زبانوں کے قفل کھل رہے ہیں


جیئیں مولانا عطا الرحمان، گزشتہ روز سینیٹ اجلاس میں آپ کی تقریر نے ملک بھر میں جوش اور ولولے کی ایک نئی تحریک پیدا کردی ہے۔ ملک میں مخصوص مفادات رکھنے والوں کا آئین کی اطاعت نامنظور کا باطل نظریہ کسی نہ کسی طور گاہے بہ گاہے انگڑائی لیتا ہی رہتا ہے، سول اقتدار پر شب خون مارتے رہنا ان کے لیے ایک معمول ہے، موجودہ شب خون دو برس سے عمران حکومت کی شکل میں عیاں ہے۔

مخصوص مفادات کو عوامی مفاد پر مقدم جاننے والے جنہیں مولانا عطا الرحمان نے آئینہ دکھایا، ملکی وسائل کا غیر معمولی حصہ ملک کی بقاء کو لاحق خطرات کا خوف پیدا کر کے اپنے نام کر چکے ہیں، مولانا عطا الرحمان کا محکمے کی کارکردگی اور وسائل کے بے تحاشا استعمال کے باوجود نتائج پر سوال بہت توجہ طلب ہیں، گزشتہ بہتر سالوں کی کارکردگی اور وسائل کے استعمال کی تفصیل پر پوچھ گچھ عوامی نمائندوں کا حق اور فرض ہے لیکن جواب پیش کرنے کے بجائے جس طرح اٹھارہویں ترمیم اور قومی مالیاتی کمیشن پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں اس کا خاصہ تفصیلی ذکر مولانا عطا الرحمان نے اپنی تقریر میں کر دیا ساتھ واشگاف الفاظ میں یہ بھی بتا دیا کہ 18 ویں ترمیم میں کوئی بھی ردوبدل ملک کے ٹوٹنے کا باعث ہو گا اور ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔

تعلیم، صحت اور رہائش پر وسائل کے خرچ کو ترستی قوم ملکی وسائل کا بیشتر حصہ کسی ایک جانب کے فرمائشی پروگرام کی نذر کیے چلی جا رہی ہے اور خوف کا ایسا ماحول ہے کہ کسی کو سوال کرنے کی جرعت نہیں ہے، لیکن مولانا نے کلمہ حق بلند کر کے عوام کو خوف سے آزادی کی راہ دکھا دی ہے۔ صد افسوس کہ مخصوص مفادات یہ فراموش کر بیٹھے کہ ملکی وسائل کا دھارا عوام کی انتہائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بجائے غیر پیداواری اور غیر ترقیاتی مد میں ضائع کرنا ملکی بقا کے لیے سرحدوں سے زیادہ اندرونی خطرات میں اضافہ کیے چلا جا رہا ہے۔

وسائل پر قبضے کے ساتھ ساتھ رائے کے اظہار پر پابندیوں کے نت نئے طریقوں، ذرائع ابلاغ کے سچ لکھنے اور بولنے پر پابندی، حق مانگنے والوں کی بات صبر اور سکون سے سن کر مسائل کے حل پر توجہ دینے کے بجائے اغوا، تشدد اور اکثر و بیشتر زندگی چھین لینے کے واقعات معاملات کو پہلے ہی بے حد سنگین بنا چکے ہیں، ان حالات میں 18 ویں ترمیم اور قومی مالیاتی کمیشن نے امید کی ایک کرن جگائی لیکن قوم میں امید کی رمق دیکھ کر مخصوص مفادات رکھنے والوں کے دل بجھنے لگتے ہیں۔

عمران حکومت کو ملک پر زبردستی مسلط کرنے کے پیچھے بھی سب سے بڑا محرک 18 ویں ترمیم کے ذریعہ وسائل کو صوبوں سے چھین کر وفاق کے سپرد کرنا ہے، حالانکہ صوبے جائز طور پر قومی مالیاتی کمیشن میں وفاق کے (% 5۔ 42 ) ساڑھے بیالیس فیصد بھاری حصے پر بجا طور پر معترض ہیں۔ ظاہر ہے ملکی وسائل کے غیر معمولی حصے پر قابض رہنے اور مزید کی خواہش کے لیے صرف معمول کا دباؤ تو کارآمد نہیں ہو سکتا ، لہذا، نام نہاد سیاسی حاشیہ برداروں کی بھی ضرورت پڑتی ہے سو اس کام کے لیے مولانا عطا الرحمان کی تقریر کے جواب میں 18 ویں ترمیم میں ردوبدل کی تحریک پیش کرنے والے منظور نظر بیرسٹر سیف نے بہت زور لگایا لیکن وہ تمام ویڈیو ریکارڈ جس میں بیرسٹر سیف نے لچک لچک کر زور خطابت کا مظاہرہ کیا 18 ویں ترمیم یا اس میں جس ردوبدل کی خواہش ہے اس کا کہیں ذکر نہیں ملا۔

غالباً مولانا کی تقریر میں گھن گرج نے اوسان خطا کردیئے، البتہ بیرسٹر سیف نے یہ ضرور آشکار کیا کہ موصوف کسی سرکاری محکمے کے آدمی ہیں جبکہ عوام الناس میں انتہائی قوی خیال یہ ہے کہ محکمہ ہمارا ہے، اور یہ کہ ردوبدل 18 ویں ترمیم میں نہیں، مخصوص مفادات کی محدود سوچ میں ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments