سلام فیصل آباد


کالے کالے بادل آسمان پر چھائے ہوئے تھے، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، موسم بہت خوش گوار تھا۔ چھٹی تھی اور میرا دل مچلا کہ لاہور گھوما جائے۔ ریاض بھائی نے کہا گاڑی کی بجائے بائیک پر چلتے ہیں۔ میں نے ان کے کان میں دو جگہیں بتائیں جہاں مجھے جانا تھا، پہلی پر وہ مسکرائے اور دوسری پر بس رو ہی دینے والے تھے کہ میں انہیں ان کی بائیک سمیت گھر سے نکال لایا۔

اپنی اپنی بائیک پر ہم آگے پیچھے وہاں پہنچے جہاں دنیا اللہ کے پیارے کو سلام کرنے آتی ہے۔ داتا صاحب کو فاتحہ کا نذرانہ پیش کیا۔ اگلی منزل کی طرف جانے سے پہلے ریاض بھائی نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں ”سچ مچ وہاں جانا ہے؟“

تو جناب الحمدللہ ہم روزے کی حالت میں پھر اسی طرح آگے پیچھے ”اس بازار“ کی ”ان گلیوں“ کی طرف چلے جن کے بارے میں منٹو کے افسانوں میں پڑھا اور ایک دو افسانے میں نے وہاں کے مکینوں کے بارے میں لکھے۔ ”نازنیں“ میرا ایک ایسا ہی افسانہ ہے، جو اس بازار کے ایک کردار کے بارے میں چھپا تھا اور بہت پسند ہوا۔ سچ ہے مجھے وہ محلہ، وہ گلیاں، در و دیوار دیکھنے کا شوق تھا۔ ریاض بھائی شریف آدمی سر جھکائے اپنیبائیک پر بغیر ادھر ادھر دیکھے میرے آگے، میں ادھر ادھر نظریں دوڑاتا ان کے پیچھے اپنی بائیک پر۔ وہ آگے اس لئے کہ اپنی شرافت کے باوجود لاہور کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ میں ان جیسا شریف بھی نہیں اور لاہور سے زیادہ واقف بھی نہیں۔

عین ”اس بازار“ کے درمیان ایک خوش شکل نوجوان نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔ بال اس کے لمبے، پینٹ شرٹ پہنی ہوئی اور منھ میں پان چبا رہا تھا۔ مجھے برا لگا اس کا یوں ماہ رمضان میں دن دیہاڑے پان کھانا مگر میں چپ رہا۔

” کدھر جانا ہے؟“ اس نے انتہائی بے تکلفی سے پوچھا۔

” پتا نہیں!“ میں نے گڑبڑا کے کہا۔ اس کے سوال سے اچانک ہی میرے ذہن میں افسانوں کے سارے کردار ابھرنے لگے تھے۔ پتا نہیں وہ مجھے کہاں لے جانا چاہتاتھا یاکم از کم میرا مدعا جاننے کی کوشش میں تھا۔

” کیا مطلب پتا کیوں نہیں؟“ اس نے حیرانی سے پوچھا اور بغیر میرا جواب سنے پیچھے بائیک پر بیٹھ گیا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ لفٹ لینا چاہتا ہے۔

” جنہیں پتا ہے وہ تو آگے نکل گئے، مجھے کچھ سمجھ نہیں یہاں کی۔ میں لاہور گھومنے آیا ہوں“ میں نے بائیک چلاتے ہوئے کہا، ریاض بھائی کہیں آگے نکل چکے تھے۔

” ارے واہ! لاہور گھومنے آئے ہو، کہاں سے آئے ہو، کراچی یا اسلام آباد سے؟“ اس نے انتہائی بے تکلفی سے پوچھا۔

” نہیں! فیصل آباد سے۔ ۔ !“

یقین مانیں میری بات مکمل ہونے تک وہ اپنے کانوں کو چھو چکا تھا، میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگا چکا تھا اور عقیدت کے آکری درجے پر پہنچنے والا تھا۔

” آہاہ! فیصل آبادوں! ساڈے مرشد دے شہروں۔ تہانوں پتا اے کڈا کڈا فنکار پیدا کیتا اوس شہر نیں؟“ اس کی آواز میں عجیب مٹھاس تھی۔ میں نے چپ رہنا ہی مناسب سمجھا کہ یوں تو میری بیوی بھی مجھے ”فن کار“ ہی سمجھتی ہے۔

” دنیا وچ نام کمایا جنہاں نے، خان صاحب نوں تے جاندے او ناں؟ نصرت فتح علی خان صاحب؟“
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

” اسی تے سلام کرن جاندے ہونے آں اوس شہر نوں۔ تے ایہہ جیڑی گلی تسی لنگھ کے آئے او ناں ایس گلی نے وی بڑے بڑے فنکار دتے ایس ملک نوں۔ ایتھے ضرور پھرو، پھیرا لاؤ اینہاں گلیاں دا۔“

ہم اس گلی سے باہر بڑی سڑک پر پہنچ چکے تھے، آگے مجھے نہیں پتا کدھر جانا تھا۔ ریاض بھائی وہاں رک کے میرا انتظار کر رہے تھے۔ ہاتھ کے اشارے سے انھوں نے مجھے سمجھایا ادھر مڑنا ہے، اس نوجوان نے جو ماہ رمضان میں پان کھا رہا تھا دوسری سمت جانا تھا۔ وہ بائیک سے اترا، میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے بڑی محبت سے کہا ”واپس جا کے ساڈا وی سلام کہنا، فیصل آباد نوں“

پھر ذرا ہلکی آواز میں بولا۔ ”تہاڈے نال بائیک تے وی اج اک آرٹسٹ بیٹھا ہویا سی۔ میں“ ڈرمر ”آں۔ گلوکاراں نال میوزک والا ڈرم وجانا واں۔ حمیرا ارشد نال وی کم کیتا اے تے فیصل آباد والے سارے سنگراں نال وی اپنا پیار اے۔ خوش ہو کے جاؤ اج اک آرٹسٹ نال تہاڈی ملاقات ہو ئی۔“

وہ ماہ رمضان میں کسی گانے کی دھن سیٹی پر بجاتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں نے مڑ کر ایک بار پھر اس گلی کو دیکھا جہاں بڑے بڑے فنکار پیدا ہوئے اور بقول اس ”آرٹسٹ“ کے کچھ فن کار فیصل آباد کے فن کاروں کو سلام کرنے جاتے تھے۔

سید علی محسن، فیصل آباد
Latest posts by سید علی محسن، فیصل آباد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments