مطیع اللہ جان: اغوا سے بازیابی تک کی کہانی مطیع اللہ کی زبانی


منگل کو اسلام آباد سے اغوا ہونے والے صحافی مطیع اللہ جان نے اس واقعے سے متعلق جمعرات کو اسلام آباد پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔ یہ بیان ریکارڈ کرانے کے بعد انھوں نے یوٹیوب پر اپنا ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انھیں منگل کو تقریباً گیارہ بجے اسلام آباد کے ایک سرکاری سکول کے باہر سے کچھ باوردی افراد نے زبردستی ان کی گاڑی سے گھسیٹ کر ویگو یا ڈبل کیبن گاڑی میں پھینکا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان افراد نے ان کی ’گردن دبوچ کر منہ نیچے کی طرف کر دیا اور زدوکوب کرنا شروع کر دیا‘۔ مطیع اللہ جان کے دعوے کے مطابق ’اغوا کار پولیس کی وردیاں پہنے چار سے پانچ گاڑیوں میں آئے، جن میں سے کچھ افراد مسلح تھے۔‘ ان کے مطابق انھوں نے اہلیہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنا موبائل سکول کے اندر پھینک دیا۔

مطیع اللہ جان نے دعویٰ کیا ہے کہ جب انھیں گاڑی میں زدوکوب کیا جا رہا تھا تو ساتھ پولیس کی وردی میں ملبوس وہ مسلح افراد یہ بھی کہتے تھے کہ ’تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو، تم صحافی ہو، تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو۔‘

مطیع اللہ جان کے دعوے کے مطابق انھیں ایک ایسی جگہ لے جایا گیا جو بظاہر کوئی پولیس سٹیشن معلوم ہوتی تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہاں انھیں جب ایک بار واش روم جانے کی اجازت ملی تو انھیں ’دیواروں پر پولیس کا خاص رنگ نظر آیا‘۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں سیمنٹ کے فرش پر لٹا کر زد وکوب کیا گیا اور وہ افراد انھیں ان کے بچوں کا نام لے کر دھمکیاں دیتے رہے۔

ان کے دعوے کے مطابق جب وہ چیختے چلاتے کہ انھیں سانس کا مسئلہ ہے تو پھر انھیں مزید زدوکوب کیا جاتا تھا اور منہ پر کس کے ٹیپ باندھ دی گئی، جس سے ان کا سانس گھٹنا شروع ہوا۔ مطیع اللہ جان کے مطابق انھیں پانی دیا جاتا تھا۔

صحافی مطیع اللہ جان کے مطابق انھوں نے اغوا کاروں کو ایک روز بعد (بدھ کو) ہونے والی سپریم کورٹ کی پیشی کا حوالہ بھی دیا لیکن انھوں نے صرف یہ کہا کہ ’تم سمجھدار ہو، اپنے آپ کو پڑھا لکھا سمجھتے ہو، ویسے تو بڑی بڑی باتیں کرتے ہو، پھر ہم سے پوچھتے ہو۔‘

مطیع اللہ جان کے دعوے کے مطابق اغوا کار صحیح پشتو نہیں بول رہے تھے۔ ان کے مطابق انھیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے انھیں پشاور یا افغانستان لے جایا جا رہا ہے۔

خوف سے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا

مطیع اللہ جان کے مطابق انھیں آخر میں ایک جگہ جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا اور ان کے سر پر زور سے کوئی چیز ماری گئی۔ مطیع اللہ جان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے تاثر دیا کہ جیسے وہ بیہوش ہو گئے تھے۔ اس وقت اغوا کاروں نے منہ پر پانی پھینکا تو ’میں نے آنکھیں کھولیں‘۔

مطیع اللہ کا کہنا ہے کہ انھیں خوف محسوس ہوا کہ اب انھیں قتل کر دیا جائے گا، ’میں نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا تھا۔‘ مطیع اللہ جان کے دعوے اس کے بعد اغواکاروں نے پشتو میں ان سے نام پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ صحافی مطیع اللہ جان ہیں۔

ان کے دعوے کے مطابق پھر ایک دوسرے اغوا کار نے پوچھا ’کیا آپ زرق خان نہیں ہیں‘، پھر اغوا کاروں نے کہا کہ یہ غلط بندہ ہے۔ مطیع اللہ جان کے مطابق اس وقت انھیں امید پیدا ہوئی کہ اب ان کی جان بخشی ہو جائے گی۔ مطیع اللہ کے مطابق انھوں نے قسم کھا کر کہا کہ وہ صحافی مطیع اللہ جان ہیں۔

صحافی مطیع اللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ انھیں اغوا کرنے والے وہی لوگ ہیں جو جمہوریت، آئین اور نظام کے مخالف ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو شروع دن سے آئین کے خلاف سازشیں کرتے آ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ صحافی مطیع اللہ جان نے تصدیق کی ہے کہ ان کا ویڈیو بیان نامکمل ہے جبکہ مکمل بیان پولیس اور مجسٹریٹ کے پاس ریکارڈ پر موجود ہے، جسے سپریم کورٹ کے سامنے بھی پیش کیا جائے گا۔

مطیع اللہ

پولیس کا موقف

اس مقدمے میں تفتیشی افسر اور آبپارہ پولیس کے ایڈیشنل ایس ایچ او نے بی بی سی کو بتایا کہ صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کی تفتیش مزید آگے بڑھائی جا رہی ہے۔

انھوں نے تصدیق کی ہے کہ مطیع اللہ جان نے اپنے بیان میں زدوکوب کیے جانے کے بارے میں بتایا ہے تاہم انھوں نے میڈیکل چیک اپ نہیں کرایا اور کہا کہ انھیں بظاہر کوئی چوٹ نہیں آئی ہے۔

تفتیشی افسر کے مطابق صحافی مطیع اللہ نے اس مقدمے میں کسی کو نامزد نہیں کیا ہے۔

تاہم پولیس افسر کے مطابق اس مقدمے کا سب سے اہم ثبوت ویڈیو ہے، جسے فرانزک کے لیے لاہور اور اس میں ملوث افراد کی شناخت کے لیے قومی شناختی ادارے نادرا کو بھیج دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp