گراؤنڈ زیرو



کوئی سوال پوچھنے والا نہیں؟

ہم تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔ پی ٹی ایم پٹھانوں کو مظلوم کہہ رہی ہے تو کچھ لوگ بلوچوں کی غیرت کو للکارتے ہیں کہ اور دیں پاکستان کا ساتھ۔ کراچی میں مہاجر کارڈ ہے تو سرائیکی وسیب الگ صوبہ مانگتا ہے۔ کشمیر والے بھی کہتے کہ ہمیں الگ ریاست بننا ہے۔ گلگت کے بقول ہمارے الگ تشخص کو آزاد کشمیر کے اوپر تھوپا جا رہا ہے۔ پنجابی کہتے کہ نواز شریف کو پنجابی ہونے کی سزا مل رہی ہے سندھ والے الگ اپنے لیڈران کی شہادت کو رونا روتے ہیں۔

آخر کون ہے جو اس تقسیم کا ذمہ دار ہے آخر کون ہے جو چاہتا ہے کہ کوئی یہ سوال نہ کرنے پائے کہ اک ایسا ملک جس کے پاس چاروں موسم ہوں زرخیر رقبہ ہو دنیا کا ساتواں بڑا نہری نظام ہو وہاں کے باشندے بھوک کے مارے خود کشیاں کر رہے ہوں بچے بیچ رہے ہوں اک ایسا ملک جہاں معدنیات کے ذخائر ہوں سینڈیک ریکوڈک جیسی سونے اور کاپر کی کانیں ہوں گلیشیئر ہوں دریا ہوں اور پھر بھی وہ خشک سالی کا شکار ہو اک ایسا ملک جس کے پاس سرسبز میدان ہوں ہمہ قسمی درختوں پر مشتمل جنگلات ہوں اور وہاں موسمی شدت ہیٹ ویو سے اک ہی دن ہزاروں افراد لقمہ اجل بن جائیں اک ایسا ملک جس کے پاس آسکر سے لے کر نوبل پرائز تک ہر ایوارڈ موجود ہو اور اس کے پاسپورٹ کی وقعت تیسری دنیا کے غریب ترین ممالک سے بھی کم تر ہو اک ایسا ملک جہاں دنیا کے مانے ہوئے کھلاڑی ہوں جو ورلڈ چیمپئین رہ چکا ہو اور اس میں عالمی کھیلوں کے مقابلے نہ ہو پا رہے ہوں اک ایسا ملک جس کے پاس دنیا کی دس بڑی فوجوں میں اک فوج ہو جس کے پاس دنیا کی نمبر ون جاسوس ایجنسی ہو جس کے پاس ایٹم بم ہو اور اس ملک کے لاکھوں افراد ان پڑھ جنگلی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو جائیں اک ایسا ملک جس کے فنکاروں کا دنیا بھر میں نام ہو جس کے موسیقاروں کو دنیا کی یونیورسٹی میوزک و شوبر نصاب کا حصہ بنائیں جن کے فنکاروں پر تھیسز لکھے جائیں اس کی سینما انڈسٹری دشمن ملک کی فلموں کے سہارے ٹکی ہو جس ملک میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی تہذیبیں پنپی ہوں جس ملک میں دنیا کی ناف کہلائے جانے والا شہر ملتان موجود ہو اس ملک کے پاس مقامی ہیرو کے نام پر بیرونی حملہ آوروں کے خود ساختہ گھڑے گئے کارنامے ہوں تو اس سب میں قصور کس کا ہے اس تقسیم کا ذمہ دار کون ہے اور حالات کو اس نہج تک پہنچانے کے پیچھے کا مقصد کیا ہے کیا ہم نے کبھی ان سوالوں کے جوابات تلاشنے کی کوشش کی ہے کیا کوئی اس کی ذمہ داری لے گا کیا کوئی جواب دہ ہو گا ایسا کیوں ہے کہ دھنیا چوری کے الزام میں اک شخص اٹھارہ اٹھارہ سال قید کاٹے اور دوسرا قتل کر کے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے مقتول کی غربت کا مذاق اڑاتا آزاد ہو۔

کیا کوئی سوال پوچھنے کی جسارت کرے گا کہ جب آپ کے خود کے ادارے میں اٹھارہ لاکھ کیس پینڈنگ پڑے ہوں اور آپ ڈنڈا لے کر دوسرے اداروں کو ٹھیک کرنے نکل پڑے ہیں۔ پہلے اپنا کام تو کریں۔ اک ایسا ادارہ جس میں ضمانت کے مچلکے رشوت کے بغیر منظور نہ ہوتے ہوں وہ عوام کے لیے خون بہانے والے محکمہ پولیس کی کھڑے کھڑے بے عزتی کر دے کہ یہ رشوت خور ہیں۔ کیا اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز موجود ہے اگر ہے تو اس کا دہرا معیار کیوں ہے غریب کا جرم جرم اور امیر کا جرم فیشن کیوں گردانا جاتا ہے

اک ایسا ملک جو ہر لحاظ سے آئیڈیل ہو وہاں ریاست کے کسی اک بھی پہلو سے امید کی کوئی اک کرن بھی نظر نہ آتی ہو تو یہ کس کا قصور ہے صولت مرزا اپنے آقاؤں کے نام چیختے چیختے پھانسی پر جھول گیا درجنوں خاندانوں کے چراغ گل کرنے والا لیاری کا گینگسٹر عزیر بلوچ ریاست کا مہمان کیوں بنا ہوا ہے ریاست اس کے گناہوں کا حساب کب لے گی اس کے کرم فرماؤں پر کون ہاتھ ڈالے گا اک گلی کے غنڈے غلام رسول چھوٹو نے تین دن تک ایٹمی طاقت کو انگلیوں پر نچائے رکھا اس کٹھ پتلی کی ڈوریں ہلانے والوں کو کب پکڑا جائے گا؟

کرپشن کے نام پہ بننے والی حکومت میں کرپٹ کابینہ کیسے شامل ہوئی۔ نیا پاکستان بنانے والا پرانے کو مسمار کرنے پہ کیوں تلا ہے؟ ان کا حال یہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت کے منصوبہ جات کو بار بار افتتاح کا تڑکہ لگا کر عوام کو پیش کیا جا رہا ہے۔ میرے کوٹ ادو میں ریسیکیو کو تحصیل کی سطح تک لانے والے احمد یار ہنجرا نے جب تک ریسکیو کی عمارت تیار ہوتی ہے تب تک آپریشن ہسپتال سے شروع کرایا تھا۔ عمارت مکمل ہو چکی ہے انصافی ایم پی اے اسے شفٹ تک نہیں کرا سکے۔

ٹیکنیکل کالج ہے آنے والے ہنجرا اڑتیس کلو میٹر کارپٹ روڈ دینے والے ہنجرا ہر یونین میں بوائز اور گرلز سکول کا مشن پورا کرنے والے ہنجرا ہسپتال میں کارڈیالوجی وارڈ اور ڈایالسز سینٹر بنوانے والے ہنجرا ڈیڑھ سو بیڈ کا اضافہ کرانے والے ہنجرا بجلی کے منصوبے ہنجرا کے سپورٹس کمپلیکس کا منصوبہ ہنجراؤں کا ان لوگوں نے کریڈٹ لینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ہسپتال کا کریڈٹ لے تو لیا مگر تین سال سے تعمیراتی کام مکمل ہے مشینری موجود ہے یہ کام شروع نہ کرا سکے۔

اس سب کے باوجود ہم عوام ایم پی اے صاحب اور ایم این اے صاحب کی خوشامد میں ہر حد کراس کر چکے ہیں۔ کوئی بھی سوچنے کو تیار نہیں کہ ان دو سالوں میں ریکارڈ قرض لیا امداد لی ٹیکس بڑھائے مہنگائی کی حکومت تو فرشتوں کی ہے تو پھر یہ پیسے گئے کہاں معیشت ویسے ہی زبوں حال ہے اور کوئی میگا منصوبہ بھی شروع نہیں ہوا۔ پیسے کا فلو تک چکا ہے امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ نہ کوئی کاروبار ہے نہ ملازمتیں مختصر یہ کہ جتنا ہمیں قدرت نے نوازا ہے اتنا ہی یہاں پست معیار زندگی ہے۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے اور کوئی سوال پوچھنے والا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments