غیر جمہوری جمہوریت


آپ عنوان پڑھ کر حیران ہوں گے کہ کس قسم کا انسان ہے یہ! بھلا جمہوریت کیسے غیر جمہوری ہو سکتی ہے۔ مگر ہماری مملکت خداداد میں جو نظام جسے جمہوریت کہا جاتا ہے دراصل یہ نظام غیر جمہوری قوتوں نے نافذ کیا ہے۔ یہ ایک سویلین کو وزارت عظمی کے منصب پر بٹھا دیتے ہیں مگر اہم فیصلہ سازی غیر جمہوری قوتیں ہی کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ کو وزارت عظمی کے منصب پر بٹھاتے ہیں۔ مگر جب کچھ مدت بعد اس شخص کو جو قومی اسمبلی کا ممبر ہوتا ہے وہ ایک برائے نام انتخابی عمل سے اس حلقے کا نمائندہ منتخب ہو کر وزیر اعظم بنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ مجھے عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے اس ملک کی سب سے اہم عہدیدار بنایا ہے تو مجھے اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہیے۔ بس جب آپ اس ڈگر پر چلنا شروع کرتے ہیں تو سال کے اندر اندر آپ کو اس عہدے سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ پھر ہر پانچ سال بعد ایک نیا بندہ جو ان شرائط پر عمل کرنے کی یقین دہانی کروائے اسے عہدیدار بنا دیا جاتا ہے۔

عام انتخابات کو دو سال پورے ہونے والے ہیں۔ اس دن چناؤ کے نام پر جس طرح پی ٹی آئی کے امیدواروں کو چنا گیا اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع ایک عمارت کا ممبر منتخب کروایا گیا۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ مگر یہ کوئی پہلی دفعہ تھوڑی ہوا۔ ہر انتخابات کے نام پر ایک ڈرامہ ہوتا ہے۔ سب کچھ انتخابی دن سے پہلے پہلے طے ہو جاتا ہے۔ جس پارٹی کو غیر جمہوری قوتیں قبول کر لیں وہ پارٹی برسر اقتدار آ جاتی ہے۔

غیر جمہوری قوتوں نے شروع سے اتنی جلدی اس ملک کا نظام سنبھلا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ شروع میں سیاسی عدم استحکام۔ اس وقت کے آرمی چیف کو وزیر دفاع بنانا اور جب گورنر جنرل صاحب چاہیں وہ قانون ساز اسمبلی کو برخاست کر دیں یا وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑے۔ جسٹس منیر نے پہلے مارشل لاء کو نظریہ ضرورت کی چھتری فراہم کی۔ اس کے بعد تمام پارٹیوں نے اور ان کے لیڈران نے اس بات کو من و عن تسلیم کیا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام سب ایک کتابی بات ہے۔ اصل طاقت کا مرکز غیر جمہوری قوتیں ہیں۔ بس اس کے بعد سے غیر جمہوری قوتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کر رہی ہیں۔ کچھ معاملات میں آپ اپنی مرضی نہیں کر سکتے۔ پھر آئین میں ایسی شقیں موجود ہیں جن کو استعمال کر کے وزیر اعظم کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔

دو سال سے اس ملک میں مخلوط نظام نافذ العمل ہے۔ نا بولنے کی آزادی ہے نا لکھنے کی۔ میڈیا پر قدغنوں ہیں۔ آپ حکومت سے سوال نہیں کر سکتے اور اگر آپ نے سوشل میڈیا پر حکومت مخالف کوئی پوسٹ کردی تو عین ممکن ہے کہ آپ کو سائبر کرائم قانون کے نام پر دھر لیا جائے اور پھر مقدمہ پر آپ کو جیل بھیج دیا جائے گا۔ مگر اب آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ کچھ لوگ بھول گئے ہیں کہ آپ کسی کو ایک حد تک دبا سکتے ہیں۔ حد سے زیادہ دبانے کا بھی ری ایکشن آئے گا۔

اب بات کرنی چاہیے ہمیں اپوزیشن کی۔ یہ اپوزیشن بھی لانا مجبوری تھی تا کہ اس طرح کا انتخاب کے نام پر سلیکشن ہو کہ دنیا کو دکھا سکیں کہ یہ اب جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے مگر دنیا بے وقوف نہیں ہے! مسلم لیگ ن کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اب دم توڑ رہا ہے۔ جب آپ کو وزارت عظمی سے نکالا جائے تو تب ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ووٹ کی حرمت، سویلین اور آئینی بالادستی یاد آ جاتی ہے۔ اقتدار کے وقت نہیں آتی۔ ابھی بھی اپوزیشن جماعتیں اگر حکومت کے خلاف بول رہی ہیں تو دراصل وہ غیر جمہوری قوتوں کو باور کروا رہے ہیں کہ ہم بھی موجود ہیں اور ہم تو آپ کی تمام شرائط ماننے کو تیار ہیں ہمیں موقع دے دیں۔ سب جماعتیں اقتدار کی بھوکی ہیں۔ انہیں اس عوام کی کوئی پرواہ نہیں۔

جماعتوں میں خود جمہوریت نہیں۔ موروثیت ہے۔ کسی پارٹی کے اہم چہروں کے عزیز و اقارب ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹر منتخب ہوتے ہیں۔ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں بھی وہی ہیں۔ آپ پارٹی سربراہ سے سوال نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے سیاسی جماعتوں نے نام نہاد جمہوری نظام کو داغدار کر دیا ہے

سیاسی جماعتوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب انہیں عوام پر بھروسا کرنا چاہیے۔ راولپنڈی اور آبپارہ کو دیکھنا بھول جائیں۔ یک جان ہو کر عوام کی جنگ لڑیں گے تو با اختیار ہوں گے اور بے دخل بھی نہیں کیے جائیں گے۔ نہیں کر سکتے تو آپ لوگ یہ پیشہ چھوڑیں اور یہاں بھی ایک مصر ماڈل آ جائے گا۔ یہ جمہوریت کا راگ الاپنا بند کر دیں اگر آپ نے ابھی بھی غیر جمہوری قوتوں کی طرف ہی دیکھنا۔ عوام کو مشورہ کہ اگر آپ چاہتے کہ آپ کے ووٹ کی عزت ہو تو خود اپنی جنگ لڑیں۔ ان سے امید نا کریں جو اشارے کی بنا بول بھی نہیں سکتے۔ آپ کی اپنی جد و جہد کی بدولت ہی آئیں اور ووٹ کی بالادستی ممکن ہے۔ اگر عوام نہیں کر سکتے تو آپ کے پاس حق نہیں کیونکہ آپ دوسروں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔

جمہوریت ایسا نظام ہے جہاں بولنے کی آزادی ہو، لکھنے کی آزادی ہو۔ آزاد صحافت ہو۔ قومی اداروں سے سوال کرنا گناہ کبیرہ نا ہو۔ اگر آپ ایسا نظام نہیں لا سکتے تو خدارا ہائبرڈ نظام حکومت کو جمہوریت نا قرار دیں۔ اب یہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے جد و جہد کرنی ہے یا بس گھروں میں بیٹھ کر سوتے رہنا ہے۔ آپ لوگوں کی غفلت کی وجہ سے جو آپ کے حقوق آپ کو نا مل سکے کیونکہ جو آپ کے حقوق کی محافظ دستاویز جسے آئین کہتے ہیں اس کی کوئی وقعت نہیں۔

جس کا دل کرتا ہے اسے اپنے پاؤں تلے روند جاتا ہے۔ اور اداروں کا کام ہے کہ آئین کے اندر جو ان کے فرائض مقرر کیے جا چکے ہیں ان فرائض کی انجام دہی کریں۔ افواج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے ملک کے اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کرنا نہیں۔ اور یہ قبضہ تب ہی ختم ہوگا جب اس ملک کے کچھ لوگ جنہیں باقی عوام اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں وہ اقتدار کے بجائے اقدار کی سیاست کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments