اک بنجارہ عوامی شاعر: حبیب جالب


دیوندرستیا رتھی نے منٹو پر لکھا کہ منٹو جب خدا کے دربار میں پہچا تو اس نے خدا سے کہا، تم نے مجھے کیا دیا۔ بیالیس برس، اور کچھ مہینے۔ میں نے تو سوگندھی کو صدیاں دی ہیں۔ حبیب جالب خدا کے دربار میں پہچا تو اس کے چہرے پر عجب شان برس رہی تھی۔ اس نے خدا سے کہا۔ خدا ہمارا نہیں ہے، خدا تمہارا ہے۔ وہ عالم اضطراب میں تھا اور اس نے خدا کی طرف ایک لمبی فہرست بڑھاتے ہوئے کہا، یہ تمہاری نا انصافیوں کی فہرست ہے، تم ہر خوشی آقاؤں اور منصب داروں کے حوالہ کر دیتے ہو۔ کچھ برس قبل میں نے ایک خاتون آٹو ڈرائیور کی تصویر دیکھی تھی۔ جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ حبیب جالب کی بیٹی ہے جو شان سے آٹو چلا کر حق کی کمایی کرتی ہے۔ کبھی حکومت کے آگے نہیں جھکی کہ اس کا باپ جب تک زندہ رہا، مفلسوں کی جنگ لڑتا رہا۔

ہندوستان میں جب شاہین باغ احتجاج نے زور پکڑا تو چاروں طرف حبیب جالب کی آواز گونج رہی تھی۔ ڈکٹیٹروں کے پاس طاقت اس لئے ہوتی ہے کہ عوام کو خوفزدہ کیا جا سکے۔ لیکن جب عوام خوف کا مقابلہ کرنا سیکھ جاتے ہیں تو یہی حکمران حبیب جالب اور فیض کی نظموں سے بھی ڈرنے لگتے ہیں۔ ۔ ملک کے ہر خطے، ہر چوراہے سے فیض و جالب کی نظمیں اس وقت نئے سویرے کو آواز دے رہی تھیں، اور حکومت پریشان کہ ان نعروں کی موجودگی، تیور اور گونجتی آواز ان کے ہدف کو ناکام کر رہی ہے۔ جب کبھی نا انصافی اور ظلم کا موسم عوام کو پریشان کرے گا، حبیب جالب زندہ ہو کر سامنے آتا رہے گا۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے،
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے،
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
1970 میں جنرل یحییٰ خان کی حکومت تھی۔ تو حبیب جالب نے احتجاجاً ایک نظم لکھی۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو، وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے، یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

حبیب جالب جنرل ریٹائرڈ ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے دور میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہوئے۔ 60 کی دہائی میں مارشل لاء کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کیا۔ بے نظیر کے دور حکومت میں ان کا یہ شعر کافی مشہور ہوا

وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض، پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

پاکستان کا فوجی نظام کچھ ایسا رہا کہ ادب بھی اس کا شکار ہوا۔ فوجی نظام حکومت کے خلاف شاعری بھی کی گیی۔ شاعری درد و غم کی کیفیت اور ظلم و بربریت کے خلاف، احتجاج کے نغموں سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک وہ دور بھی تھا جب زبان پر پہرے تھے۔ نعیم اروی ہجرتوں کی مسافت لکھتے ہوئے ایک خوفناک کہانی کی روداد لکھ رہا تھا اور یہ روداد الگزندر سولینستیں کے ناول گلاگ آرکی پیلاگو سے زیادہ بھیانک تھی۔ یہ جنرل ضیا الحق کا دور تھا۔

اس دور میں غم وغصہ کی جگہ استعارے اور کنائے سے کام لئے جا رہے تھے۔ فہمیدہ ریاض یا کشور ناہید کو جب حکومت کے خلاف بولنا ہوتا تھا تو اس طرح کی سطریں وجود میں آتی تھیں۔ میرے ملک میں پرندوں کو پیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ احمد فراز اس سے دو قدم آگے تاریخی حوالے سے قابیل کی سند لے کر آئے تو پاکستان نکالا پر مجبور ہوئے۔ ظاہر ہے ایسے ماحول میں شاعری کیا پروان چڑھتی اور ادب میں احتجاج کیونکر سامنے آتا۔

حبیب جالب مجھے شروع سے ہی اس لیے زیادہ پسند ہیں کہ دوسروں کی طرح انہوں نے اندر سلگ رہی چنگاریوں کو احساس کے قید خانے میں گھٹنے پر مجبور نہیں کیا۔ انہوں نے گھٹن اور جبر محسوس کیا تو ویسی ہی چیخ ان کے ہونٹوں سے بھی نکلی۔ خنجر کے تیز دھار جیسے لہو لہان کر جانے والے لفظوں نے جنم لیا او ر ان کی شاعری انقلابی شاعری کا صحیفہ بن کر ابھری اور کروڑوں دلوں میں گھر کر گیی۔ اسلامی طرز حکومت کا سہارا لے کر ظلم وبربریت کی انتہا کردینے والے فوجی نظام کو ان کے ذہن نے کبھی قبول نہیں کیا۔

وہ کبھی فوجی ظلم سے گھبرائے نہیں، جیل جانے سے نہیں ڈرے اور سچ بولتے رہے جبکہ اس دور میں سچ بولنا آسان نہیں تھا۔ وہ جتنی بار اور جس جس موقع پر جیل گئے اور جیسی جیسی زیادتیاں برداشت کیں، ان کے قلم نے حکومت وقت کے بروار کا منہ توڑ جواب دیا۔ وہ دوسروں کی طرح مصلحت پسندی اور چاپلوسی کے قائل نہیں رہے، انہیں کبھی زنداں کی اندھیری کوٹھری سے خوف محسوس نہیں ہوا۔ وہ کبھی تختہ دار سے خائف نہیں رہے، انہوں نے تو ہمیشہ منصوری شان کو پسند کیا اور حق کے نام پر کچھ بھی کہنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ اپنی نظم دستور میں وہ کھل پر اپنے زاویہ فکر کا اشارہ دیتے ہیں۔

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہدو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی بات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

اردو شعراء کی تاریخ پر نظر ڈالیے تو عوامی شاعری کا صفحہ خالی دکھائی دیتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کو چھوڑ دیجئے۔ تو وہ لہجہ، وہ شعور، وہ بانکپن، وہ ادا کسی شاعر کا مزاج نہ بن سکی جو انقلابی شاعری کا مخصوص تیور کہلاتا ہے۔

سچ پوچھئے تو اردو کے افق پر شاعری کے افق پر جگمگانے والا اکیلا ستارہ نظیر تھے۔ اور نظیر کے بعد طویل سکوت طاری رہا اور یہ کہنا مبالغہ آمیز نہ ہوگا اس سکوت کو ایک لمبے عرصے تک توڑنے کے لیے کوئی نہیں آیا۔ فیض کا شمار اردو کے بہترین نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ فیض کی شاعری اپنے سبک نرم لہجے اور انفرادی فکر وتیور کی وجہ سے خواص میں مقبولیت کی سند حاصل کرتی ہے۔ ۔ فیض کی شاعرانہ پرواز اتنی بلند ہے کہ عوام تک اپنی بات پہنچانے کا استعارہ انہیں حاصل نہ ہوسکا۔ گو فیض نے، دردر کی ٹھوکریں کھاتے، رنجم والم میں گرفتار، مصیبتوں کے شکار، رنجور وپریشان حال، مزدور طبقے اور عام انسانی پریشانیوں اور مسائل میں بھی جھانکنے کی کوشش کی، اس کے باوجود ان کے تخلیقی سرچشموں تک عوام کی رسائی نہ ہوسکی۔

عوامی شاعر وہی ہے جو عوام کے احساس و جذبات کو بخوبی سمجھتا ہو اور اسے شعری سانچے میں ڈھالنے کا ہنر جانتا ہو۔ وہ انقلاب کی باتیں کرتا ہو تو وہاں صرف لفظی باز یگری اور گھن گرج کو دخل نہ ہو، بلکہ سماجی برائیوں اور دبے کچلے لوگوں کی تڑپ کسک کو سمجھنے کی شعوری کوشش بھی شامل ہو۔ حبیب جالب کو پڑھتے ہوئے ہمیشہ سے رشک آمیز استعجاب سے واسطہ پڑا ہے۔ موضوع کا انتخاب اور متن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اشاروں کنایوں اور ضرورت پڑنے پر دو ٹوک اپنی بات کہنے میں حبیب جالب کا جواب نہیں۔ مثال کے طور پر

ایسے الفاظ نہ اوراق لغت میں ہوں گے
جن سے انسان کی توہین کا پہلو نکلے
ایسے افکار بھی زندہ نہ ہوں گے جن سے
چند لوگوں ہی کی تسکین کا پہلو نکلے
میں ضرور آؤں گا ایک عہد حسیں کی صورت
(اپنے بچوں کے نام)
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری
وطن تھا ذہن میں، زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا
مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورت حالات اب تک
(14/اگست)

حبیب جالب بخوبی جانتے تھے کہ زندان کی دیواریں کلمہ حق کی صدا لگانے والوں کے لیے شروع سے آباد رہی ہیں۔ چاہے سقراط ہوں یا منصور۔ سچ کہنے کی سزا سب کو ملتی رہی ہے۔ اور بیشک یہ سزا حبیب جالب کو ان کی زندگی میں ملتی رہی۔ لیکن ان سزاؤں سے وہ گھبرائے کب، نہ ہی ان کی چیخ میں کوئی کمی آئی۔ ہاں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ، ظلم، نا انصافی، حکومت، فوجی نظام، بربریت اور تشدد کو نشانہ بنانے لگے۔ پاکستان کا امریکہ کی چاپلوسی کرنا انہیں شروع سے ناپسند تھا۔ امریکہ کی تخریبی کارروائیوں اور پاکستان کی خوشامدانہ روش کی انہوں نے اپنی کئی نظموں میں پرزور مخالفت کی۔

بندشوں اور فوجی پہروں سے ایک خاص طر ح کی غلامی جنم لیتی ہے۔ حبیب جالب کی آزادانہ طبیعت شروع سے ہی اس غلامی کی مخالف رہی۔ ان کی نظموں کے تفصیلی مطالعہ سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ وہ تقسیم کے حق میں کبھی نہیں رہے۔ ہندستان اور پاکستان دونوں سے ایک ہی طرح سے پیار کرتے رہے یہاں ان کی غیرت کو دھکا اس وقت لگتا تھا جب وطن عزیز کو دوسرے ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا تھا۔ ، حبیب خود مختاری کے قائل تھے۔ اور جب یہ جذبہ زخمی ہوتا نظر آتا تو وہ بے ساختہ چلا اٹھتے تھے۔

پاکستان کی غیرت کے رکھوالو
بھیک نہ مانگو
اپنے بل پر چلنا کب سیکھوگے
طوفانوں میں پلنا کب سیکھو گے
انگریزوں کے پٹھو کہلاؤنا
امریکہ کے تلوے سہلاؤ نا
آزادی کے سر پہ خاک نہ ڈالو
بھیک نہ مانگو

حبیب جالب اسلام اور اسلامی عقیدوں کے مخالف کبھی نہیں رہے۔ مگر حکومت جو اسلام عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کررہی تھی، حبیب جالب اس سرکاری نظام کے مخالف رہے۔ وطن عزیز میں اسلام کے نام پر ہونے والی برائیوں، مظالم اور بربریت کا ننگا ناچ دیکھ کر ان کا دل رو اٹھتا تھا۔ عورتوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک، آزادی پر پہرہ اور اس طرح کے سینکڑوں ایسے واقعات تھے حبیب جالب جسے تبدیل ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ اسلام کے نام پر جبر و تشدد کے واقعات جب کچھ زیادہ ہی بڑھنے لگے تو حبیب جالب کا قلم خاموش نہ رہ سکا۔ وہ اس کی پر زور مخالفت پر اتر آئے۔

ان کی مشہور نظم خطرے میں اسلام نہیں، خاص مزے کی چیز ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
خطرہ ہے خوں خواروں کو
رنگ برنگی کاروں کو
امریکہ کے پیاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں

حبیب جالب دراصل عمل کرنے میں یقین کرتے تھے، اس لیے وہ اس اسلام کے قائل نہیں تھے جو حقوق کی آزادی پر پہرہ بیٹھاتا ہے۔ اسلام کا نام لے کر اپنی دکان چلانے والوں کو وہ لبنان، فلسطین اور بیروت کے کربناک مناظر دکھاتے ہیں، جہاں دھواں ہے، خوف ہے، چیخیں ہیں اور لاشیں ہی لاشیں ہیں۔ وہ تقدیر سے زیادہ تدبیر اور دعا سے زیادہ عمل پر بھروسا رکھتے تھے۔ اس لیے کہتے ہیں۔

کروڑوں کیوں نہیں مل کر فلسطیں کے لیے لڑتے
دعا ہی سے فقط کٹتی نہیں رنجیر مولانا

حبیب جالب کی باغیانہ انقلابی نظموں کا شائع ہونا تھا کہ ان کے مخالفین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا حکومت کے لیے تو ان کی ہستی شروع سے ہی ناپسندیدہ رہی تھی۔ لیکن حبیب جالب خود پر ہونے والے مظالم سے کبھی گھبرائے نہیں۔ ہاں اللہ کے درباریوں سے انہوں نے جم کر شکوہ کیا اور اس کا بدلہ اس طرح لیا۔

خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے
اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہے

میر و غالب و فراق سے الگ شاعری کا ایک تیور وہ بھی ہے جو نظیر اور حبیب جالب کے یہاں نظر آتا ہے۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا، جب شاہین باغ کے نوجوان بچے، بوڑھے، عورتیں سب مل کر زور زور سے گا رہے تھے۔

ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا۔

وہ ہر دور میں زندہ ہے۔ ایوب خان کا دور ہو، یحییٰ خان، ضیا الحق، بے نظیر، یا آج کا دور ہو، لیبیا ہو، عراق ہو، چین ہو یا ہندوستان حبیب جالب کی شاعری کو سرحدوں کی پرواہ نہیں ہے۔ یہ نا انصافی کے خلاف زمانہ میں پھیلتی ہوئی چیخ ہے جو صدیوں بعد بھی اپنا اثر قائم رکھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments