کائنات اور آدمی


کائنات ہمیں بیک وقت دو قسم کے جذبات سے ہمکنار کرتی ہے۔ ہم اس کی وسعت اور خوبصورتی کو دل ہی دل میں سراہتے ہیں مگر کچھ دیر کو ایک خوف ہمیں گھیر لیتا ہے اور ہم خود سے سوال کرتے ہیں، یہ سلسلہ جو ازل سے چلا آ رہا ہے، یہ دشت و دریا، چاند ستارے اور کہکشائیں، یہ بے نیازی سے بہتا ہوا وقت۔ ۔ ۔ ہمارے وجود کی وقعت کیا ہے؟ ہمارا ہونا یا نہ ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ ہم میں سے اکثر لوگ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ ہمارا وجود بے معنی ہے۔ وہ مان لیتے ہیں کہ ہمارے کسی عمل سے کچھ نہیں بدل سکتا۔

کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس احساس کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ آدمی کائنات کا مرکز ہے۔ وہ اپنے عمل سے فطرت کو بدل سکتے ہیں۔ وہ اپنی نسلوں کو کاہلی اور بے چارگی کی زندگی نہیں دے سکتے۔ کائنات کی ہر شے انسانی تناظر میں پرکھی جا سکتی ہے اور پرکھی جانی چاہیے۔ فطرت کا کوئی اصول اٹل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان اصولوں کو اٹل مان لینا ایک سفاکی کو جنم دیتا ہے جو آدمی کو عمل سے محروم کر دیتی ہے۔ وہ ایسے کسی اخلاقی قاعدے کو نہیں مانتے جو ان اصولوں کے تحت بنایا گیا ہو جن کے تحت ایک سائنسدان کائنات کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس کے بارے میں حتمی نتائج اخذ کرتا ہے یا جن کے تحت ایک لاجیشن اور فلسفی ایک ذاتی نوعیت کی رائے بناتا ہے اور اسے حتمی قرار دیتا ہے۔

دونوں طرح کے لوگ کائنات کا حصہ ہیں اور اسے پرکھ کر بے بسی یا ذمہ داری کے احساس سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ کائنات جن اصولوں پر چلتی ہے وہ آدمی پر یہ واضح کرتے ہیں کہ چیزیں ویسی کیوں ہیں جیسی ہیں۔ یہ اصول اس نظریے پر وضع نہیں کیے گئے کہ چیزوں کو ایسا ہونا چاہیے کہ یہ قائم رہ سکیں۔ اس کے برعکس یہ اصول چیزوں کی فطرت سے وضع کیے گئے ہیں۔ انسان ان کائناتی اصولوں کا غلام نہیں ہے۔ وہ ان کی روشنی میں نظام کائنات کو سمجھ سکتا ہے، کائنات کو سہمی ہوئی نظروں سے نہیں بلکہ پرکھنے والی نظروں سے دیکھ سکتا ہے اور اس کی وسعتوں میں گم ہو کر ہی اپنی اس صلاحیت کو سراہ سکتا ہے جس کی بدولت وہ اس میں چھپے رازوں کو جان سکتا ہے۔ وہ سوچ سکتا ہے کہ وہ ان وسعتوں میں شامل ہے۔ آدمی اور فطرت ایک ہیں۔ وہ اپنے عمل کو پرکھ سکتا ہے، فیصلہ کر سکتا ہے اور ممکنات سے کھیل سکتا ہے۔ اس کی رائے اہم ہے اور وہ اپنی رائے بدل سکتا ہے۔ کچھ ایک جیسا نہیں رہتا۔ کائنات ایک تسلسل میں ہے جو تغیر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

دوسرا گروہ جو فطرت کے اصولوں کی بے نیازی یا ان کو پرکھنے کے سائنسی رویوں کی سفاکی کے رد عمل میں انسان کے اختیار پر اس قدر زور دیتا ہے کہ جب تک کائنات کی ہر شے اس کے حصار میں نہ آ جائے۔ انسان بے بس ہی رہتا ہے۔ وہ چاہے تو اس حقیقت پر غور کر سکتا ہے کہ یہ اصول اس کے ظہور سے بہت پہلے کائنات میں موجود تھے اور اس کے انجام کے بعد بھی موجود رہیں گے۔ وہ کچھ بدلے گا تو اس میں یہی ایک اصول کارفرما ہو گا جو اس کے عمل کو واضح کرے گا۔ وہ دریاؤں کا رخ بدلے گا تو بھی ایک طریقہ وضع کرے گا ان اصولوں کو جاننا یا نہ جاننا اہم ہو یا نہ ہو، یہ اصول ہمیشہ رہیں گے۔ ان کو جان کر وہ ممکنات کو حقیقت میں بدل سکتا ہے اور جان سکتا ہے کہ انسان با اختیار ہے۔

” ہم لوگ کسی عمل میں با اختیار ہیں، اگر، ہم اس کے برعکس عمل کرنے کی خواہش کرتے تو اسے بھی انجام دے پاتے“ (جی۔ ای۔ موور) ۔

زمانے کی حدیں ہمارے ممکنات کو محدود کر سکتی ہیں مگر فطرت ہمیں اختیار سے نہیں روکتی۔ ہماری ذات کا اظہار اپنے اختیار سے دنیا میں بدلاؤ لانے سے ہے مگر ہماری سوچ کی معراج اس حقیقت کے ادراک میں ہے جس میں فطرت کے اصول پنپتے ہیں۔ جس کا بہت بڑا حصہ ہماری خواہش کے تابع نہیں ہے۔ یہ حقیقت انسان کو سچ اور جھوٹ کی کسی تعریف پر قائل نہیں کرتی اور اس کے اس اختیار میں حائل نہیں ہوتی کہ وہ انسانی بنیادوں پر اپنے معاشرے کے لیے کیا بہتر سمجھنا چاہتا ہے۔ وہ یہ دعوی نہیں کرتی کہ انسان جو بھی سوچتا ہے یا کرتا ہے وہ غیر اہم ہے۔ وہ انسان کو دعوت دیتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس کے مزاج کو سمجھ سکتا ہے۔

اور اگر وہ کچھ سمجھنے سے قاصر ہے تو خود کو بے اختیار نہ سمجھے۔ اس کا خواہش کرنا ہی اس کے اختیار کی ضمانت ہے اور وقت بہت سے راز فاش کر دیتا ہے مگر وقت اس کے عمل (اس کی کوشش) کا منتظر رہتا ہے۔

اسد غفور
Latest posts by اسد غفور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments