چور سے مافیا تک


حکمرانی کرنا بھی ایک فن ہے اور اکثریت اس فن سے بے بہرہ ہے۔ آپ موجودہ حکومت کی مثال دیں گے تو وہ ناراض ہوں گے مگر اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہو گا۔ ہر وہ بات جو وہ کرتے ہیں ان کے اپنے عمل سے متصادم ہے۔ کوئی بھی وعدہ لے لیں، کوئی بھی سبز باغ دیکھ لیں ابھی تک ویسے کا ویسے ہی ہے۔ حالاں کہ درختوں کی سونامی کا وعدہ بھی ابھی وفا ہونے سے قاصر ہے۔ ایک بات جو اس دور میں بخوبی نظر آ رہی ہے وہ ہے چور چور کی تکرار۔

سیانے کہتے ہیں کہ ہم جس بات کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں وہ آخر عوام کے دلوں میں گھر کر جاتی ہے اور وہ اس کے زیر اثر اپنے اعمال کو بدل لیتے ہیں۔ شاید اسی لئے اب بیانیہ میں تبدیلی پیدا کرنی پڑ گئی ہے کہ چور چور کہ کر اب اتنے چور ہو گئے ہیں کہ انہوں نے مافیا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ مطلب یہ کہ چور چور کردی نی آپے مافیا ہوئی۔

ایک ہندوستانی ضرب المثل ہے کہ اتنا کیچڑ اچھالو کہ کہ کچھ خود ہی دوسرے کے منہ پر چمٹ جائے گا۔ مخالف کو اتنی مر تبہ چور چور کہو کہ وہ خود بھی پریشان ہو کر سوچنے لگے کہ کیا میں واقعی چور ہوں؟ آپ پھر موج سے ہوں گے کہ مخالف کو اپنی پڑی رہے گی وہ اپنا دفاع ہی کرتا رہ جائے گا، اپنی صفائی کے چکر میں پڑا رہے گا اور آپ کی چوری یا حکومت کی طرف اس کی توجہ نہیں جائے گی۔

لیکن ہمارے پیارے وطن میں چور بھی کہے چور کا بیانیہ بھی چور چور بیانیہ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور چور اور مافیا کہنے کی پالیسی کا خود ہی تریاق بن کے رہ گیا۔ یہ پالیسی حکومت میں آنے سے پہلے تو بڑی دلکش تھی عوام اکٹھی کر لیتی تھی مگر جب حکومت میں آ جائیں تو پھر تقریروں کی مار دے کر عوام کو سلایا نہیں جا سکتا۔ کچھ نہ کچھ مثبت بھی کر کے دکھانا پڑتا ہے۔ جب اس بیانیہ سے کچھ خاص حاصل نہیں ہو پا رہا تو اب اس میں کچھ نیا پن ڈالنا ضروری ہو گیا تھا کیونکہ ہر انسان ایک ہی بات دہرانے سے اکتا جاتا ہے۔

حکومت اور ساکھ بچانے کے اس عظیم مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے سیانوں نے سر جوڑے اور اس بیانیہ میں کچھ اضافہ کر کے اسے آگے لے کے چلنے کا پختہ عزم دہرایا کیونکہ ابھی تک سیانوں کے پاس اپنی کارکردگی نام کی کوئی چڑیا نہیں ہے۔ وہ تو کرونا جیسی ان دیکھی مصیبت نے آ کے اس ہجوم بے کراں یا بے کار کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ورنہ۔ ورنہ بھی یہی حالات ہونے تھے کیونکہ ہم اس دیس کے باسی ہیں جس دیس میں بادشاہ سے مراعات نہیں مانگی جاتی بلکہ بندے اور جوتے بڑھانے کی استدعا کی جاتی ہے کہ جلدی جلدی جوتے پڑیں اور ہم اپنے کام پر پہنچیں!

اب سارا دوش مافیا کو دیا جا رہا ہے جو چور کی تکرار مسلسل کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی معاملے سے نمٹنے میں ناکامی کا ملبہ مافیا پر۔ کوئی جغرافیہ بدل دے یا کسی کی ڈگری جعلی نکل آئے تو اس کا بوجھ بھی اس نا دیدہ مافیا کے کندھوں پر ہی ڈال دیا جاتا ہے۔ کورونا سے لڑائی کا حال بھی آپ ہم سب کے سامنے ہے۔

پوری دنیا نے کوشش کی کہ کورونا کو وبا ثابت کرے اور ضروری اقدامات بر وقت اٹھائے مگر ہم نے اسے ساری دنیا کی بر عکس ایک عام نزلہ زکام قرار دے ڈالا۔ ہمارا ایمان ہے کہ موت بر حق ہے اسے اور پختہ کرنے کے لئے پہلے اسے عام نزلہ زکام کہ دیا اور کہا کہ کسی لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سکون تو موت کے بعد ہی ہے سکون کی پہلی رات قبر کی رات ہی ہو گی۔ ۔ جب 26 مریض رپورٹ ہوئے تو اشرافیہ نے لاک ڈاؤن کر دیا۔ جب 2600 ہوئے تو لاک ڈاؤن کھول دیا گیا۔

اب ایس او پی ایس او پی کا نعرہ مستانہ لگنے لگا اور پھر کرونا کو سمجھا دیا گیا کہ وہ ہفتے میں پانچ دن بندہ بن کے رہے اور دو دن بازاروں میں گھومتا پھرے اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مسجد میں سب سے زیادہ کرونا وار کرتا ہے اور باقی جگہوں پر یہ ہاتھ ہلکا رکھتا ہے۔ اسی لئے بڑے بڑے با اقتدار لوگ جوتوں سمیت مساجد کا دورہ کرتے ہیں کہ کرونا کو جوتے کی نوک پر رکھ کر باہر پھینک دیں۔ اس کورونا کے پھیلنے کی وجہ بھی مافیا ہی ہے۔

ہم ببانگ دہل اب اپنے مخالفین کو مافیا کہیں گے۔ پہلے تبدیلی آئی نہیں تھی آ گئی تھی اب مافیا آئی نہیں بلکہ مافیا آ گئی ہے۔ اسے روکنا ہی اب ہمارا نعرہ ہو گا۔ جو بھی برائی ہو گی اب وہ چور نہیں کریں گے بلکہ اسے اب مافیا کے کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ پٹرول کی قلت ہو یا قیمتوں میں اضافہ مافیا کر رہی ہے۔ آٹا نہیں مل رہا عین گندم کے موسم میں عدم دستیاب ہے، مافیا چھا گئی ہے۔ چینی مافیا تو سب سے پہلے اپنا رنگ جما چکی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ مافیا، ادویات کی قلت مافیا اور نہ جانے کون کون سی مافیا پہلے سے ہی کام دکھا چکی ہیں۔

پہلے جو کچھ ہو رہا تھا وہ گاڈ فادر کروا رہا تھا اس کے بعد چالیس چور آ گئے۔ اب چور ترقی کرتے کرتے مافیا بن گئے ہیں مگر حکومت کی ترقی اور کارکردگی دیکھنے کا ایک زمانہ منتظر ہے۔ پاکستانی قوم اس انتظار میں ہے کہ ان چوروں، گاڈفادروں اور مافیا سے چھٹکارا کب ملے گا ان چوروں کو کون پکڑے گا کیا ارطغرل آئے گا؟ یا پھر چوہدری ثاقب نثار کی خدمات دوبارہ حاصل کرنا پڑیں گی یا چوہدری نثار علی خان کو وزیر داخلہ بنانا پڑے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments