سید عبداللہ شاہ لکیاری۔ ایک نظریاتی سیاستدان، ایک کامیاب وزیر اعلیٰ


آج ہم سندھ کے بہادر، مدبر اور اپنے فیصلوں پر اٹل رہنے والے، نامور سیاستدان اور سندھ کے سابق وزیراعلیٰ، سید عبداللہ شاہ کا ذکر کر رہے ہیں۔ سید عبداللہ شاہ لکیاری، 1934 ء میں، سابقہ ضلع دادو اور موجودہ ضلع جامشورو کے تعلقہ سیوہن میں ’باجارہ‘ نامی گاؤں میں، مشہور زمیندار، سید مراد علی شاہ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم باجارہ ہی میں حاصل کی، جبکہ میٹرک کا امتحان دادو کے گورنمنٹ پائلٹ ہائی اسکول سے پاس کرنے کے بعد، مزید تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے، جہاں سے بی ایس سی کرنے کے بعد وہ کراچی تشریف لائے، جہاں سے قانون میں گریجوئیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے یہیں قانون کی مشق شروع کی۔ ان ہی دنوں ان کا خاندان باجارہ سے ہجرت کر کے بھان سیدآباد کے قریب ’واہڑ‘ نامی گاؤں میں آکر آباد ہوا تھا، جس گاؤں کا نام، بعد ازاں ان کے والد ’مراد علی شاہ‘ کے نام سے منسوب کیا گیا۔

سید عبداللہ شاہ، شجاع محمد راہوپوٹو کے مشورے پر تقریباً 1964 ء میں سیاست کی دنیا میں داخل ہوئے، اور 1965 ء میں ”بوبک“ یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے علاقے میں ترقیاتی کام کرانے کی وجہ سے جلد ہی عوام میں شہرت پالی۔ وہ 1970 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور سندھ کی صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ان انتخابات میں سید عبداللہ شاہ کی کامیابی کا امتیاز یہ بھی رہا کہ وہ تعداد کے لحاظ سے ملک بھر میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار ثابت ہوئے اور انہیں سندھ اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا گیا، جبکہ جنوری 1973 ء میں انہیں خوراک، زراعت اور باہمی امداد کا قلمدان دے کر، سندھ کا صوبائی وزیر بنا دیا گیا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد ان کے پاکستان پیپلز پارٹی سے اختلافات ہوگئے، لیکن انہوں نے اپنے نظریے کے تحت ”ایم آر ڈی“ تحریک میں اپنا کردار ادا کیا۔ 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے اپنے حلقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے سید کوڑل شاہ کا مقابلہ کیا، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1988 ء میں وہ دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے، جبکہ 1990 ء میں سینیٹر بھی منتخب ہوئے۔

1993 ء میں انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ سے اپنے لیے قومی اسمبلی کے لیے ٹکٹ دینے کی گزارش کی، جس کو منظور نہیں کیا گیا اور انہیں پہلے کی طرح صوبائی اسمبلی ہی کا ٹکٹ دیا گیا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد انہیں سندھ کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ سید عبداللہ شاہ کا شمار سندھ کے پڑھے لکھے وزرائے اعلیٰ میں کیا جاتا ہے اور ان کا ذکر احترام سے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں سندھ کی ترقی کے لیے متعدد قابل ذکر کارہائے نمایاں انجام دیے۔

سیہون میں ائرپورٹ کا قیام اور ”بڈو جبل“ پر سیاحت کے لحاظ سے ترقیاتی کاموں کا آغاز ان کے اہم کارنامے تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں بھارت حکومت سے جیسلمیر اور جھونا گڑھ کی ریاستیں سندھ کو واپس کرنے کا منفرد تقاضا بھی کیا، جو ریاستیں ماضی میں سندھ کا حصہ رہ چکی تھیں۔ انہوں نے کیٹی بندر کی ازسر نو تعمیر اور تھر میں کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے پراجیکٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھا، جو پراجیکٹ اس وقت تکمیل پا چکا ہے اور جہاں کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے سے اب ہم بجلی پیدا کر کے نیشنل گرڈ کو فراہم کر رہے ہیں۔

یقیناً اس مرحلے کی تکمیل، محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ سید عبداللہ شاہ کے دیکھے ہوئے خواب کی بھی تعبیر ہے۔ سید عبداللہ شاہ کی وزارت اعلیٰ کے دور میں کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف باقاعدہ آپریشن کیا گیا، جس کا نتیجہ انہیں ذاتی طور پر بھی بھگتنا پڑا اوردہشتگردوں کی جانب سے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ان کے سگے بھائی، سید احسان علی شاہ کو شہید کیا گیا۔ سید عبداللہ شاہ کا وزارت اعلیٰ کا دور ان کے لئے کڑی آزمائشوں والا دور بھی رہا۔

اسی دور میں 20 ستمبر 1996 ء کو کراچی کے کلفٹن کے علاقے میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سب سے بڑے بیٹے، میر مرتضیٰ بھٹو کو ان کے ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا۔ دنیا بھر میں جب اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں، تو وہاں کے انتظامی سربراہ مستعفی ہو جاتے ہیں۔ گوکہ پاکستان جیسے ملکوں میں اس قسم کے جرائتمندانہ اقدامات کی مثالیں ناں ہونے کے برابر ملتی ہیں، مگر سید عبداللہ شاہ ان غیور اور اصول پسند سیاستدانوں اور منتظمین میں سے تھے، جنہوں نے اس واقعے پر اپنا استعفیٰ، اپنی قائد اور اس وقت کی وزیر اعظم پاکستان، محترمہ بینظیر بھٹو کو بھجوایا، جو انہوں نے منظور نہیں کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنی ذمہ داریاں بدستور ادا کرتے رہیں۔

جس کے فوراً بعد اس وقت کے صدر، فاروق احمد خان لغاری نے محترمہ بینظیر بھٹو کی وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیں ختم کردیں اورپی پی پی کے دیگر رہنماؤں کی طرح سید عبداللہ شاہ کے خلاف بھی کئی کیس داخل کیے گئے۔ سید عبداللہ شاہ، 10 برس خودساختہ جلاوطنی کے تحت امریکا میں مقیم رہے۔ 2007 ء میں 20 کیسز میں ان کی قبل از گرفتاری ضمانت منظور ہوئی۔

یہ سید عبداللہ شاہ کی ذاتی خوبی تھی کہ ان کے نہ صرف اپنی پارٹی کے دوستوں کے ساتھ بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بھی صحتمند اور خوشگوار ذاتی تعلقات تھے۔ حروں کے روحانی پیشوا اور پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سابق سربراہ، سید شاہ مردان شاہ ’پیرپگارہ‘ ، سید عبداللہ شاہ کو ’لکیاری کا لعل‘ کہا کرتے تھے۔

سید عبداللہ شاہ، کینسر کی موذی مرض میں مبتلا رہنے کے بعد، 14 اپریل 2007 ء کو 72 برس کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ انہیں اپنے آبائی گاؤں، سید مراد علی شاہ ’(واہڑ) میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے دو صاحبزادے، سید مراد علی شاہ (جن کا نام سید عبداللہ شاہ نے اپنے والد کے نام پر رکھا تھا، جو اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ ہیں ) اور سید سجاد علی شاہ، ان کی ذاتی اور سیاسی وراثت کے امین ہیں۔ سید مراد علی شاہ، پہلے پہل 2008 کے عام انتخابات میں، اپنے والد ہی کے حلقے سے کامیاب ہونے کے بعد حکومت سندھ میں مالیات، روینیو اور آبپاشی کے صوبائی وزیر تعینات ہوئے۔

2013 ء کے عام انتخابات میں انہیں صوبائی کابینہ میں مشیر خزانہ مقرر کیا گیا، جبکہ 29 جولائی 2016 ء سے انہیں سندھ اسمبلی کی اکثریت نے قائد ایوان اور وزیر اعلیٰ سندھ منتخب کیا گیا اور وہ‘ وزیر اعلیٰ ابن وزیر اعلیٰ ’کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنے والد محترم کے ورثے کو آگے لے کر چلے۔ وہ 28 مئی 2018 ء تک سندھ اسمبلی کی میعاد پوری ہونے تک سندھ کے وزیراعلیٰ رہے، اور 25 جولائی 2018 ء کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو کر سندھ اسمبلی میں پہنچے اور انہیں سندھ کی صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت نے ایک بار پھر قائد ایوان چنا اور وہ 18 اگست 2018 ء سے دوسری بار سندھ کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

سید عبداللہ شاہ کو ہم سے بچھڑے 13 برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر ان کی ذات کے روشن حوالے اور ان کی سیاسی و سماجی خدمات کا ذکر اور انسان دوستی جیسے اوصاف آج بھی ہر زبان پر ہیں اور سید عبداللہ شاہ کا شمار سندھ کے ’آئیڈیل وزرائے اعلیٰ‘ میں کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments