ابھرتا ہوا چین، خطے میں بدلتا طاقت کا توازن اور نئی صف بندیاں


نیپولین بوناپارٹ نے آج سے تقریباً دوسو برس قبل یہ اندلیہ دیا تھا کہ ”چین ایک سوتا ہوا دیو ہے اور اس کو سوتا رہنے دیں، اگر یہ کبھی جاگ گیا تو دنیا کو ہلا کے رکھ دے گا“

چین اب عالمی سطح پر نا صرف معاشی بلکہ سیاسی اور عسکری قوت کے طور پر بھی ابھر رہا ہے۔ عالمی ادارے آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق چین اب دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے، دنیا کی سب سے بڑی فوج اور دوسری بڑی دفاعی بجٹ کا بھی حامل ہے۔ چین کی ترقی اور خطے میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اور اس کا اظہار امریکہ بہت پہلے ہی تجارتی جنگ کی صورت میں کر چکا ہے۔ امریکی پالیسی ساز حلقوں کے مطابق چین کی ابھرتی قوت کے باعث خطے میں طاقت کے توازن میں فرق آیا ہے اور چین ’بحرجنوبی چین‘ میں امریکی مفادات کے لئے خطرے کا باعث بن رہا ہے۔

شیکاگو یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفسر جان میرشیمر کا یہ ماننا ہے کہ طاقت ور چین امریکہ کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ چین اپنی بڑھتی ہوئی طاقت کے بدولت اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے، اس لیے چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو دبانا اور خطے میں اس کا اثر و رسوخ کم کرنا امریکہ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

بحر جنوبی چین میں چین کی اثر و رسوخ سے نمٹنے کی خاطر امریکہ جاپان اور آسٹریلیا کے بیچ پہلے سے اتحاد موجود تھا لیکن ماہرین کے مطابق اب بھارت کا بھی اس حلقے میں شمولیت کا قوی امکان ہے۔ اور انہی ممالک نے چار طرفی سیکیورٹی کے مذاکرات کی بحالی پر رضامندی کا بھی اظہار کیا ہے۔ اور ان کا اتحاد سے متعلق جواز یہ ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے آپس میں بلاک بنانا ضروری ہے۔

گزشتہ ایک ماہ سے لداخ کے گولوان وادی میں چین اور بھارت کے بیچ لڑائی کے باعث خطے میں صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت امریکہ کی حمایت میں چین کے مد مقابل آ رہا ہے اور اس پورے صورتحال کے باعث خطے میں نئی صف بندیاں واضح ہو رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں بھارت کے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ایران نے بھارت کو چاہ بہار ریلوے منصوبے سے الگ کر دیا۔ بھارت کو منصوبے سے نکال دینے کی ظاہری وجہ فنڈ میں تاخیر ہونا بتایا جا رہا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت نے یہ اقدام امریکہ کے دباؤ میں آکر کیا۔ بھارت میں خزب اختلاف نے اس اقدام پر کھڑی تنقید کی اور اس عمل کو بھارت کے لئے ایک بڑی سفارتی شکست قرار دی۔ لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ امریکہ اور ایران کے بیچ کشیدہ تعلقات اور ایران پر امریکی باپندیاں بھی بھارت کے ڈیل سے نکلنے کی وجہ بنی۔ وہ اس امر پہ مجبور تھا کہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ڈیل سے الگ ہو۔ کیونکہ ایسا نا کرنے کی صورت میں بھارت خود بھی امریکی پابندیوں کی زد میں آ سکتا تھا۔

ایران نے بھارت کی جانب سے فنڈ میں تاخیر کو عذر بنا کر ازخود منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کیا ہے۔ اور گزشتہ دنوں ایران نے چین کے ساتھ چار سو ارب ڈالر کے سیکیورٹی اور معاشی منصوبے پر بھی اتفاق کیا ہے، جو کہ بھارت اور امریکہ کے خطے میں مفادات کے سخت خلاف ہے۔

کچھ ماہرین کے مطابق چین کی کافی عرصے سے چاہ بہار منصوبے پر گہری نظر تھی، اور وہ چاہتے ہیں کہ گوادر کو چاہ بہار کے ساتھ ملا کر سی پیک کو مزید تقوییت پہنچائی جائے۔ اور اس عمل سے چین، پاکستان اور ایران کے بیچ صف بندی کا قوی امکان ہے کیونکہ ماضی کے بر عکس اب پاکستان کا بھی چین کی طرف جھکاؤ زیادہ نظر آتا ہے۔

بھارت کا چاہ بہار منصوبے سے الگ ہونے کی وجہ امریکی دباؤ کے علاہ افغانستان میں ایک بار پھر طالبان کے اثر و رسوخ میں اضافہ بھی ہے۔ کیونکہ چاہ بہار کا ایک واضح مقصد گوادر کا متبادل بنا کر گوادر کی اہمیت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کی مارکیٹ تک رسائی اور ان سے تجارت کرنا تھا۔ امکان ہے کہ طالبان ایک بار پھر طاقت کے حصول میں کامیاب ہوں اور اس صورت میں پاکستان اور ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات جبکہ بھارت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔

خطے کا سیاسی مستقبل، خطے کی خوشحالی اور امن او امان کا دار و مدار ہمیشہ کی طرح آج بھی بڑی طاقتوں کے سیاسی فیصلہ سازی پر ہے۔ بڑی طاقتوں نے سیاسی مفادات کے حصول اور خطے کی دور رس مفادات میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ لیکن اس حقیت سے بھی صرف نظر ممکن نہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ریاست کے لئے طاقت کا حصول اور اپنے قومی مفادات کی تحفط اولین ترجیح ہوتی ہے اور دنیا کے ساتھ دوستی و دشمنی کا معیار بھی ما سوائے قومی مفاد کے کچھ نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments