کورونا وائرس: جاپانی رقاصاؤں اور طوائفوں کے روزگار کا قاتل


کورونا وائرس ہر پیشے سے منسلک انسانوں کے روزگار کو نگل جانے والا وائرس ثابت ہو رہا ہے۔ ایسی ہی مشکلات کا سامنا جاپان کی صدیوں پرانی گیشا ثقافت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنا پیٹ پالنے والی ملکی رقاصاؤں اور طوائفوں کو بھی ہے۔

جاپان میں گیشا ثقافت کے شیدائی جہاں گھنٹوں انتہائی خوبصورت اور بند رومانوی کمروں میں گیشا خواتین کے خوبصورت لباس، ان کے رقص اور انداز تفریح سے لطف اندوز ہونے کے لیے آیا کرتے تھے، وہاں ان محافل کو سجانے والی خواتین کا روزگار اب کئی مہینوں سے بند پڑا ہے۔ جب سے جاپان میں کورونا وائرس کے باعث ایمرجنسی نافذ ہوئی ہے، تب سے گیشا خواتین کی گزر بسر دشوار ہو گئی ہے کیونکہ کورونا وائرس کے سبب بچتی اقدامات نے انہیں مالیاتی طور پر بری طرح متاثر کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ کورونا کے خلاف حفاظتی اقدامات، جن میں سوشل ڈسٹنسنگ بھی شامل ہے، گیشا پرفارمنس کو ممکن بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔

ٹوکیو کا آکا ساکا علاقہ

پچیس سے زیادہ پہاڑیوں پر واقع ٹوکیو شہر کے علاقے آکا ساکا کی تاریخ 1567 ء سے شروع ہوتی ہے۔ یہ مقام ایک خاص قسم کے پودے کے لیے مشہور تھا جس کا نام ’اکان‘ ہے اور اس نام کے پہلے حصے ’اکا‘ کا مطلب سرخ ہے۔ اس پودے کی جڑوں سے سرخ رنگ کا مائع نچوڑ کر اسے رنگائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب جاپانی عسکری کمانڈر ’شوگن‘ نے اس علاقے کو ایک گارڈ پوسٹ بنایا، تب اس علاقے کی اہمیت اور اس کی کشش میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔

انیسویں صدی میں اکا ساکا کو مزید شہرت حاصل ہوئی گیشا ’مانریو‘ کی وجہ سے، جس کا اصل نام ’شیزو تاموکائی‘ تھا۔ سات سال کی عمر میں مانریو نے اکا ساکا کے گیشا مرکز میں رقص، گلوکاری اور دیگر روایتی فنون کی تربیت حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ 1904 ء اور 1905 ء کے دوران روس اور جاپان کے مابین جنگ میں زیادہ تر مرد شریک تھے۔ اس وقت گیشا ثقافت نے ایک خاص رنگ اختیار کر لیا تھا اور خوبصورت ترین گیشا لڑکیوں اور خواتین کو مردوں کی راحت اور تسکین کا سامان میسر کرنے پر مامور کیا جانے لگا۔ گرچہ دوسری عالمی جنگ میں اکاساکا کے بیشتر حصے تباہ ہو گئے تھے، تاہم اسے بہت تیزی سے دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس جگہ تمام مہنگے ریستورانوں کو از سر نو کھولا گیا لیکن یہاں گیشا خواتین کی سرگرمیاں اس وقت کم ہو گئی تھیں۔

ٹوکیو مرکز بن گیا

1964 ء میں ٹوکیو میں پہلی بار اولمپک کھیلوں کا انعقاد ہوا۔ معروف گیشا فنکاروں نے ٹوکیو میں آکر اپنا کاروبار شروع کیا۔ ای کوکو کی عمر آج 80 برس ہے۔ وہ ماضی کی خوبصورت یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”جب میں اکا ساکا آئی تھی تب یہاں 400 کے قریب گیشا خواتین ہوتی تھیں، اتنی زیادہ کہ مجھے ان سب کے نام بھی یاد نہیں، تاہم وقت اب بدل چکا ہے۔“ ای کوکو کے مطابق اب اکا ساکا میں بمشکل بیس گیشا خواتین رہ گئی ہیں۔ موجودہ حالات میں نئی بھرتی بھی ممکن نہیں ہے۔

کورونا سے متعلق ضابطے

گیشا آرٹ کی سرگرمیوں میں 95 فیصد تک کمی ہو چکی ہے۔ ای کوکو خوبصورت، رنگین اور پھولدار نہیں بلکہ سیاہ رنگ کے کیمونو یا ’گاؤن‘ پہنے موجودہ حالات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”جب آپ دو میٹر کے فاصلے پر ہوں تو گفتگو خود بخود ہی منقطع ہو جاتی ہے۔“

”آپ نہ گاہکوں کو مشروبات پیش کر سکتے ہیں، نہ انہیں چھو سکتے ہیں، یہاں تک کہ ان سے ہاتھ بھی نہیں ملا سکتے۔“ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کا ذکر کرتے ہوئے 80 سالہ گیشا ای کوکو نے مزید کہا، ”اگر آپ نزدیک بیٹھے ہوں، تو آپ گاہکوں سے احساس کے ساتھ بات کر سکتے ہیں۔“

معدوم ہوتا ہوا پیشہ

جاپان کا سابقہ دارالحکومت کیو ٹو کبھی گیشا آرٹ کے لیے بہت مقبول تھا۔ موجودہ دارالحکومت ٹوکیو میں گیشا کے چھ اضلاع موجود ہیں۔ تاہم گیشا بحیثیت ایک پیشے کے بہت حوصلہ افزا نہیں رہا۔ اس لیے اب نئی نسل کی لڑکیاں اس پیشے کو اختیار نہیں کر رہیں۔ ٹوکیو کے علاقے اکا ساکا میں 30 سال قبل 120 گیشا خواتین ہوتی تھیں۔ اب پورے ٹوکیو میں کل 230 ہیں۔ گیشا کی تربیتی کلاسز اور ان کا روایتی لباس ’کیمونو‘ کافی مہنگے ہو چکے ہیں جبکہ اس کی پرفارمنس کی مقبولیت پر اس کی اجرت کا انحصار ہوتا ہے۔ ای کوکو کہتی ہیں، ”ہماری آمدنی صفر ہو چکی ہے۔ میرے پاس تو کچھ جمع پونجی ہے گزارے کے لیے۔ لیکن یہ صورتحال نوجوان نسل کے لیے بہت مشکل ہے۔ گیشا ایسوسی ایشن اپنی ارکان کی کرائے کی مد میں مدد کر رہی ہے۔

شوتا اسادا ایک پر تعیش ریستوراں کی مالکہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ”ہم نے اپنے سب سے بڑے کمرے میں گیشا کی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے ہر ممکنہ بندوبست کر رکھا ہے۔“ اسی طرح میشییا یوکاوا بھی ایک سابقہ گیشا ہیں۔ اب اکا ساکا میں ان کی ایک بار ہے، جہاں وہ کبھی کبھار کسی خاص موقع پر گیشا ایونٹس کا انعقاد کرتی ہیں تاکہ عام شہری بھی اس پیشے کی کشش کو سراہ سکیں۔ وہ کہتی ہیں، ”گیشا خاص قسم کی خوبصورتی کی حامل ہوتی ہیں، انہوں نے باقاعدہ تربیت حاصل کی ہوتی ہے، اس تربیت پر ان کے کافی پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ اس ثقافت کا ختم ہو جانا بڑے دکھ کی بات ہو گی۔“

کشور مصطفیٰ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

کشور مصطفیٰ

یہ مضامین ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کی سیینیئر ایڈیٹر کشور مصطفی کی تحریر ہیں اور ڈوئچے ویلے کے تعاون سے ہم مضمون شائع کر رہے ہیں۔

kishwar-mustafa has 46 posts and counting.See all posts by kishwar-mustafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments