کلبھوشن یادیو اور ادریس خٹک میں کیا فرق ہے؟



حکومت پاکستان اور دفاعی اداروں کے مطابق 3 مارچ 2016 کو گرفتار ہونے والے کلبھوشن یادیو پڑوسی ملک کے جاسوس ہیں جنہوں نے پاکستان میں دہشتگردی اور دوسری تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اس کی ایک مبینہ ویڈیو بھی جاری کی گئی جس میں وہ راء سے اپنا تعلق اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں راء کی انوالومنٹ کی بات کرتے ہیں۔

10 اپریل 2017 کو پاکستان میں ملٹری کورٹ کی طرف سے پھانسی کی سزا سنائی گئی جس پر بین الاقوامی عدالت انصاف نے پاکستان کو اس پر عملدرآمد سے روک دیا جس کی وجہ انڈیا کی طرف سے عالمی عدالت برائے انصاف میں کلبھوشن کو کونسلر رسائی دینے کی درخواست تھی۔

اس دوران یادیو کی فیملی سے اس کی ملاقات کروائی گئی اور پھر جولائی 2019 میں بین الاقوامی عدالت برائے انصاف نے انڈیا کی یادیو کی رہائی کی اپیل خارج کر دی اور اس کو کونسلر رسائی دینے اور موت کے فیصلے پر نظر ثانی کا حکم دیا جس کو دونوں ملک اپنی فتح گردانتے رہے۔

پاکستان ایک کے بعد پڑوسی ملک کو دو بار کونسلر رسائی کی پیشکش کر چکا ہے جسے ٹھکرا دیا گیا اور کلبھوشن یادیو اپنی سزا کے خلاف اپیل کرنے پر بھی راضی نہیں جس کے لیے حکومت نے آرمی ایکٹ میں تبدیلی بھی کی ہے تا کہ پڑوسی ملک کے جاسوس اور دہشتگرد کو رہا کیا جا سکے۔

دوسری جانب ریاست پاکستان کے ایک قانون کے پابند شہری انسانی حقوق کے سینئر کارکن انڈیپنڈنٹ ریسرچر ادریس خٹک 13 نومبر 2019 سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے اور سات ماہ تک کسی ادارے نے ان کی تحویل کے متعلق کچھ ظاہر نہیں کیا آخر کار انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کے حکومت پر دباؤ کے نتیجے میں ملٹری انٹیلیجنس نے ان کے اغوا کا اعتراف کیا اور ان کی تحویل ظاہر کی اور یہ کہ ان کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل ہو رہا ہے، ادریس خٹک لاپتہ افراد کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے تھے اور ایکس فاٹا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ثبوت اکٹھے کر رہے تھے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ تھے اس کے علاوہ نیشنل پارٹی سے بھی منسلک تھے۔

ادریس خٹک کے بھائی نے پشاور ہائیکورٹ میں ان کو عدالت میں پیش کرنے کی استدعا کی جس کو مسترد کر دیا گیا ہے ادریس خٹک کی طرح ملک بھر میں ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں جن کے اہلخانہ سالوں سے ان کی دید کو ترس رہے ہیں لیکن پاکستان میں پڑوسی ملک کے دہشتگرد کو تمام پروٹوکول ملتا ہے اس کے لیے آئین میں بھی تبدیلی ہو جاتی ہے لیکن اس ملک کے شہریوں کو آئین کے تحت نہ ہی کسی وکیل کسی عدالت میں فئیر ٹرائل کا حق دیا جاتا ہے نہ ان کے اہلخانہ کو ان سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے۔

آج پاکستان کے وزیر خارجہ کا بیان پڑھ رہا تھا جس کے مطابق انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کلبھوشن کو سال میں دو بار کونسلر رسائی دی میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا بلوچستان کی آصفہ قمبرانی کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس کے بھائیوں سے نہیں ملایا جا سکتا ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹیاں اور شبیر بلوچ کی بہن بھی سیما بلوچ بھی انسان ہیں اس ملک کی شہری ہیں ان کی سڑکوں پر احتجاج کرتے وقت چیخنے اور اپنے پیاروں کی رہائی کے مطالبہ پر آپ کے سارے انسانی جذبے اور ہمدردیاں کیوں غائب ہو جاتی ہیں۔

سندھ کی سسی لوہار کا والد ایک ٹیچر تھا اور شازیہ چانڈیو کا بھائی بھی کسی دہشتگرد حملے میں ملوث نہیں تھا اور ان کی رہائی کے لیے تو آئین میں کسی تبدیلی کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ آخر کیوں یہ ریاست اپنے شہریوں سے بیگانگی برت رہی ہے اور پڑوسی ملک کے جاسوس پر بہت مہربان ہے یا پھر اس ملک کے شہری کسی انسانی ہمدردی، سلوک کے مستحق نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments