مسمار ہونے والا میرج ہال اور بوڑھے کی سرخ آنکھیں



میر پور کے نزدیکی قصبہ چکسواری میں چند روز قبل ایک شاندار کئی منزلہ میرج ہال کے اچانک مسمار ہو جانے کا اندوہناک واقعہ پیش آیا، جس میں اس میرج ہال کے مالک اور ان کا جواں سال بیٹا بھی حاں بحق ہو گئے۔ اس افسوسناک واقعے نے جہاں میر پور اور گردو نواح کے عوام کو بوجوہ خوفزدہ بھی کر دیا اور عوام میں اس اچانک مسمارگی کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں بھی گردش کرنے لگیں، کیونکہ میر پور کے علاقے میں کچھ عرصہ ہی قبل ایک شدید زلزلہ آنے کی وجہ سے کافی نقصان ہو چکا ہے اور اس کے بعد بھی مسلسل کئی چھوٹے چھوٹے زلزلے اس علاقہ میں آتے رہے، اس وجہ سے فطری طور پر عوام نے اس حادثہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا، اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ عوام کو اس حادثے کی درست تکنیکی معلومات فراہم کی جائیں تاکہ آئندہ اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکے اور ایسے اندوہناک سانحات میں قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف کو روکا جا سکے۔

سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ سروے آف پاکستان کے مطابق میر پور ایک ایکٹو فالٹ لائن باونڈری تھرسٹ جو مظفرآباد کے مغربی علاقوں کے بالائی علاقے سے شروع ہو کر اسلام آباد سے گزرتی ہوئی میر پور کے ملحقہ علاقوں اور آگے مقبوضہ جموں کے پاس سے گزرتی ہوئی پٹھان کوٹ تک جاتی ہے، یہ ایک دیرینہ فالٹ لائن ہے جو ایکٹو ہے اسی وجہ سے اس لائن پر واقع علاقے سیسمک ریٹنگ کے لحاظ سے زون فور اور فائیو میں شمار ہوتے ہیں جو کہ خطرے کا انتہائی لیول تصور ہوتا ہے۔

جیسا کہ بتایا جاتا ہے کہ زلزلہ سے کوئی نہیں مرتا بلکہ اموات عمارات اور سٹرکچرز کے مسمار ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں 2005 کے زلزلہ کی وجہ سے انجینئیرز کو کافی نئی چیزوں کے مشاہدے، تجزئیے اور سیکھنے کا موقع ملا جن پر پہلے زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ مشاہدے میں آیا کہ مظفرآباد میں زیادہ تر جانی نقصان ان عمارات میں ہوا جو روایتی سٹون سٹرکچر یا برک سٹرکچر میں تعمیر شدہ تھیں، سٹون یعنی پتھر اپنی خصوصیات کے مطابق کمپریسو سٹرینتھ یعنی عمودی دباؤ برداشت کرنے کی اعلیٰ صلاحیت کا حامل ہوتا ہے لیکن یہ زلزلہ کی صورت میں پڑنے والا ”لیٹرل پریشر یعنی افقی دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اور اس کا سٹرکچر مسمار ہو جاتا ہے اسی طرح برک سٹرکچرز بھی لیٹرل پریشرز برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔

مظفرآباد میں جتنا بھی جانی نقصان ہوا اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ روایتی طور پر لوکل دستیاب مٹیریل کے طور پر پتھر یا اینٹوں سے تعمیرات کی گئی تھیں اور مشاہدے میں آیا ہے کہ یہاں جوعمارات فریم سٹرکچر میں تعمیر شدہ تھیں وہ بھی کریک ہو گئیں، یا ٹیڑھی ہو گئیں لیکن ان میں جانی نقصان نہیں ہوا، مثال کے طور پر گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نڑول مظفرآباد کے دو حصے تھے ایک حصہ پرانے روایتی طرز پر پتھروں سے تعمیر شدہ تھا اور اسی سکول کا کچھ حصہ جو نیا تعمیر ہوا تھا وہ فریم سٹرکچر یعنی بیم کالم کی طرز تعمیر پر مشتمل تھا یہاں پرانے حصے میں لاتعداد معصوم بچیاں ملبے میں دب کر جان بحق ہوئیں لیکن نئے تعمیر شدہ حصے جو فریم سٹرکچر میں تعمیر شدہ تھا کوئی ایک بھی جان نہیں گئی، یہی حال شہر کی اکثرعمارات کا ہوا۔

کچھ عرصہ قبل میر پور کے علاقہ میں آنے والے شدید زلزلہ میں چند شاندار کوٹھیاں بھی مکمل طور پر مسمار ہو گئیں ان کی تصاویر دیکھ کر پہلی بات یہی دکھائی دی کہ یہ سب مکانات“ برک سٹرکچر ”پر تعمیر شدہ تھے۔ بات میر پور شہر اور اس کے ملحقہ علاقوں کی ہو رہی ہے تو راقم کو تقریباً پانچ سال تک ضلع میر پور میں منگلا ڈیم اپ ریزنگ کے ڈیم کی زد میں آنے والی تعمیر شدہ پراپرٹی کی اسیسمنٹ کا کام کرنے کا موقع ملا یہ کام میر پور سے شروع ہو کر اسلام گڑھ، چکسواری ڈوڈیال تک ڈیم کی اپ ریزنگ کی زد میں آنے والی متوقع بستیوں تک پھیلا ہوا تھا اس لیے مجھے ذاتی طور پر ان علاقوں کے طرز تعمیر کو قریب سے اور باریک بینی سے دیکھنے اور تجزیہ کرنے کا موقع ملا۔

میر پور اور ملحقہ علاقوں میں تعمیر ہونے والی اکثر عمارات برک سٹرکچر کے تحت تعمیر کی گئی ہیں یعنی اس میں عمارت کا بوجھ اینٹوں سے تعمیر شدہ دیواروں کے ذریعے اینٹوں سے ہی بنی بنیاد یعنی فاونڈیشن تک منتقل ہوتا ہے۔ ان عمارات میں کنکریٹ کا استعمال دروازوں، کھڑکیوں وغیرہ پر ڈالے جانے والے محدود لنٹل بیمز اور چھت کی سلیب تک محدود ہوتا ہے جن علاقوں میں زلزلہ کا خطرہ نہ ہو ان میں اس طرز تعمیر میں کوئی حرج نہیں لیکن بدقسمتی سے میر پور اور ملحقہ علاقوں میں یہ صورتحال نہیں ہے لیکن اس بارے میں لوگ اصل صورتحال اور خطرے سے ناواقف ہیں۔

چکسواری میں مسمار ہونے والے میرج سینٹر کی بات کی جائے تو یہاں بلڈنگ کے نیچے تہہ خانہ یعنی بیسمنٹ بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس مقصد کے لیے عمارت کو جیکس پر اٹھا کر یعنی سہارادے کر فاونڈیشن کو مزید گہرائی تک لے جایا جا رہا تھا اور یہ کام بھی بغیر کسی ماہر انجینئیر کی نگرانی کے صرف مستری حضرات کے مشوروں کے مطابق کیا جا رہا تھا اس طرح بنیاد کو سہارا دے کر فاونڈیشن میں تبدیلی کرنے یا اسے مزید گہرا کرنے کے لیے کو سٹرکچر کو سہارا دینے کے کام کو انجینئیرنگ کی اصطلاح میں“ انڈر پننگ ”کہا جاتا ہے اور برک سٹرکچر پر تعمیر شدہ عمارات میں یہ عمل کرنے کے لیے خصوصی احتیاطیں بروے کار لانے کی ضرورت ہوا کرتی ہے، یہ کام چھوٹے چھوٹے حصوں میں کیا جاتا ہے قارئین کی سمجھ کے لیے مختصراً یہ کہ ایک دیوار کے لمبائی میں تیسرے حصے کی بنیاد کھول کر اور اس حصے میں اوپر کے ڈھانچے یعنی سٹرکچر کو مناسب سہارا دے کر پہلے اس حصے کو تعمیر کر لیا جاتا ہے پھر دیوار کا آخری لمبائی کے تیسرے حصے کو اسی طرح سہارا دے کر کھول کر حسب منشاء تعمیر کر لیا جاتا ہے اور جب یہ دونوں حصے اوپر سے آنے والا سٹرکچر کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں تو اسی طریقے سے دیوار کا درمیانی تیسرا حصہ سہارا دے کر کھول کر تعمیر کر لیا جاتا ہے اس طرح چھوٹے چھوٹے حصوں میں عمارت کی فاونڈیشن تبدیل کی جاتی ہے۔

لیکن اس عمارت میں یہ احتیاطی تدابیر استعمال نہیں کی گئیں اور دیواروں کے نیچے جیک کی جگہ بنا کر اور جیکس لگا کر تمام فاونڈیشن اکٹھے ہی کھول دی گئیں کیونکہ برک سٹرکچر عمارات میں پلنتھ بیم نہیں ہوتا اور دیواریں براہ راست فاونڈیشن پر ہوتی ہیں لہذا جب دیوار کے نیچے جیک سپورٹ کی شکل میں“ پوائنٹڈ رزسٹنس ”لگائی جائیں گی تو یہ عمارت کے سٹرکچر یعنی دیواروں پر ورٹیکل شیئر سٹریس کا باعث بنیں گی اور اس طرح لوڈ اور مزاحمت کا تناسب جو صفر ہونا چاہیے تبدیل ہو جاتا ہے اور عمارت کی اچانک مسمارگی کا باعث بنتا ہے۔

اس طرح کی تمام عمارت کی اچانک مسمارگی میں ایک اور ایفیکٹ بھی کام کرتا ہے جسے انجینئیرنگ کی زبان میں“ سکن ایفیکٹ ”کہا جاتا ہے یعنی جس طرح کہیں بچھا ہوا کپڑا ایک طرف سے کھینچا جاتا ہے تو اس کھچاؤ کا اثر کپڑے کے مخالف سمت والے کنارے تک جاتا ہے اسی طرح جب کوئی عمارت ایک طرف سے گرتی ہے تو یہ لیٹرل موومنٹ یعنی افقی حرکت اس کے ملے ہوئے ممبرز جیسے چھت وغیرہ میں بھی افقی حرکت یعنی لیٹرل موومنٹ پیدا کرتی ہے جو ساری عمارت کی مسمارگی کی وجہ بن جاتی ہے۔

یہی عمارت اگر مناسب فریم سٹرکچر میں تعمیر شدہ ہوتی تو امکان یہی ہے کہ اس طرح اچانک مسمارگی سے بچ جاتی، اور قیمتی انسانی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔ اس اندوہناک حادثے میں عوام کے لیے ایک سبق بھی ہے کہ آئندہ کوشش کریں کہ تعمیرات انجینئیرنگ اور سٹرکچر انجینئیرنگ کے اصولوں کے مطابق کسی ماہر انجینئیر کی زیر نگرانی تعمیر کروائیں اور اپنی قیمتی جانوں اور خطیر سرماے کو ناخواندہ مستریوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔

اب اس واقعے کے ایک اور پہلو کی بات کرتے ہیں کہ کچھ مخصوص عزائم والے عناصر اس واقعے کو منفی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کو منفی پراپگنڈہ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اور اس مسمارگی کا باعث ڈیم کو ٹھہرایا جا رہا ہے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اس احتجاج کا“ اب ”کیا فائدہ ہے کیا ہمارے احتجاج کی وجہ سے کوئی ڈیم کو اٹھا کر لے جائے گا؟ یہ تو عملی طور پر ممکن نہیں ہے تو اب ہمیں آبادی اور علاقے کواس طرح تعمیر اور پروٹیکٹ کرنا ہے کہ شہر، اور ڈیم کے ملحقہ آبادیاں محفوظ رہ سکیں۔

اس سلسلہ میں ایک مثبت تجویز تو یہ ہو سکتی ہے کہ کم از کم میر پور شہر کی حدود تک ڈیم کے پشتوں“ انبیکمنٹس ”کو پختہ کر دیا جائے تاکہ زیر زمین رساؤ یعنی“ سیپیج ”کی روک تھام ہو سکے۔ متاثرین ڈیم کے لیے جو“ نیو سٹی ”تعمیر کیا گیا ہے یہ علاقہ لوکل زبان میں نشیبی پبی کہلاتا تھا اور یہ مقام ڈیم کی تہہ سے بھی نیچے تھا اور یہاں ڈیم سے رسنے والے پانی کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے تالاب بھی بن گئے تھے جن میں ڈیم کا ہی پانی زیر زمین رساؤ کر کے آتا تھا۔

اور بچے ان تالابوں میں سے چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تک پکڑا کرتے تھے، یہاں تعمیراتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھاری مشینری کی وجہ سے فلنگ کر کے اس علاقے کو ایک ہموار شکل دے کر متاثرین کو صوابدید کے مطابق پلاٹ الاٹ کر دیے گئے جبکہ ایک بنیادی اصول ہے کہ جس زمین پر فلنگ کی جائے وہاں کم از کم پانچ سال تک تعمیرات سے اختراض کیا جانا چاہیے لیکن چونکہ عوام یہ تکنیکی معلومات نہیں رکھتے تھے اور ان کو مکانیت کی بھی مجبوری تھی تو انہوں نے فوری طور پر اپنے گھر تعمیر کرنے شروع کر دیے اب جن خوش نصیبوں کے پلاٹس بلند جگہوں پر لینڈ کٹنگ کر کے بناے گئے ان کے تو ٹھیک ہیں لیکن جن بے چارے متاثرین کو نشیبی جگہوں کی بھرائی کی جگہ پر پلاٹس دیے گئے ان میں سے اکثر کے قیمتی مکانات کریک ہو چکے ہیں اور کبھی بھی کسی افسوسناک حادثے کا باعث بن سکتے ہیں۔

اس کالونی میں جس کو صرف متاثرین ڈیم کے لیے تعمیر کیا گیا تھا یہاں بہت سے ایسے اعلیٰ افسران کو ایک ایک یا ایک سے زیادہ بھی پلاٹس الاٹ کئیے گئے ہیں یا انہوں نے خود اپنے آپ کو الاٹ کر لیے ہیں اگر آج بھی اس سکینڈل کی تحقیقات کی جائیں تو بہت سے نام نہاد نیک نام افسران کے چہروں سے نقاب اتر جائے گی۔ بہت سے متاثرین ایسے بھی تھے جن کی ڈیم کے لیے ایکوائر کی گئی جگہ کے علاوہ اور کوئی ملکیت نہ تھی ان کو ان کی زمینوں کے ناقابل یقین حد تک کم معاوضے دیے گئے جبکہ کام سے پہلے ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کو رہائش اور دیگر ضروریات کے لیے متبادل زمینیں دی جائیں گی لیکن ڈیم کی اپ ریزنگ کا کام مکمل ہونے کے بعد ان کو کوئی متبادل جگہ نہیں دی گئی اور وہ لوگ آج ڈیم کی تعمیر اور اپ ریزنگ کی وجہ سے صحیح معنوں میں دربدر ہو چکے ہیں اور ان مظلوم افراد کی فریاد سننے والا بھی کوئی نہیں۔

خود میرے علم میں ایک صاحب ہیں جن کی کل ملکیت ہی گیارہ کنال جگہ تھی اور ان کو ان گیارہ کنال زمین کا معاوضہ دس ہزار روپے کنال کے حساب سے دیا گیا۔ انہوں نے ریفرنس کورٹ میں کیس بھی کیا لیکن ان کا کیس بغیر مناسب شنوائی پر زائد از میعاد قرار دے کر مسترد کر دیا گیا، ہم جب منگلہ اپ ریزنگ میں تھے تو ہمارے سامنے مختلف افسران ان سے متبادل زمین دینے کے وعدے کیا کرتے لیکن ڈیم کی اپ ریزنگ کا کام مکمل ہونے کے بعد کوئی ان کی بات تک سننے پر تیار نہیں۔

مجھے کبھی وہ صاحب سڑکوں پر گھومتے ملتے ہیں تو حالانکہ میرا کوئی قصور نہیں پھر بھی میں اس مظلوم انسان سے آنکھیں تک نہیں ملا سکتا۔ ایک دن شدید گرمی میں ایک سڑک پر ان کو دیکھ کر ان کے پاس رک گیا تو وہ یہ سمجھ کر کہ میں اب بھی اسی دفتر میں تعینات ہوں مجھے کہنے لگے کہ جتنا معاوضہ یعنی ایک لاکھ دس ہزار گیارہ کنال زمین کا ملا تھا اس رقم سے آج مجھے کوئی ایک مرلہ زمین نہیں دیتا، اس معاوضہ کی نصف سے زیادہ رقم میں وکیلوں کو دے چکا ہوں وہ بھی مجھ سے دھوکا کرتے رہے اور بالآخر بغیر میرا موقف جانے مختلف حیلے بہانوں سے میرا کیس خارج کر دیا گیا۔

وہ بزرگ اپنے کانپتے ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ کر بولے، یار توں تے چنگا بندہ ایں افسراں نوں دس میں لتے دے پیسے واپس موڑ دینا واں، خدا دے واسطے مینوں کدرے زمین دے چھوڑو، ذلیل و خوار ہو ہو کے تھک گیا واں، ان کے چہرے کی طرف دیکھا تو بڑھی ہوئی سفید شیو کے پیچھے پسینے سے بھیگے چہرے پر سے دو سرخ آنکھیں منت سے میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں نے ان کر کانپتے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑانے کے لیے ان سے جھوٹ کہا کہ بزرگو میں ضرور افسران بالا سے آپ کی بات کر کے آپ کا مسئلہ حل کرواوں گا۔

اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے کہنے لگے کہ میرے کول تے ہن کج وی نہیں ، نہیں تے تینوں چاہ ضرور پلاندا۔ فیر وی تیرے واسطے دعا کریا کرساں۔ میرا کم بھل نہ جاویں، تیری خدمت وی کرساں، اور اٹھ کر جھکے جھکے قدم گھسیٹتے ہوئے، ایک طرف کو چل پڑے۔ میری توجہ اس کی طرف تھی کہ اچانک خیال آیا کہ میرا ہاتھ جو اس نے دونوں ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا ابھی تک آگے کو بڑھا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments