قائد اعظم سے پوچھا گیا ہردیت سنگھ ملک کا سوال


24 مارچ 1940 ء کو مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کے لئے الگ ریاستوں کے قیام کی قراداد منظور کی گئی تو اس کے تقریباً دو ہفتے بعدسکھوں نے بھی اسی اصول کے تحت پنجاب میں سکھ ریاست کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ کانگرس تو متحدہ ہندوستان کی حامی تھی، البتہ مسلم لیگ نے سکھوں کو یقین دلایا کہ پنجاب میں بسنے والے تمام لوگ بلا تفریق مذہب و نسل پنجابی ہیں، لہٰذہ متحدہ پنجاب کی پاکستان میں شمولیت کی صورت میں تمام اقلیتوں کو برابری کی سطح پر حقوق حاصل ہوں گے۔

1946 ء کے انتخابات مسلم لیگ نے ایک آزاد اسلامی مملکت کے حصول کو اپنا نصب العین بنا کر لڑے۔ ’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘ ، ’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘ ، زبان زد عام تھے اور مسلمان جوق در جوق مسلم لیگ کے قافلے میں شامل ہو رہے تھے۔ اگرچہ قائداعظم نے خود کو خالص مذہبی نعروں سے الگ رکھا، تاہم اس باب میں ان کی طرف سے لاتعلقی کے شواہد بھی نہیں ملتے۔ پیر آف مانکی شریف کو قائد اعظم کی طرف لکھے گئے ایک خط کا تذکرہ ضرور ملتا ہے کہ جہاں مبینہ طور پر قائداعظم نے بریلوی خانوادے کو اس امر کی یقین دہانی کروائی کہ وہ پاکستان کوایک ایسی اسلامی ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں کہ جہاں مسلم شریعت کی مکمل عملداری ہوگی۔ غالب امکان یہی ہے کہ کسی ’خالص مذہبی ریاست‘ کے قیام کے ارادے کے اظہار سے بڑھ کر ان کی اس یقین دہانی کا مقصد صوبہ سرحد میں جمیعت علمائے ہند کے اثر و رسوخ کو توڑنا رہاہو گا کہ جو کانگرس کی ہم نوا اور قیام پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھی۔

مارچ 1947 ء تک پنجاب کے دیگر علاقوں کی طرح راولپنڈی شہر میں بھی مذہبی قومیتوں کے درمیان باہمی تعلقات میں شدید تناؤ آ چکا تھا۔ مسلمانوں کی شہر میں اکثریت تھی، تاہم اندرون شہر متمول سکھوں کے کنٹرول میں تھا۔ لہٰذا فائرنگ اور تشدد کے چند واقعات کے باوجود شہر بڑے پیمانے پر کسی خونریزی سے محفوظ رہا۔ قیامت راولپنڈی کے نواحی علاقے کہوٹہ میں 6 سے 13 مارچ کے درمیان ٹوٹی کہ جہاں پنجاب میں پہلی بار مذہب کی بنیادوں پرکسی قوم کا قتل عام ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ صوبہ سرحد کے اپنے دورے سے واپسی پر ہندوستان کے نئے وائسرائے نے ان فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا تو انہیں ادراک ہوا کہ ہندوستان کا متحد رہنا ممکن نہیں رہا۔ اسی دوران ہزارہ سے بھی کثیر تعداد میں سکھوں کے لٹے پٹے قافلے جب مشرقی پنجاب پہنچے تو بدلے کی آگ گھر گھر سلگنے لگی۔ اسی مہینے ملتان سے ہندؤوں کے پر تشدد اخراج بعد پنجاب کی تقسیم آسمان پر صاف لکھی نظر آنے لگی۔

مئی 1947 ء میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے زیر اثر پنجاب کو متحد رکھنے کی آخری کوشش کے طور پر ایک کانفرنس کا اہتمام ہوا۔ مسلم لیگ کے وفد کی قیادت قائد اعظم کر رہے تھے، جبکہ سکھوں کی نمائندگی کے لئے گیانی کرتار سنگھ، ماسٹر تارا اور مہاراجہ پٹیالہ موجود تھے۔ کانفرنس میں قائد اعظم نے ذاتی طور پر سکھ وفد کو پاکستان میں شمولیت کی صورت ان کی ہر شرط قبول کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ نا صرف یہ کہ سکھ لیڈرز کو مصر میں کاپٹک عیسائیوں کو آزادمصر میں حاصل خود مختاری کی مثال دی گئی بلکہ مہاراجہ پٹیالہ کی قیادت میں ایک ایسی سکھ ریاست کے قیام کو قبول کرنے کا عندیہ دیا گیاکہ پاکستان کا حصہ بننے کی صورت میں جو اپنی ریاستی فوج تک رکھنے کی حقدار ہو تی۔ اس موقع پر جب پہلے ہندوستانی جنگی پائلٹ اور مہاراجہ پٹیالہ کے موجودہ وزیراعظم ہردیت سنگھ ملک نے قائداعظم سے سوال کیا ’سر، خدانخواستہ اگر آپ نہ رہے تو ہم سے کیے گئے وعدوں کا کیا ہوگا؟‘ ، توقائد اعظم نے جواب دیا، ’مائی ڈیئر، ان پاکستان، مائی ورڈ ول بی، لائک ورڈ آف گاڈ‘ ۔

3جون کو تقسیم ہند کا پلان برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ی کے بعد جاری کر دیا گیا۔ منصوبے کے مطابق بنگال اور پنجاب کے صوبوں میں آباد غیر مسلم اکثریتی علاقوں کو ہندوستان اورپاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا حق دیا گیا تو پنجاب میں سکھوں نے کانگرس کی حمایت کے ساتھ ہندوستان کا انتخاب کیا۔

قیام پاکستان سے محض تین روز قبل، قانون ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں قائد اعظم نے نو زائیدہ مملکت کے خدو خال پیش کرتے ہوئے کہا ’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں، مسجدوں اور عبادت گاہوں میں جانے کے لئے۔ آپ کسی بھی مذہب، ذات اور نسل سے تعلق رکھتے ہوں، ریاست کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں‘ ۔ یہ ایک قومی ریاست (Nation State) کا نقشہ تھاجہاں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود غیر مسلم دوسرے درجے کے شہری نہیں تھے۔

قائد اعظم اس کے بعد ایک سال اور کچھ دن زندہ رہے۔ کچھ ہی عرصے میں ان کو ضرور اندازہ ہو گیا ہوگا کہ نئے ملک میں ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی تب وہ اہمیت نہیں رہی تھی۔ کئی سازشی تھیوریوں سے قطع نظر یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اپنے آخری دنوں میں بانی پاکستان اپنے ارد گرد پائے جانے والے اکثر کرداروں سے متعلق رنجیدہ رہے۔

قائد اعظم کی وفات کے کچھ عرصہ بعد قرار اد مقاصد منظور کرتے ہوئے اس وعدے کی تجدید کی گئی کہ جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے 1946 ء کے انتخابات لڑے تھے۔ ماضی کے برعکس تمام مسالک کے علماء اب ایک صفحے پر تھے۔ اس باب میں ان کے مابین کامل اتفاق تھا کہ نوزائیدہ مملکت اللہ کی مسجد ہے۔ اللہ کی مسجد کے اندر غیر مسلموں کا کیا کام!

یہ سوال کہ قائداعظم ’مسلمانوں کی قومی ریاست‘ قائم کرنا چاہتے تھے یا کہ ایک خالص ’اسلامی ریاست‘ ، اب ایک بحث لاحاصل ہے۔ حقیقت احوال یہ ہے کہ پاکستان گزرے عشروں، بالخصوص اسی کی دہائی کے بعد، ایک ایسی ریاست کی شکل اختیار کر چکا ہے کہ جہاں غیر مسلم اقلیتوں کا مقام وہ نہیں کہ جس کا نقشہ پاکستان کے بانیوں نے کھینچا تھا۔ بد قسمتی سے افغان جنگ کے ہنگام ہمارے رویوں میں خون ریزی بھی در آئی۔ گواپنے متشدد رویوں کی ہم نے بھاری قیمت چکائی ہے، تاہم اب بھی ہم یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ پاکستان کسی مسلمان لشکر کی یلغار کے نتیجے میں قائم ہونے والی قرون وسطی کی وہ ریاست نہیں کہ جہاں فاتح سلطان کا رشتہ غیر مسلموں سے حاکم اور محکوم کا سا ہو۔

جہاں کا حاکم اپنی مفتوح غیر مسلم رعایا کوجزیہ کی ادائیگی کے بدلے الگ بستیوں تک محدود کر کے ’زندگی کی امان‘ عطا کرتا اور عادل بادشاہ کے نام سے جاتا ہو۔ یہ قومی ریاستوں کا زمانہ ہے۔ دنیا کی تمام ریاستیں، بشمول مسلمان ممالک، قومی ریاستوں کی صورت ہی قائم اور باہم منسلک ہیں۔ جزیرۃ العرب کے باب میں تواللہ اور اس کے رسول ﷺکا فیصلہ ہے، مگر دنیا کے دیگر تمام ملکوں میں آباد شہریوں کو بلا امتیاز عقیدہ و مذہب، برابری کے شہری حقوق حاصل ہیں۔

پاکستان کے سب شہریوں کا یہ آئینی حق ہے کہ وہ ریاست کے کسی بھی شہر یا قریے میں، جہاں چاہیں آبا د ہوں۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مسجدیں، مندر، گرجا گھراور عبادت خانے تعمیر کریں۔ ایک قومی ریاست کے قانون کے سامنے کوئی شہری پہلے یا دوسرے درجے کا نہیں ہوتا۔ سب قومی ریاستیں اپنے شہریوں سے متعین ٹیکس وصول کرتی ہیں کہ جس کا ٹیکس دہندہ کے عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لہٰذا ریاست کے وسائل پر بھی سب شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم کو ہم سب تحسین کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ انتہا پسند مودی سے ہم نفرت کرتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کچھ اپنے رویوں پر بھی ایک نظر دوڑا لی جائے۔ اندریں حالات کہا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم جب سکھ رہنماؤ ں کو پاکستان سے الحاق کی ترغیب دے رہے تھے تو اس موقع پرہردیت سنگھ ملک کی طرف سے پو چھا گیا سوال یکسر بے سروپا نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments