صحافتی تجزیات میں نظریہ ضرورت کی رونمائی


ایک آئینی جمہوری پارلیمان رکھنے والی ریاست میں ہی صحافت یا ذرائع ابلاغ کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاسکتا ہے بصورت دیگر صحافت محض ایک تجارتی سرگرمی ہے جس کا انحصار حکومت کی آشیر باد کے ذریعے اپنے مفادات کا حصول ہوگا یا پھرحکومت پر تنقید یا سخت مخالفت کے ذریعے مزید مفادات کی راہ ہموار کرنا۔ جب ادارے کے اغراض ومقاصد محض نفع خوری ہو جائیں تو پھر اس میں کام کرنے والے صحافی چاھے وہ تو کتنے ہی سینئر، لائق احترام کیوں نہ ہوں مالکان کی روش پر ہی چلتے دکھائی دیں گے ان کی اتباع میں جونیئر بھی اسی راستے پر گامزن ہوں گے یہ تمہید کسی ادارے، صحافی یا تجزیہ کار پر حرف گیری کی غرض کے بالکل برعکس محض اس اصول کے احیاء کی تاکید وتائید کے لیے باندھی ہے کہ اگر ادارہ صحافی یا صحافت خود کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھے تو اسے چوتھے ستون جیسا اندھا کردار بھی اپنانا ہوگا یہ درجہ ہر ملک میں حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا دار ومدار ریاست کے آئین پر نیز اس آئین پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کرانے کے لئے تگ ودو میں پوشیدہ ہے۔

ایک مدت سے کہ جب سے طاقت نے ریاست کے سیاسی فیصلوں کے منصب پر نقب لگائی ہے انسانی حقوق آزادی پسند جمہوری سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ اہل قلم، طلبہ، وکلا، صحافتی تنظیموں، اور صحافیوں نے آئین و جمہوریت اور پارلیمان کی بالا دستی کے لئے قابل فخر جدوجہد کی ہے اس رہ شوق میں سیاسی رہنماؤں کے ساتھ صحافیوں نے کئی صعوبتیں اٹھائی ہیں کون کون پس زندان میں گئے اور کوڑے کھائے دار کی خشک ٹہنیوں پر وارے گئے اگر ایسے جانثاروں کے ناموں کی فہرست مرتب کرنے لگوں تو طوالت کی وجہ سے اصل موضوع گفتگو سے ہٹ جاؤں گا سو اس اعتراف کے علی الرغم حالیہ چند سالوں میں دو طرح کی رسم چلی ہے کچھ تو وہ ہیں کہ جو عافیت کی دیوار کے سائے میں چلے گئے اور حکومت کے نقطہ نظر کے ترجمان بن گئے یا پھر کچھ طاقت کے مرکز کی اطاعت گزاری میں ایسے مگن ہوگئے کہ پھر پلٹ کر نہ دیکھ پائے۔

دوسری قسم ان احباب محترم کی ہے جو بہر حال فکری طور پر جمہوریت آئین اور پارلیمان کی سربلندی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں مگر چمن میں چلتی ہوا کے اثر میں لاشعوری طور پر متاثر بھی ہیں کہ طاقت کے مرکز کے سیاسی فیصلوں کی خبروں کا انکشاف کرتے ہوئے بھی بے دھیانی میں ہی سہی سیاستدانوں پر تبرا بھیج دیتے ہیں گویا کہ ان کے طرز فغاں سے آہ نکل گئی اور واہ در آئی ہے۔۔۔ مثال کے طور پر انتہائی محترم جناب سہیل وڑائچ صاحب نے اسی ہفتہ رواں میں پرندوں اور جانوروں کو علامتی اظہار کا پیرائیہ بخشا اور ہما کے کردار کا ایسا سماں باندھا کہ قارئین محو حیرت ہو گئے کہ دیکھتے ہیں کہ پنجاب میں ہما کس کے سر پر بیٹھتا ہے؟ اس مضمون میں ایک سطر بھی مگر ایسی نہیں جو ہما کے اس سیاسی و بادشاہ گری کے کردار کو گئے زمانوں کی روایت قرار دیتے ہوئے ہما کو یاد دلاتی کہ اہل پاکستان نے ملک کے دو نیم ہو جانے کے بھیانک حادثے کے بعد ملکی سیاسی بندوبست کو مستحکم اور عوامی و قومی اطمینان و امنگوں کے مطابق چلانے کے لیے 1973ء میں اتفاق رائے سے (کم وبیش) جو دستور پاکستان وضع اور نافذ کیا تھا اس میں ” ہما ” کو جنگلوں میں باد خوری و مستانہ وار اڑنے تک محدود کر دیا گیا ھے کہ اس دستور کے بعد ملک پر کس نے حکومت کرنی ہے؟ اور کس نے اقتدار کے ایوان سے نکل کر گھر جاناہے؟ اس کا حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار و حق پاکستان کے عوام (انسانوں) نے اپنے لئے مختص کرتے ہوئے بھی ہما کی دلکشی برقرار رکھی تھی! مگر ماضی کے روایتی قصے کہانیوں میں اس کے بادشاہ گری کے کردار کو دستور مملکت و ریاست سے خارج کر دیا تھا۔

اسی تسلسل میں برادرم اعتزاز سید نے خبر دی ہے کہ نومبر2019ء میں ”ایک فارمولا طے پا گیا تھا کہ مرکز میں عمران کو گھر بھیج کر مسلم لیگ(ن) کو ایک بار پھر موقع دے دیا جائے شرط مگر یہ کہ مرکز میں شریف خاندان کے کسی فرد کی بجائے شاہد خاقان عباسی یا ایاز صادق کو وزیراعظم بنایا جائے… پنجاب کی کمان عثمان بزدار سے لے کر چوہدری پرویز الٰہی کے حوالے کرنا تھی. مذکورہ منظر کشی کرنے والوں کا خیال تھا کہ مرکز میں مسلم لیگ(ن) کے ہاں میں ہاں ملانے والے چہرے اور پنجاب میں تجربہ کار وزیراعلیٰ کی موجودگی سے منجمدشدہ کاروبار مملکت بحال ہو جائے گا، معیشت کی ڈوبتی کشتی ایک بار پھر کامیابی سے سفر کرنے لگے گی۔ یہ سب طے تھا مگر ایک کردار کی نکی جئی ہاں لازمی تھی اور وہ تھا برطانیہ میں بیٹھا نواز شریف جس نے یہ کہہ کر سارے منصوبے کا ستیا ناس کر دیا کہ ”اس سسٹم کو مصنوعی ذریعوں سے گرانے کی بجائے خود گرنے دیں“

اس انکشاف کے بعد برادرم اعزاز سید کا خیال ہے کہ اس شرط نامہ کو شائد اس لئے رد کیا گیا کہ اس طرح اقتدار شریف خاندان کے ہاتھ سے نکل جاتا“

اس بات کا امکان ہے کہ سیاسی زعماء و رہنما اپنے اقتدار کیلئے ہمیشہ حساس ہوتے ہیں لیکن جس منظر نامے کی تصویر کشی کی گئی ہے وہ سوال اٹھاتا ہے کہ ایک نکی جئی ہاں نہ کرنے والے شخص کی ناں میں اتنی طاقت کیسے اور کہاں سے آئی کہ پھر مصوروں کو اپنے خاکے میں عملی رنگ بھرنے کیلئے ہاں میں ہاں ملانے والے وافر و مطلوب تعداد میں میسر نہ آ سکے؟ سادہ سا جواب ہے کہ جس نکی جئی ہاں نے طے شدہ فارمولے میں کھنڈت ڈالی تھی سیاسی اور عوام طاقت اسی کے ساتھ تھی وگرنہ جونیجو اور ظفر اللہ جمالی صاحبان کو دیکھتے دیکھتے اقتدار سنگھاس سے باہر دھکیلا جا چکا ہے۔ برادرم اعزاز سید کی باقی کہانی داستان سرائی کے زمرے میں آتی ہے صداقت یا غیر حقیقی ہونے کا سوال غیر متعلق ہے۔

میرا بنیادی نقطہ نظر یہ ہے کہ اس انکشاف نما مضمون میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جس بندوبست حکمرانی پر اتفاق ہوا تھا اس کے شرکاء کون تھے؟ اور یہ کہ وہ جو فیصلے کرنے جا رہے تھے کیا انہیں دستور پاکستان اس نوعیت کے فیصلوں کا مجاز بناتا ہے؟

یہ سوال اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ دنیا جانتی ہے کہ نومبر 2019ء میں از سر نو انتخابات کی سن گن کسی بھی طرف سے سنائی نہیں دے رہی تھی تو پھر یہ طے ہوا کہ موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے ہی نیا بندوبست کیا جا رہا تھا! البتہ انکشاف نما اس مضمون کا یہ پہلو قابل توجہ ہے کہ ڈوبتی ملکی معیشت کی کشتی کو دوبارہ رواں کرنے کیلئے نظر انتخاب مسلم لیگ نون ہی ٹھہری تھی کیا یہ پوچھنا مناسب نہ ہوگا کہ 5.8 فیصد سالانہ کی شرح نمو سے ترقی کرتی ملکی معیشت کو ڈبونے والے اپنی غلطی اور مداخلت سے سبق حاصل کرنے پر آمادہ ہیں یا اب بھی وہ طاقت کی غیر آئینی انانیت کے سہارے اپنی سوچ کو ہی ملکی مفاد سمجھنے پر بضد رہنا چاہ رہے ہیں؟ آخر کس مقصد کی خاطر ملکی معیشت و سیاست کو غیر مستحکم کیا گیا تھا؟ کیا اسکے ذمہ داران سے جواب دہی عوام کا حق نہیں؟

اگلا سوال سینیٹ کے نصف ارکان کے انتخاب کے تناظر میں اہمیت رکھتا ہے جو مارچ 2021ء کے پہلے عشرے میں ہونے ہیں اور موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے مذکورہ انتخابات پر اصرار کا واضح مطلب پی ٹی آئی کو سینیٹ میں اہمیت دلانے کے عزم کا اعادہ ہے تاکہ پارلیمان کے ایوان بالا اور زیریں میں فیصلہ سازی معلق رہے کیونکہ اور یہ بات بین السطور میں موجود ہے کہ نئے انتخابات کے حوالے سے متذکرہ صدر فارمولا تشکیل دینے والے آگاہ تھے کہ پی ٹی آئی آئندہ انتخابات میں اپنی موجودہ پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکے گی اگر فارمولا طے کرنے والوں میں طاقت کے مرکز والے بھی شریک تھے تو یہ تاثر امید افزاء اور قابل توصیف ہے کہ اس اعتبار سے اگلے انتخابات کے منصفانہ انعقاد کا پہلو روشن ہوا ہے۔ مگر کیا ان انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو اقتدار کے ساتھ اختیار بھی منتقل کیا جائے گا؟ اس کا جواب نفی میں ہوسکتا ہے کیونکہ سینیٹ کے آئیندہ انتخابات موجودہ صوبائی اسمبلیوں نے کئے تو پھر بھی اقتدار و اختیار کی تقسیم یا دوئی موجود رہے گی اور یہ پہلو گو کہ آئینی حوالوں سے درست ہے لیکن جب 2018ء کے انتخابات ہی ناقص تھے تو پھر اس کے منفی اثرات (موجودہ اسمبلیوں) کو برقرار رکھنا یا تسلسل دینا آئینی و ججمہوری اخلاقیات کے منافی ہے جس پر تشویش کا اظہار جائز ہو گا۔

یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ جناب عمران کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کرنے والوں نے اس کیلئے کونسا طریقہ کار اپنانے پر اتفاق کیا ہو گا؟ تحریک عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ کار ہے اگر اس کا حشر چیئرمین سینیٹ کے خلاف ایسی ہی تحریک جیسا نہ ہونے پایے۔ دوسری صورت پی ٹی آئی میں تقسیم اور آخری طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ صاحبان اختیار خود عمران کو مستعفی ہونے کا حکم صادر کر دیں؟ شاید اسی امکان کی عملی صورت گری کو ہی مائنس ون کہا جا رہا ہے اور ان دنوں اس کی گونج ہر طرف سے سنائی دے رہی ہے مجھے عمران حکومت سے فی الفور نجات سے اتفاق ہے لیکن میں اس کیلئے بھی آئینی ذرائع بروئے کار لانے کا متمنی ہوں اور یہ بھی کہ سارے عمل میں سیاسی قوتیں آزادانہ طور پر متحرک ہوں کسی بھی طرح سے غیر سیاسی طاقت یا آئین کے اوراق سے خارج شدہ ہما کے عمل دخل کے بغیر۔

ذرائع ابلاغ و سیاسی مباحث کے ہر تجزیہ میں اس پہلو پر زور دینا اشد ضروری ہے کہ سیاسی میدان سیاست دانوں کیلئے ہے جو آئین پاکستان کی منشاء اور حکم ہے لازمی طور پر آئین کی اطاعت پاکستان کے تمام ریاستی محکموں تنظیموں اور افراد پر واجب ہے ہمارے تجزیات سے اگر یہ تصور مطالبہ اور منشا عنقا ہوگا تو ہمارے لاشعور میں آئین سے ماوراء اقدامات کی مخالفت بہ امر مجبورہی سہی تسلیم و رضا بن جاتی ہے یہی نظریہ ضروریت ہے جسے اب دفن کر دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ۔ صحافت عدالت اور سیاست اور معاشرت کے ہر شعبے سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments