پروفیشنل تعلیم کو سیکولر ہی رہنے دیں – صبغت الله خان


صبغت الله خان

\"sibghat\"ملک عزیز کو تو یار دوستوں نے ایک مذہبی ریاست بنانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ قرار داد مقاصد کی شکل میں جدید قومی ریاست کو کلمہ پڑھانے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا گیا۔ اور کئی سالوں سے یہ طے شدہ بات ہمیں بتائی سمجھائی جارہی ہے کہ تمام مسائل کی جڑ جدیدیت اور مابعد الجدیدیت کو قبلہ بنانا ہے۔ اورمسائل کا حل خود کو تبدیل کرنا نہیں بلکہ زمانے کے پہیے کو صدیوں پیچھے گھمانا ہے۔ یہ کوشش افغانستان اور عراق میں تو اپنے ثمرات دکھا رہی ہے ہمارے ہاں بھی اس کے لیے ذہن سازی کی جارہی ہے۔ اور اس کا اعلی ترین مظاہرہ پروفیشنل تعلیمی اداروں میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ اب ایک بنیادی بات جو یہ بندہ ناچیز اپنے مشاہدے و مطالعے سے سمجھا ہے کہ ہم پروفیشنل تعلیم اس لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کچھ مقام حاصل ہوسکے۔ روزی روٹی کا انتظام کیا جاسکے۔ ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کی جاسکے۔ کچھ تخلیقی کام کرکے اپنی اور معاشرتی زندگی میں اصلاح لائی جاسکے۔ ہمارے بچے کچھ بہتر دنیا میں سانس لے سکیں۔ اور سب سے بڑھ کر غربت کے اس مستقل چکر سے نکلا جاسکے جو صدیوں سے چل رہا ہے۔ یہاں مادیت یا روحانیت، کمیونزم یا کیپٹلزم، کی بحث کو مت چھیڑیں کہ زندگی کے فوری تقاضے بہت تلخ ہیں۔ ہم نوجوان تو جس ثقافتی و معاشی گھٹن کا شکار ہیں اس کو زبان صرف حضرت جون ایلیا نے دی ہے

عشق کو درمیاں نہ لاؤ کہ میں

چیختا ہوں بدن کی عسرت میں

مجھے کہنے دیجئے کہ مادیت پسندی کی تہمت ہمیں قبول ہے کہ روحانیت نے انفرادی و اجتماعی سطح پر جو انقلابات برپا کیے ہیں وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ کیپٹلزم پر ہزار اعتراضات صحیح لیکن یہ ہی وہ واحد نظام ہے جس نے موجودہ دور میں کروڑوں انسانوں کو سطح غربت سے باہر نکالا ہے۔ اور جدید پروفیشنل تعلیم اور تحقیق اسی نظام کا حصہ ہیں۔ اب ہماری روایت یہ ہے کہ ہمیں نظریات سمیت ہر چیز کو کلمہ پڑھا کر قبول کرنے کی عادت ہے۔ فلسفہ و منطق کو غزالی نے کلمہ پڑھایا تو یہ ہمارے لیے قابل قبول ہوا۔ جدید قومی ریاست کو مودودی صاحب نے کلمہ پڑھایا تو یہ قابل قبول ہوئی۔ یہ کوشش آپ کو اسلامی معاشیات، اسلامی سائنس، اسلامی بنکنگ، حلال لیزنگ، طب اسلامی، تمام حلال پراڈکٹس، حتی کہ برقینی کی شکل میں پورے شور و شور سے نظر آئے گی۔

میں اسلام آباد کی مشہور یونیوسٹیوں میں معاشیات اور مینجمنٹ کا طالب علم رہا ہوں۔ معاشیات کی تحقیق میری دلچسپی کا موضوع ہے اسی شوق کی وجہ سے جدید مسائل اور ان کے حل پر میری توجہ رہتی ہے۔ میں یونیورسٹی اس لیے نہیں جاتا کہ یہ سیکھ سکوں کہ آج کی ہر دم تبدیل ہوتی ہوئی معاشیات، مارکیٹنگ،اور منیجمنٹ کو صدیوں پہلے کے نظریات سے ہم آہنگ کرسکوں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مجھے زیادہ تر استاد ایسے ہی ملتے ہیں۔ جو کہنے کو تو معاشیات میں پی ایچ ڈی ہوتے ہیں اور مذہب کا سرسری مطالعہ رکھتے ہیں لیکن مذہب اور جدید معاشیات کی فکری تطبیق کا کام انجام دینا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں جدید معاشی نظام سراسر خراب ہے لیکن مذہبی اصولوں سے اسی نظام کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ سود ویسے تو حرام ہے لیکن اس کا خوبصورت سا عربی نام، کچھ کاغذی کارروائی، اور کسی مولانا کا فتوی اسے حلال کردیتے ہیں۔ ڈیری ویٹو اور کیپیٹل مارکیٹ ویسے تو حرام ہیں لیکن انھیں مل بیٹھ کر حلال کیا جاسکتا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ معاشی بحران کا خاتمہ کیسے کیا جائے وہ مجھے بتاتے ہیں کہ یہ سب ایلومیناٹی اور فری میسنز کی سازش ہے اور صرف مذہب کا نفاذ ہی اس کا حل ہے۔ میں مارکیٹنگ اور لوگوں کی نفسیات کی بات جاننا چاہتا ہوں وہ مجھے بتاتے ہیں کہ تل ابیب یونیورسٹی میں یہودی نفسیات اور لوگوں کو کنٹرول کرنے پر کیا کام کرہے ہیں اس لیے بچنا ممکن نہیں ہے۔ میں کارپوریٹ ورلڈ میں کامیابی کے نسخے جاننا چاہتا ہوں وہ مجھے بتاتے ہیں کہ پورا یورپ ہماری مذہبی کتب کے مطالعے سے کامیابی کے نسخے دریافت کر رہا ہے اس لیے مجھے اغیار کی نہیں اپنی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ میں بہتر معاشی پالیسی بنانا چاہتا ہوں لیکن مجھے اس دور کے قصے سنائے جاتے ہیں جب کوئی زکوۃ لینے وال کوئی نہیں رہا تھا۔ میں ملٹری بجٹ کی جدید مباحث کو چھیڑنا چاہتا ہوں وہ مجھے بتاتے ہیں کہ کیسے غزوہ ہند کے بعد خوشحالی آئے گی۔

یہ صورت حال صرف معاشیات میں نہیں ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دوست بھی کچھ ایسی ہی باتیں بتاتے ہیں۔ جہاں بگ بینگ، ارتقاء، ہگس بوسان، ڈارک میٹر، گریٹ کرنچ، ڈارک اینرجی، سپیس ٹائم، سورج کی گردش، کوانٹم فزکس وغیرہ کو مذہبی کتب سے ثابت کرکے کلمہ پڑھا یا جارہا ہے۔ ایک ایسی فضا قائم ہے جہاں ہر جدید پر قدیم کی چادر لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم سے یہ تقاضا ہے کہ ماضی کی گھٹڑی کو اٹھا کر ترقی کی دوڑ میں حصہ لیں۔ ہم نوجوانوں کی بزرگوں سے گزارش ہے کہ یہ بوجھ ان ناتواں کندھوں سے نہیں اٹھے گا۔ تبدیلی کا ریلہ جو ماضی میں بہت کچھ بہا کر لے گیا ہے ہم اپنی صلاحیتوں کو اس ریلے کے سامنے بندھ باندھنے پر صرف نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنی خوہشات کا ایندھن نہ بنائیں اور کم از کم پروفیشنل تعلیم کو سیکولر ہی رہنے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments