کیا مطیع اللہ جان کو اغوا کرنے والے پکڑے جائیں گے؟


اسلام آباد سے اغوا ہونے والے صحافی مطیع اللہ جان بارہ گھنٹے ناجائز حراست/ قبضہ میں رہنے کے بعد کل نصف شب کے قریب اپنے گھر واپس پہنچ گئے۔ انہیں راولپنڈی سے تیس کلو میٹر دور فتح جنگ کے علاقے میں چھوڑا گیا۔ صبح کے وقت اسلام آباد کے ایک اسکول کے باہر سے اغوا کرنے والوں نے پہلے انہیں ایک کمرے میں بند رکھا، پھر سڑکوں پر ’گھمانے‘ کے بعد انہیں ایک نسبتاً ویران علاقے میں چھوڑ دیا گیا۔ ملک میں انسانی حقوق کے پاسبان خوش ہیں کہ اس واقعہ پر فوری اور شدید احتجاج کام آیا اور مطیع اللہ جان بازیاب ہوگئے۔

یہ سمجھا بھی جارہا ہے اور اس پر یقین بھی کیا جانا چاہئے کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کے بعد سامنے آنے والے شدید رد عمل، اپوزیشن، صحافی و انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ حکومت کے متعدد وزیروں کے احتجاج اور مطالبے کی وجہ سے رہا کرنا پڑا۔ اس طرح اسے ایک لحاظ سے آزادی رائے اور شہری حقوق کی فتح کہا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ تسلیم کرنے سے پہلے اس بات کا کامل یقین ہونا چاہئے کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کرنے والوں نے رائے عامہ کے دباؤ، احتجاج اور حکومت کی پریشانی کو بھانپ کر انہیں رہا کیا ہے۔ اگر اس بارے میں شبہ ہو تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی اس آبزرویشن کو غور سے پڑھنا چاہئے: ’اس واقعہ کی ذمہ داری پوری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ جب پولیس وردی میں ملبوس لوگ کسی شہری کو دن دہاڑے اٹھاتے ہیں تو عام لوگ اس پر کیسا محسوس کرتے ہوں گے۔ کیا یہ طریقہ عوام کو خوفزدہ کرنے کا سبب نہیں بنے گا؟‘

اس میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ قومی و بین الاقوامی شہرت رکھنے والے مطیع اللہ جان جیسے صحافی کو غیر قانونی طور سے اغوا کرنا اور اس کے بعد وزیر اطلاعات کا یہ اعتراف کہ ’انہیں باقاعدہ گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ اغوا کیا گیا ہےاور حکومت خود بھی اس واقعہ کی تفصیلات نہیں جانتی‘۔۔۔ یہ واضح کرتا ہے کہ اٹھانے والے بالادست ہیں۔ انہیں احتساب یا جوابدہی کا خوف نہیں ہے اور انہوں نے بظاہر ملکی آئین و قانون کے خلاف جو حرکت کی، اس کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ یہی طریقہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔

جب کسی ملک میں قومی مفاد کا فیصلہ روشندانوں کے بغیر کمروں میں بیٹھے نامعلوم سائے کرنے لگتے ہیں اور قومی میڈیا و سیاسی بیانیہ کے ذریعے ان فیصلوں کی توثیق کا اہتمام کرنا عوام کی بہتری قرار پاتا ہے تو فطری طور سے قانون کے احترام اور اسے توڑنے کے درمیان حائل لکیر باریک ہوتے ہوتے ختم ہونے لگتی ہے۔ مطیع اللہ جان کے اغوا اور بازیابی کے درمیان بھی اسی غائب ہوتی لکیر کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اسے نمایاں کرتے ہوئے یہ اصول طے کیا جا سکے کہ قومی مفاد اور ملکی سلامتی کسی مافیا کا ہتھکنڈا نہیں ہو سکتا۔ یہ مقاصد کسی خفیہ اور نامعلوم ایجنڈے کا حصہ بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ ایسے ’شرمناک‘ مقاصد ہیں جن کی حفاظت کے لئے بعض ’جیالوں ‘ کو چہرے چھپا کر یا جعلی وردیاں پہن کر کسی نام ونشان کے بغیر شہریوں کو غائب کرنا پڑے۔

ملک و قوم کی حفاظت کا کام پوری دلیری سے وردی پہن کر سرحدوں پر سینہ تان کر کیا جاتا ہے۔ یا پھر منتخب اسمبلیوں میں برسر عام اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ کسی قوم کی بہتری کے لئے کون سے اقدامات ضروری ہیں۔ ریاست اور اس کا انتظام کرنے والی حکومت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ملک کے عوام میڈیا اور اپنے منتخب نمائیندوں کے ذریعے کسی خوف و ہراس کے بغیر قومی اہمیت کے معاملات پر خیالات کا اظہار کرسکیں۔ باہمی تبادلہ خیال، مباحث اور غور فکر کے بعد جب کسی معاملہ میں کوئی نتیجہ اخذ کر لیا جائے اور جمہوری انتظام کے مطابق اس فیصلہ پر ملک کی پارلیمنٹ مہر تصدیق ثبت کر دے، تو وہی معاملہ قومی مفاد کہلاتا ہے۔ اس کی حفاظت کوئی بے نام چہرے شہریوں کو کسی قانونی اختیار کے بغیر اٹھا کر نہیں کرتے بلکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے علی ا لاعلان قانون شکنی کے مرتکب عناصر کی سرکوبی کا عزم کرتے ہیں۔

عدالتیں جرم کا تعین کرتے ہوئے اس کی نوعیت کے مطابق سزا دیتی ہیں۔ اس طرح معاشرے میں قومی مفاد کی حفاظت قانون کی عمل داری میں کی جاتی ہے۔ یہی کسی بھی مہذب اور ذمہ دار معاشرے کا وتیرہ بھی ہوتا ہے۔ پاکستان یا کوئی بھی دوسرا ملک اگر اس طریقہ کے برعکس کوئی انتظام روا رکھتا ہے تو جان لینا چاہئے کہ یہ راستہ ناانصافی، شہری حقوق کی پامالی اور ملی و قومی مفاد کے برعکس ہے۔ یہ صورت حال کسی سماج کے لئے صحت کی علامت نہیں ہو سکتی۔ بیماری کی یہ علامات نمودار ہونے پر نظام کے ہر شعبے اور معاشرے کے ہر فرد کو یک آواز ہوکر ہیولوں اور سایوں کی صورت میں محافظ کہلانے والوں کے خلاف سرگرم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مطیع اللہ جان کے اغوا، بازیابی اور اس کے بعد سامنے والے حالات کا جائزہ لینے سے ہی اس بات کا تعین ہو گا کہ پاکستانی معاشرہ کس حد تک اس لاقانونیت کے خلاف آواز اٹھانے اور اسے ترک کرنے کا اقدام کرنے پر تیار ہے۔ اگر اس سماجی اور ادارہ جاتی علّت کی صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے عدالتیں اور پارلیمنٹ کے علاوہ میڈیا اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو مطیع اللہ جان غیر قانونی طور سے اغوا ہونے والے آخری شہری یا صحافی نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ اور اس پر ردعمل یہ بھی طے کرے گا کہ ملکی عوام کا صبر آزمانے والی طاقتیں کس قدر توانا ہیں اور عوامی حاکمیت کو ان کے پنجے سے آزاد کروانے کے لئے ابھی کن مراحل سے گزرنے کی ضرورت ہے۔

گو کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ مطیع اللہ جان کو اٹھائے جانے کے بارہ گھنٹے کے اندر رہا کردیا گیا۔ لیکن اسے ملک میں آزادیوں کے تحفظ کے لئے اٹھنے والی آوازوں کی مکمل فتح سمجھنے سے پہلے اس پہلو پر بھی غور ہونا چاہئے کہ جن عناصر نے مطیع اللہ جان کو اغوا کرنے کا فیصلہ کیا تھا، کیا انہیں اس رد عمل کا اندازہ نہیں تھا اور کیا وہ اغوا جیسا اقدام کرنے سے پہلے اس پر آنے والے رد عمل سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں تھے؟ اگر اس بیان کو درست تسلیم کرلیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ڈیپ اسٹیٹ کے نام سے کام کرنے والے یہ عناصر نہ تو اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ حالات کا درست تجزیہ کرسکیں اور نہ ان میں اس قدر حوصلہ ہے کہ وہ اپنی دانست میں ملک و قوم کی بھلائی کے لئے اٹھائے گئے فیصلہ کا دفاع کرسکیں۔ انہیں سوشل میڈیا پر چلنے والی چند مہمات کے سامنے ہتھیار پھینکنا پڑے۔ اس مؤقف کو درست مانتے ہوئے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قوم کی حفاظت کے ’محافظ‘ دراصل کمزور اور لاچار ہیں جو ذرا سے شور سے گھبرا جاتے ہیں۔ ملک کی معروضی صورت حال اس رائے کی تائید نہیں کرتی۔ اس لئے یہ شبہ اپنی جگہ موجود ہے کہ مطیع اللہ جان کو اٹھا کر رہا کرنے کا فیصلہ کسی دباؤ میں نہیں کیا گیا بلکہ یہ سب ایک طے شدہ منصوبہ کا حصہ تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رائے کے مطابق اس اغوا کا بنیادی مقصد ’خوف‘ کی فضا پیدا کرنا تھا۔ بلاشبہ یہ خوف پیدا کر دیا گیا۔ اسے معاشرے کی ہر سطح پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے شیڈول کے مطابق مطیع اللہ جان کے خلاف توہین عدالت کے سوموٹو ایکشن کی سماعت کی۔ البتہ 10 جولائی کے ایک ٹوئٹ پر لئے گئے اس سو موٹو پر باقاعدہ کارروائی سے پہلے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کٹہرے میں کھڑے کئے گئے مطیع اللہ جان کے اغوا اور بازیابی کے بارے میں استفسار کیا اور پولیس کو دو ہفتے کے اندر تفصیلی رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا۔ اس پہلو پر چیف جسٹس کی ناراضی بھی سامنے آئی کہ پولیس نے اغوا کے بعد واپس آنے والے صحافی کا بیان ریکارڈ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ تاہم یہ پہلو بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اگر پولیس نے مغوی کا بیان قلمبند نہیں کیا تو چیف جسٹس نے غصہ ظاہر کرنے کے علاوہ کوئی کارروائی کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یعنی پولیس کو حکم نہیں دیا گیا کہ وہ مطیع اللہ جان کا بیان لے تاکہ اس واقعہ کی ساری تفصیلات ریکارڈ پر آ سکیں۔

یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مطیع اللہ جان نے گھر واپسی کے بعد اپنے اغوا کے بارے میں کوئی تفصیلی بیان دینے، اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے بارے میں بتانے اور یہ واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کہ اغوا کرنے والے ان سے کیا پوچھنا چاہتے تھے۔ آخر انہیں محض اسلام آباد اور راولپنڈی کی سڑکوں پر سرکاری گاڑی میں گھمانے کے لئے تو نہیں اٹھایا گیا تھا۔ گزشتہ 36 گھنٹے کے دوران اس واقعہ پر ملکی خبروں میں سب سے زیادہ بات ہوئی اور تبصرے کئے گئے۔ کسی معاملہ میں اتنی عوامی دلچسپی کے معاملہ پر ایک صحافی کیسے خاموش رہنے کا فیصلہ کرسکتا ہے؟ سپریم کورٹ میں حکم جاری کرتے ہوئے جب ججوں نے مبینہ اغوا کے الفاظ استعمال کئے تب مطیع اللہ جان نے ضرور یہ کہا کہ انہیں حقیقی طور سے اغوا کیا گیا تھا۔ لیکن فاضل جج کا کہنا تھا کہ مبینہ کا لفظ قانونی تقاضہ ہے۔ اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ مطیع اللہ جان سچ بول رہے ہیں یا نہیں۔ دریں حالات عدالت عظمیٰ نے ایک ٹوئٹ پر توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی بجائے مطیع اللہ جان کو دو ہفتے میں جواب داخل کروانے کا حکم دیا ہے۔

حکومتی نمائیندوں کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے اس واقعہ میں ملوث عناصر کا سراغ لگانے کا حکم دیا ہے۔ اس حکم پر عمل کرنے کی ذمہ داری اسی پولیس کو پورا کرنا ہے جو سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ کے باوجود جرم میں ملوث لوگوں کو شناخت کرنے میں ناکام ہے۔ بہتر ہوتا کہ چیف جسٹس پولیس پر بوجھ میں اضافہ کرنے کی بجائے رائے عامہ کا ایک جائزہ کروانے کا حکم دیتے۔ اس جائزہ میں صرف ایک سوال پوچھا جاتا: ’کیا مطیع اللہ جان کو اغوا کرنے والے پکڑے جائیں گے؟‘ جائزے کا جواب ملکی اداروں کے اختیار اور نظام کی مضبوطی کا تعین کرنے کے لئے کافی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments