ایک مافوق الفطرت تجربہ


تھا تو میں فوج میں کپتان مگر ”ضیا الحقی“ کے بعد اس فوج میں جس کا وہ سربراہ تھا رہنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ زبردستی فوج میں لیے جانے کی مدت پوری ہونے سے پہلے فوج کو خیرباد کہنا دشوار تھا۔ اوپر سے شادی بھی ہو گئی تھی۔ نئی نویلی بیوی میڈیکل کالج کی طالبہ تھی۔ کوئی رات ہوٹل میں تو کوئی رات کسی دوست کے گھر، معاملہ کچھ جمنے نہیں پا رہا تھا چنانچہ طے کیا کہ فوج میں تو رہنا نہیں، گھر کا مطالبہ کیا کرنا، چند ماہ کی بات ہے اس لیے فوج کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھکانہ کر لیتے ہیں۔ دو کمرے مل گئے۔ ایک میں بیڈ تھا اور دوسرا ملنے ملانے والوں کے لیے۔ کھانا آرمی میس سے آ جایا تھا۔

میرا ایک دوست تھا، نام بتانے کی ضرورت نہیں لیکن تب وہ منشیات کی متنوع اقسام کے استعمال میں کچھ عرصے کے لیے بدمست رہنے لگا تھا۔ ایک بار اس کی حالت دیکھ کر مجھے شرم بھی آئی اور غصہ بھی۔ اسے زبردستی موٹر سائیکل کی پچھلی نشست پر بٹھا کر، مجھے اس کا نشہ اتروانے کی خاطر، ایک ہاتھ سے اسے پکڑے ہوئے، ایک ہی ہاتھ سے ہینڈل تھامے ہوئے ملتان سے چناب کے پل تک موٹرسائیکل چلانی پڑی تھی۔ آدمی بہت ذہین تھا، ذہین شخص کو بھلا کون سمجھا سکتا ہے۔

وہ اپنی پینک میں عجیب عجیب باتیں بھی کرتا تھا۔ مثلاً اس نے ایک بار بغیر نشے کیے مجھے بتایا تھا، ”یار مجھے داڑھیوں والے عجیب عجیب لوگ ملتے ہیں جو کہتے ہیں، تم ہمیں نہیں جانتے لیکن ہم تمہیں جانتے ہیں“ ۔

خیر ایک رات گیسٹ ہاؤس کی بیل بجی۔ دروازہ کھولا تو باہر وہ کھڑا ہوا تھا، ٹکٹکی باندھے ہوئے، گم سم، چپ۔ ”آ جاؤ“ میں نے کہا تھا وہ اندر آ گیا تھا۔ ہم دونوں پہلا کمرہ الانگھ کر بیڈروم میں پہنچے تھے۔ میں بیڈ پر بیوی کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ وہ باوجود میرے اور میری بیوی کے کہنے پر بھی بیڈ کے کنارے پر نہیں بیٹھا تھا، کھڑا رہا تھا۔ ہم دونوں کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا۔ ہم دونوں اس کا نام لے لے کر پوچھ رہے تھے کہ کیا بات ہے، چپ کیوں ہو؟ اس ڈر سے، کہ وہ اپنی حالت میں نہیں ہے کہیں کچھ دے ہی نہ مارے یا حملہ آور نہ ہو جائے، ہم کیا ہوا، کیاپوا پوچھتے ہوئے سرکتے سرکتے بستر پر دیوار سے جا لگے تھے مگر وہ بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا بس گھورے جا رہا تھا۔ پھر یک لخت بستر کے کنارے پر بیٹھتے ہی کہا تھا، ”مجھے ہوسٹل چھوڑ آؤ“ ۔

اندھا کیا چاہے دو آنکھیں میں فوراً تیار ہو گیا تھا۔ باہر برآمدے میں موٹر سائیکل سیمنٹ کے بلور مسطح فرش پر کھڑی تھی۔ میں نے سٹینڈ ہٹایا تھا۔ کک مار کر موٹر سائیکل سٹارٹ کی تھی۔ وہ پیچھے بیٹھ گیا تھا۔ میں نے کلچ دبا کر گیر لگایا تھا، معمول کے مطابق کلچ آہستہ آہستہ چھوڑا تھا، پچھلا پہیہ ایسے گھوم رہا تھا جیسے موٹر سائکل گارے میں کھڑی ہو، پورا کلچ چھوڑنے پر بھی موٹر سائیکل آگے نہیں بڑھی تھی۔ میں نے سوئچ آف کر کے پلگ ولگ دیکھے تھے۔ ظاہر ہے میں نے کچھ اتنی مکینکی تو کی نہیں تھی، چنانچہ ایک بار پھر سٹارٹ کر کے، کلچ دبا کر اس گمان سے کہ پہلے ہی کی طرح ہوگا، پورا کلچ چھوڑ دیا تھا۔ موٹر سائیکل جھٹکے کے ساتھ اچھل کر آگے بڑھ گئی تھی۔ اس میں کوئی غیر معمولی پن نہیں لگا تھا۔

سردیوں کی رات تھی کوئی گیارہ ساڑھے گیارہ کا عمل تھا۔ سامنے پریڈ گراؤنڈ تھا۔ میں نے سوچا کہ رات کو کون دیکھے گا۔ اس سے تو جلدی جان چھڑاؤں چنانچہ موٹر سائیکل گراؤنڈ میں ڈال دی تھی تاکہ وتر سے گزرنے کے سبب راستہ مختصر ہو جائے۔ سب جانتے ہیں کہ چھاؤنیوں میں فوجی تو ہوتے ہیں مگر آوارہ کتے بالکل نہیں ہوتے۔ ہم گراؤنڈ کے وسط میں ہی پہنچے تھے کہ موٹر سائیکل کے دونوں اطراف سے بھونکتے ہوئے کتوں کی باقاعدہ منظم قطاریں ہمارے پیچھے بھاگنے لگی تھیں۔

میں کتوں سے ڈرتا ہوں۔ ان کے اس طرح قطار میں ہونے پر حیرت تھی کیونکہ کتے تو بہت غیر منظم ہوتے ہیں، وہ کون سے فوجی تھے جو انہوں نے منظم رہنے کی تربیت پائی ہوتی اور وہ بھی آرمی کے نہیں بلکہ آوارہ کتے۔ میں نے دونوں پاؤں اٹھا کر ٹینکی پر رکھ لیے تھے لیکن عجیب کچھ نہیں لگ رہا تھا۔ اچانک پیچھے بیٹھے ہوئے دوست نے ہاتھ لمبا کر کے پیچھے کی جانب جھٹکتے ہوئے مدھم آواز میں کہا تھا، ”جاؤ!“ ۔ سارے کتے یک لخت چپ ہو کر اسی طرح قطاروں میں الٹے بھاگتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔

میری تو جان نکل گئی تھی، اب مجھے موٹر سائیکل کے پہیے کا مسطح فرش پر بے طرح گھومنا بھی یاد آنے لگا تھا۔ گراؤنڈ کے دوسرے سرے سے نکل کر پچاس سو میٹر کے بعد کینٹ کا سینما ہال تھا، میں نے پہلا رکشہ دیکھتے ہی موٹر سائیکل روکی تھی، اسے کہا تھا کہ اترو اور جیب سے پیسے نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا تھا کہ رکشے میں بیٹھو اور جاؤ۔ وہ گالیاں دیتا رہ گیا تھا اور میں اسی گراؤنڈ میں سے اندھا دھند موٹر سائیکل چلاتا ہوا گیسٹ ہاؤس پہنچا تھا۔

موٹر سائیکل کو بمشکل سٹینڈ پر کھڑا کیا تھا، لاک کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں خوف سے کانپ رہا تھا۔ داخل ہو کر سیدھا رضائی میں گھسا تھا اور بیوی سے کہا تھا کہ رضائی کے اوپر لیٹ کر مجھے جکڑ لے تاکہ میرا کانپنا بند ہو۔ اس بیچاری نے ایسے ہی کیا تھا پر پوچھا تھا کہ ”ہوا کیا؟“ میں نے کہا تھا چپ، ذرا سکون آ جائے تو بتاتا ہوں۔ جب اسے میں نے واقعہ بتایا تو اس نے کہا تھا، ”کہیں تم نے بھی تو اس کے ساتھ کوئی نشہ نہیں پی لیا“ ۔ میرا بیوی سے جھگڑا ہو گیا تھا۔

اگلے روز میں دفتر سے گھر آ کر وردی اتارے بغیر، رات کے واقعے پر پریشان، لان میں کرسی ڈلوا کر بیٹھا ہوا تھا کہ وہی دوست ہوش و حواس میں مسکراتا ہوا پہنچا تھا اور چھوٹتے ہی بولا تھا، ”بڑا منہ لٹکا کر بیٹھے ہو، خیریت ہے“ میں نے اکتاہٹ کے ساتھ دوسری کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا، ”تیرے ہوتے ہوئے خیریت کیسے ہوگی؟“ متعجب اور رنجیدہ ہو کر کہنے لگا، ”میں نے کیا کیا ہے ایسا؟“ ۔ میں نے جب اسے رات کو واقعہ تفصیل کے ساتھ سنایا تو وہ سیخ پا ہو گیا تھا اور یہ کہتے ہوئے کہ ”کیا میں شہر کے کتوں کو کنٹرول کرتا پھرتا ہوں“ کرسی سے اٹھا تھا اور ہوا ہو گیا تھا۔ میں نے بھی نہیں روکا تھا۔

ذہین آدمی تھا۔ سوچا ہوگا چنانچہ آدھے گھنٹے بعد ہی لوٹ آیا تھا، میں ابھی وہیں بیٹھا تھا۔ آ کر اس نے پہلے معذرت کی تھی پھر کہا تھا، ”یار! استغراق کے عالم میں انسان کی مخفی قوتیں باہر آ سکتی ہیں، ممکن ہے نشے کی جو میری حالت تھی وہ استغراق کی سی کیفیت ہو اور ایسا ہو گیا ہو“ ۔ میں نے کہا تھا، ”تیری مخفی قوت باہر آئی جس نے میرے بدن کی قوت سلب کر لی“ اس پر ہم دونوں نے قہقہہ لگایا تھا اور ماورائیات پر گفتگو کرنے لگے تھے جس کو ہم دونوں نہیں مانتے تھے، وہ شاید آج بھی نہ مانتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments