ فرحان سے بات کر رہا تھا جو کہ بلغاریہ میں ایم بی بی ایس کی ڈگری کر رہا ہے تو اس نے بتایا کہ ابھی چند ایک مساجد پورے ملک میں مسلمانوں کی استدعا پہ کھولی گئی ہیں لیکن وہ بھی وقت نماز وگرنہ زیادہ تر مساجدکو قفل لگے ہوئے ہیں۔

ان مساجد کو بلغاریہ حکومت نہیں بلکہ ترکی حکومت ہی فنڈنگ کرتی ہے۔ صوفیہ ایسا علاقہ ہے جہاں مسلمانوں نے پانچ سو سال حکومت کی اور وہاں سینکڑوں کی تعداد میں مساجد بھی تعمیر کروائیں۔ اگر ایاصوفیہ کے مسجد کی حیثیت کو برقرار رکھنا ہے تو پھر پورے یورپ میں جو مساجد بند پڑی ہوئی ہیں اور وہاں مسلمانوں نے صدیوں حکومت بھی کی ہے تو انہیں بھی اسی قانون کے تحت کھول دیا جائے اور ان کی مسجد کی حیثیت کو بحال کر دیا جائے۔

ایاصوفیہ کو مسجد کا پھر سے درجہ دینے کے اس فیصلہ پر پوری دنیا میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے خاص کر ان ممالک میں جن کا خیال یہ ہے کہ خلافت کو پھر سے بحال کیا جائے۔ یقیناً خوشی کی بات تو ہے لیکن مجھے جس بات کا خدشہ ہے وہ یہ ہے کہ اسے ایک وزٹنگ مسجد نہ بنادیا جائے بلکہ ایک مرتبہ پھر سے اس کے میناروں سے صدائے تکبیر بلند ہو اور ان تکبیر کے سائے میں نمازیں ادا کرنے والے امام ومقتدی خلافت عثمانیہ کے راہنماؤں جیسا ایمان بھی اپنے اندر پیداکریں۔ پھر ہی اسلام کا بول بالا ہوگا۔ اگرنہ تو حالات مسجد شب بھر والے ہوں گے کہ جب برصغیر کے مسلمانوں نے ایک رات میں مسجد تعمیر کر کے دنیا کو حیران کر دیا جس پر علامہ اقبال نے مشہورزمانہ شعر کہا تھا کہ

مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments