بزدار سرکار افواہوں کی زد میں


گزشتہ چند دنوں سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی تبدیلی کی افواہیں نہ صرف سوشل میڈیا پر بلکہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی عوام کی توجہ کا مرکز ہیں۔ حتیٰ کہ بعض حلقوں کی جانب سے متوقع وزیر اعلیٰ صاحبان کے نام بھی گردش کرتے نظر آئے۔ گزشتہ روز ان افواہوں کی تردید میں شبلی فراز کا ٹویٹ آیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے۔ اس کے باوجود تاحال تبدیلی کی چہ میگوئیاں جاری ہیں۔

یہ محض قیاس آرائیاں ہیں۔ ایسے شوشے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لئے چھوڑے جاتے ہیں۔ اس طرح کی افواہیں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے کے چند ماہ بعد ہی اس طرح کی افواہیں شروع ہو گئیں جو وقتاً فوقتاً چھوڑی جاتی رہیں۔ عثمان بزدار وزیراعظم عمران خان کی اشیر باد سے وزیراعلیٰ بنے ہیں اور انھیں وزیراعظم کی پوری پوری سپورٹ حاصل ہے۔ پہلے درجنوں بار وزیراعظم ایسی افواہوں کی نفی بھی کر چکے ہیں۔ اس بار انھوں نے خود کوئی بیان نہیں دیا بلکہ شبلی فراز کی طرف سے واشگاف الفاظ میں ایسی افواہوں کی تردید کی گئی ہے۔

اگر سیاسی پس منظر کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا جائے تو دراصل وزیراعلٰی کی تبدیلی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی حوالے سے پنجاب پاکستانی سیاست کا ایک ایسا خطہ ہے کہ اس کے بغیر وفاقی سطح پر حکومت چلانا بہت مشکل ہے۔ پاکستان کے اندر پنجاب سیاسی قلعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ پی ٹی آئی کے سرکردہ اور مضبوط ترین رہنما پنجاب سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ جب عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو اس وقت ان کے علاوہ بھی بہت سے بڑے بڑے اور سیاسی طور پر قد آور نام سامنے آئے۔

لیکن پنجاب کے لئے ایک ایسا غیر متنازع اور قدرے کمزور بندہ چاہیے تھا جو سب کے لئے سودمند ہوتا۔ کیونکہ ایک مضبوط شخصیت کو وزیراعلیٰ کی مسند پر بٹھا کر باقی قد آور شخصیات کو ناراض نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بصورت دیگر شاید یہ احتمال تھا کہ باقی لوگ پارٹی کے اندر شدید قسم کی محازآرائیاں شروع کر دیتے۔ وزیراعظم عمران خان کو ایسے بندے کی ضرورت تھی جو سب کے لئے قابل قبول ہوتا۔ لہٰذا اس صورت حال میں پنجاب کے اقتدار کا ہما عثمان بزدار کے کندھے پر آ بیٹھا۔

اس طرح ناراضگی کا جواز ہی ختم کر دیا گیا۔ پنجاب کے اندر مسلم لیگ ق، پاکستان تحریک انصاف کی ایک اہم اتحادی ہے۔ ق لیگ آج بھی یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہے کہ انھیں عثمان بزدار کے علاوہ کوئی اور شخص وزیر اعلیٰ کے طور پر قبول نہیں ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عثمان بزدار دیگر شخصیات کے مقابلے میں ایک کمزور شخص تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس طرح کی شخصیت وقت کی ضرورت تھا جو وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملاتا۔

دوسرا یہ کہ ایسے شخص کی ضرورت تھی جو تمام اسٹیک ہولڈرز کو قابل قبول ہو۔ کسی کے کام میں مداخلت نہ کرے۔ وزیر اعلیٰ تک ہر ایک کی رسائی آسان ہو وہ دوسروں کے کاموں میں بیجا مداخلت بھی نہ کرے اور سب کے کام چلتے رہیں۔ عثمان بزدار کو اپوزیشن کی جانب سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ ان پر انگلیاں ان کی اپنی پارٹی کے اندر سے ہی اٹھتی ہیں۔ بہرحال پنجاب کے اندر فی الحال وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے کوئی امکانات نہیں ہیں کیونکہ کسی بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

عثمان بزدار کو ہٹانے کی صورت میں خود پی ٹی آئی کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ پھر دوبارہ اسی طرح کی شخصیت کو ہی وزیر اعلیٰ کے طور پر لانا پڑے گا جس کے ساتھ تمام اسٹیک ہولڈر چل سکیں۔ لہٰذا ان حالات میں وزارت اعلیٰ کی تبدیلی پی ٹی آئی افورڈ نہیں کر سکتی۔ مزید یہ کہ وزیراعلیٰ کوئی عام وزیر نہیں ہوتا کہ جس سے جب چاہا وزارت کا قلمدان واپس لے لیا اور جب چاہا، جس کو چاہا کسی وزارت کا قلمدان دے دیا۔ وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کا ایک مکمل ضابطہ کار ہے جس کے تحت یہ تبدیلی ممکن ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔

ماضی میں نظر دوڑائیں تو سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنے دور اقتدار میں منظور وٹو سے وزارت اعلیٰ کا قلمدان واپس لیا کیونکہ وہ کسی دیگر شخص کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی تھیں۔ لیکن وہ ایسا نہ کر سکیں اور پھر وزارت اعلیٰ کے لئے سردار عارف نکئی کا انتخاب کیا گیا۔

یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود عثمان بزدار پنجاب کے انتظامی امور اب بھی بہتر طریقے سے نہیں چلا پا رہے جس کی وجہ سے ان کی پارٹی کے اندر سے ہی لوگ ان پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ حتی کہ ماضی قریب میں کئی وزراء مایوسی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ بیڈ گورننس آج پنجاب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس سے قبل پنجاب کے اندر میاں شہباز شریف نے ایک طویل عرصے تک حکومت کی ہے۔

بلاشبہ انتظامی معاملات میں میاں شہباز شریف نے قابل رشک کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور گویا ایک بنچ مارک مقرر کر دیا۔ پنجاب کے لوگ گورننس کے لئے میاں شہباز شریف جیسے طرز عمل کی خواہش رکھتے ہیں۔ بیورو کریسی کے ساتھ ان کا بہترین کوآرڈینیشن تھا۔ عثمان بزدار چونکہ پہلے کبھی اتنے بڑے منصب پر فائز نہیں رہے لہٰذا اس وجہ سے بھی انھیں گورننس کے شدید قسم کے مسائل کا سامنا ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ پنجاب میں ڈیلیور نہیں کر پا رہے۔

لیکن پنجاب کے اندر اگر کسی بڑی تبدیلی کی بات کی جائے تو فی الحال کوئی ایسا امکان نہیں ہے۔ عثمان بزدار بدستور وزیر اعلیٰ پنجاب رہیں گے۔ البتہ وفاق کی مضبوطی پنجاب کی مضبوطی میں پنہاں ہے۔ بیڈ گورننس پنجاب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر گورننس کا یہی حال رہا تو شاید یہ افواہیں آگے چل کر حقیقت کا روپ دھار لیں کیونکہ پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments