پی ٹی آئی میں شامل عادی پیرا شوٹرز کے مائنس کا وقت


ایک طالب علم پیپر دینے کے لیے امتحان گاہ جا رہا تھا کہ راستے میں ایک جاہل لڑکے سے کسی بات پر ان بن ہو گئی اور بات اس حد تک آگے بڑھی کہ لڑائی تک جا پہنچی۔ ارد گرد کے لوگ بیچ میں آئے اور صلح صفائی ہو گئی مگر جھگڑے کو ختم کرنے میں کچھ وقت لگ گیا تھا جس کی وجہ سے طالب علم پیپر سے لیٹ ہو گیا اور یوں اس کا ایک قیمتی سال ضائع ہو گیا۔ خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ کا قول ہے ”دانش مند وہ نہیں ہے جو شر کے مقابلے میں خیر کو جان لے، بلکہ دانش مند وہ ہے جو یہ جان لے کہ دو شر میں سے بہتر کون ہے“ ۔

اجتماعی زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک فرد یا گروہ کے دوسرے فرد یا گروہ سے اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ بنتا ہے کہ معاملہ کیسے طے پا جائے؟ یاد رکھیں ایسے حالات میں صحیح اور غلط کے چکر سے پرہیز کیا جانا چاہیے اور عملی حالات کے اعتبار سے دیکھنا چاہیے کہ ممکن کیا ہے اور ناممکن کیا ہے تاکہ اختلافات کا فوری خاتمہ ہو سکے۔ اس بات میں بھی ذرا شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے اقتدار سے پہلے ملک بے شمار مسائل میں گھرا ہوا تھا۔

سیاسی عدم استحکام، انارکی، کرپشن، نا انصافی کے ساتھ ساتھ معیشت تباہ، خارجی محاذ پر ناکامیاں ایک چیلنج سے کم نہ تھیں۔ کپتان عمدہ کھیلا، دنیا کو اپنا ہم نوا بنایا اور گرتی معیشت کو سہارا دیا، امن و امان کو بہتر کیا مگر نہ کر سکا تو اپنے نظریے پر سودے بازی نہ کر سکا۔ ہمارے وزیر اعظم سچے جذبوں اور نیک نیتی کے ساتھ پاکستان کے آلودہ اور بوسیدہ نظام حکومت کو بدلنے کے ارادے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ یاد رہے۔

جوش اور اخلاص کے ساتھ ساتھ ہوش اور حکمت کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے مگر عمران خان نے اس پر توجہ نہیں دی اور کرپٹ سیاسی مداریوں اور شوبازوں کے ساتھ مفاہمت نہ کر سکا۔ اگرچہ آج کل مائنس ون کا شور اٹھا ہوا ہے مگر وہ اپنے اصولوں کے ساتھ الگ کھڑا اقتدار کے محلوں کی سازشوں کو دلچسپی سے دیکھ رہا ہے۔ اس مائنس ون والی ساری میڈیا کمپین کی اصل وجہ یہ ہے کہ ملکی سیاسی بدمعاشیہ، میڈیا پنڈت اور بے لگام بیوروکریسی اپنے ذاتی مفادات کو خیر آباد کہنے کو تیار نہیں اور نہ وہ احتساب کے دائرے میں آنے کو تیار ہیں۔

ویسے تو عوام کو دکھانے کے لیے بظاہر ان تمام مافیاز کے ایک دوسرے کے ساتھ شدید اختلافات ہیں مگر جب ذاتی مفادات پر ضرب لگتی ہے تو سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک ہی بین پر ناچنے لگتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ عمران خان جس قوم کا رہنماء ہے وہ ایسے افراد کا گروہ ہے جو ابھی تک اپنے پیٹ کے چکر سے ہی نہیں نکل پا رہا۔ تعلیم کی کمی اور ذہنی شعور کی پستی اور صدیوں کی ذہنی غلامی کی وجہ سے جو سنتے ہیں اس پر یقین کر لیتے ہیں۔

ان ہی وجوہات کی بنا پر معصوم اور سادہ عوام اپنی سیاسی بدمعاشیہ، میڈیا پنڈتوں اور طاقتور بیوروکریسی کی خطرناک شطرنج کی چالیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ عوام ان سازشی عناصر اور ذاتی مفادات کے پجاریوں کو پہچان لیں ورنہ پھر نہ کہنا کہ ”ہمارے نصیب میں تو اندھیری رات کے بعد بھی اندھیری رات لکھی ہے“ ۔ آؤ! عہد کریں کہ اپنے وزیر اعظم کا ساتھ دیں گے، اسے مضبوط کریں گے اور یوں اپنے اتحاد سے میڈیا کی چند گندی بھیڑوں اور سیاسی نجومیوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔

انگریز مفکر ولیم رالف انگ کا قول ہے۔

“THE WISE MAN IS WHO KNOWS THE RELATIVE VALUE OF THE THINGS” .

اس قول کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایک شخص کو ٹرین پکڑنا تھی چنانچہ وہ ریلوے سٹیشن بر وقت پہنچنے کے لیے ٹیکسی بک کرواتا ہے۔ مگر وہ آدمی ریلوے سٹیشن پہنچ کر ٹیکسی ڈرائیور سے کرایہ پر الجھ جاتا ہے اور بات بڑھتے بڑھتے گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے۔ بڑی مشکل سے لوگ بیچ بچا کرواتے ہیں تو وہ شخص بھاگ کر ٹرین پکڑنے کی کوشش کرتا ہے مگر تب تک ٹرین وسل بجا کر سٹیشن کو چھوڑ چکی ہوتی ہے۔

ہمیں یاد رکھنا ہے کہ عمران خان بھی ایک انسان ہے۔ اس نے سیاست کے میدان میں غلطیاں بھی کی ہیں اور خصوصاً اپنی ٹیم چننے میں کوتاہی دکھائی ہے۔ ایسے افراد جو اپنی ساری سیاسی زندگی میں صرف ذاتی مفادات کے لیے ہمیشہ اپنے نظریات بدلتے رہے، وہ اب بھلا کیوں پی ٹی آئی کے نظریات کو قبول کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو پی ٹی آئی کے ارکان اپنے قائد سے پوچھتے رہے ہیں۔ مختلف حکومتوں کے مصاحب کو اپنی ٹیم کا حصہ بننا ایک عقلمندانہ فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

کپتان کو اب اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا اور نظریاتی کارکنوں کو سامنے لانا ہو گا تاکہ پارٹی مضبوط ہو۔ وگرنہ اقتدار کا کھیل بہت خطرناک اور ظالم ہے، نہ یہ کسی کا اخلاص دیکھتا ہے نہ جدوجہد۔ جو موقع کے تقاضے سمجھ گیا وہ ٹرین میں سوار ہو گیا۔ بس جو رہ گیا وہ رہ گیا۔

ایک نوجوان نے شہر میں دکان کھولی مگر چند دن بعد ہی اس کی دکان میں چوری ہو گئی۔ بازار میں ایک جاننے والے بزرگ نے افسوس کا اظہار کیا اور تفصیل پوچھی تو وہ نوجوان بولا کہ اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے دکان کو عام سا تالا لگا دیا تھا جو کہ آسانی سے کھل سکتا تھا۔ چنانچہ چور آیا، تالا کھول کر اطمینان سے چوری کی اور پھر بھاگ گیا۔

ساری بات سن کر بزرگ نے کہا کہ ہمیں زندگی میں خود تجربہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کا تجربہ ہی کافی ہوتا ہے جو بتاتا ہے کہ دکان کو مضبوط تالا لگایا جاتا ہے جبکہ ہلکا تالا لگانا دراصل چور کو چوری کی دعوت دینے کے مترادف سمجھا جائے گا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری دنیا اسباق و نصیحتوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر کسی سے کوئی نہ کوئی مفید سبق حاصل کیا جا سکتا ہے، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ کھلی آنکھ سے چیزوں کو دیکھا جائے اور کھلے ذہن سے غور کیا جائے۔ عمران خان کو بھی اب کھلی آنکھوں اور کھلے ذہن سے اپنی ٹیم کا جائزہ لینا ہوگا۔ اب مائنس ون نہیں بلکہ پی ٹی آئی میں شامل بہت سے عادی پیرا شوٹرز کے مائنس کا وقت آ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments