جنوبی پنجاب سائنس و ٹیکنالوجی سے محروم کیوں؟


جنوبی پنجاب صوبہ پنجاب کاپسماندہ علاقہ ہے جو ہمیشہ سے محرومیوں کا شکار رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں اس خطے میں ترقی نہ ہو سکی۔ خطے کے ترقیاتی منصوبوں پر کوئی توجہ نہ دی گئی اور موجودہ دور میں بھی کچھ ایسا ہی نظرآتا ہے۔ خاص طور پر تعلیمی اصلاحات نافذ کرنے کے عمل کو خاطر میں نہ لایا گیا۔ پنجاب میں تعلیمی پالیسیاں بنائی جاتی رہی ہیں اور ان پالیسیوں کو اپر پنجاب اور وسطی پنجاب میں تو ترجیحی بنیادوں پر نافذ کیا گیا مگر جنوبی پنجاب میں اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یہ خطہ تعلیمی محرومیوں کا شکار ہے۔

ان محرومیوں میں سب سے بڑی محرومی سائنسی تعلیم سے محرومی ہے۔ پاکستان کی تعلیمی پالیسی میں سب سے اہم پالیسی سائنس اور ٹیکنا لوجی کو فروغ دینا ہے مگر بد قسمتی سے جنوبی پنجاب میں نہ تو سائنس کو فروغ مل سکا اور نہ ہی ٹیکنا لوجی کہیں نظر آتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے طالب علم کا عملی سائنس سے دوردور تک کوئی واسطہ نہیں کیونکہ طالب علم کو نہ تو عملی سائنس سے روشناس کرایا جاتا ہے اور نہ ہی اسے عملی سائنس کی سہولیات میسر ہیں۔

اس کی بڑی وجہ حکومت اور تعلیمی بورڈز اور اداروں کی عدم توجہی ہے۔ اگر لاہور اور اس کے مضافات کے تعلیمی اداروں پر نظر دوڑائیں تو سائنس نشوونما پاتی نظر آتی ہے۔ مگر جنوبی پنجاب سائنسی لحاظ سے بنجر نظر آتا ہے۔ اپر پنجاب اور وسطی پنجاب کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں نہ صرف تجرباتی سامان مہیا کیا جاتا ہے بلکہ عملی سائنس پڑھائی جاتی ہے اور طلباء کو تجربات کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سائنسی مقابلوں میں اپر پنجاب اور وسطی پنجاب کے طلبا صف اول میں نظر آتے ہیں۔

مگر جنوبی پنجاب کی طرف نظر دوڑائیں تو تعلیمی اداروں میں برائے نام تجربہ گاہیں نظر آتی ہیں۔ سرکاری اداروں میں تجربہ گاہ کے نام پر کمرے تو بنا دیے گئے ہیں مگر تجرباتی سامان ناپید ہے۔ جہاں تک نجی تعلیمی اداروں کی بات ہے تو سائنس لیبارٹریز ناپید ہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ یہ ادارے طلبا‎ء سے بھاری فیس تو وصول کرتے ہیں مگر انہوں نے طلباء کو عملی سائنس سے محروم رکھا ہوا ہے۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک عملی مضمون کو زبانی حد تک پڑھایا جا رہا ہے۔ سائنس یاد کرنے سے نہیں بلکہ عمل کرنے سے آتی ہے۔ جس سائنس کے لئے گلیلیو نے اپنی آنکھوں کی قربانی دی آج اس سائنس کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ آج اگر جابر بن حیان، بو علی سینا، الخوارزمی، آئن سٹائن اور نیوٹن موجود ہوتے تو سائنس کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر بلبلا اٹھتے۔

سائنس پر ظلم کی انتہا تو تعلیمی بورڈز نے کی ہے جنہوں نے خطے میں عملی سائنس کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں امتحان انشائیہ طرز اور ‎وائیوا کی حد تک لیا جاتا ہے اور عملی سا ئنس کا امتحان نہیں لیا جاتا جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں پر برا اثر پڑتا ہے اور عملی سائنس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ اس طرح کا تعلیمی نظام سائنسی بانجھ پن کا شکار ہے۔ عملی سائنس سے محروم یہ طلباء جب ملک کی نامور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو عملی سائنس میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

طلباء اپنی اس محرومی کو دورکرتے کرتے تعلیم تو مکمل کر لیتے ہیں لیکن عملی طور پر بہت کمزور ہوتے ہیں۔ ان محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے خطے میں عملی سائنس کی ترقی ضروری ہے۔ کیونکہ سائنس موحودہ دور کی اہم ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں انقلاب صرف اور صرف سائنس لا سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو اپنی ترقی اور خوشحالی کے لئے سائنسی انقلاب کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

جس مثبت سوچ کے ساتھ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں یونیورسٹی حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں عملی سائنس میں ایجادات کو فروغ دینے پر زور دیا اور پاکستان میں پہلی بار میڈیکل سامان کی تیاری میں کردار ادا کیا ہے اسی مثبت سوچ کے ساتھ انہیں جنوبی پنجاب میں سائنس کے فروغ کے لئے عملی کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ملکی ترقی کے لئے بہترین سائنسدان پیدا کیے جا سکیں۔ جنوبی پنجاب کی بیشتر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اگر ان نوجوانوں کی سائنسی محرومی کو ختم کیا جائے اور ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا جائے تو یہ نوجوان ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت وقت کو اس طرف توجہ دینا ہو گی تا کہ صحیح معنوں میں تبدیلی لائی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments