الٹی گنتی


وہ اپنی شادی کی اکیسویں سالگرہ منا رہی تھی۔ سب گھروالوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ کیک سامنے رکھا ہوا تھا۔ انتظار تھا تو بس اپنے بیس سالہ بیٹے اسید کا جو ان کے لیے تحفہ لینے گیا تھا۔ آج کا دن اس کے لیے بہت خاص تھا۔ اسے ہمیشہ سے یہی زندگی چاہیے تھی۔ وہ کامیاب تھی اور اتنا پیارا خاندان تھا اس کے پاس۔ وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اس دوران اسے اسید کے نمبر سے کال موصول ہوئی۔ خوشی خوشی کال اٹھائی ”ہیلو اسید بیٹا کہاں ہو تم یہاں سب تمھارا انتظار کر رہے ہیں“ ۔

”اسید نہیں پولیس انسپکٹر“ ۔ وہ جو کچھ کہہ رہا تھا اسے سن کر اس کے چہرے کا رنگ سفید ہو گیا۔ فون اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ اسے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو۔ ”ایسا نہیں ہو سکتا، میرے بیٹے کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا ’۔ اس کے ذہن میں کچھ برسوں پہلے کا منظر فلم کی طرح چلنا شروع ہو گیا۔ وہ سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے پہلی منزل پر موجود اپنے کمرے میں پہنچی۔ وہ شاید ہوش میں نہیں تھی۔ دوپٹے کا کوئی ہوش نہیں، جوتے شاید کہیں نیچے رہ گئے تھے اور کہنیوں سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا شاید کہیں سے رگڑ لگی تھی۔ وہ دیوانہ وار ڈائری میں موجود کوئی پرانا نمبر تلاش کر رہی تھی۔ کچھ کام کرنے سے ختم نہیں ہوتے وہ لوٹ کے آپ کو تنگ کرنے ضرور آتے ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

”فلم انڈسٹری میں آپ مزید کام نہیں کر سکتے“ ۔ ابرار صاحب نے سمیر کو باقاعدہ دھکا دیتے ہوئے کہا ”اور جو بھی فیصلہ ہوگا میں اسٹیج پر جا کر سنا رہا ہوں سن لینا“ ۔ ”پاکستان فلم اینڈ ڈراما ڈائریکٹر ایسویسی ایشن فلم ڈائریکٹر سمیر ارشد کا چند اخلاقی وجوہات کی بنا پر لائسنس کینسل کرتی ہے“ ۔ یہ سنتے ہی سمیر گھنٹوں کے بل زمین پر گر گیا اس کے سالوں کی محنت پر گویا پانی پھر گیا۔ وہ نوجوانوں کے دلوں کی آواز تھا۔

”پاکستان فلم انڈسٹری کو میں نے ڈوبتے میں سہارا دیا۔ جب سب ڈائریکٹر سستی محبت پر فلم بنا رہے تھے میں نے فلموں میں نئے موضوعات پیش کیے۔ میری بنائی ہوئی فلمیں آرٹ کا ایک بہترین نمونہ ہوتی ہیں۔ لوگ مجھے کہانیوں کا بادشاہ کہتے ہیں۔ اوریجنل اسکرپٹ لکھ کر میں نے اس ڈوبتی انڈسٹری کو سہارا دیا ہے۔ میں سمیر ارشد ہوں۔ میری فلموں کو نئی نسل کی آواز کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ کیا ہو گیا میرے ساتھ۔

میں نے اتنے سال دیے۔ اتنے برسوں کی محنت ایک غلط الزام اور سب ختم“ سمیر کی حالت اس شخص کی سی تھی جو پہلے خود کو کسی جان سے پیارے عزیز کی موت کا یقین دلاتا ہے اور پھر اس کی تدفین کی تیاری کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتاہے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس کا مختصر مگر کامیاب کرئیر ایک فلم کے کی طرح اس کے ذہن میں چلنا شروع ہو گیا۔

۔ ۔ ۔

یہ لڑکا بہت ٹیلنٹڈ ہے۔ کسی بدمزا اور بے جان کردار میں بھی یہ روح ڈال سکتا ہے۔ اس کے خیالات وسیع ہیں۔ اس کا اسٹائل الگ ہے۔ یہ عام ڈائریکٹرز سے ہٹ کر سوچتاہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اتنی کم عمری میں اتنی خوبصورتی سے کون ایسا کر سکتا ہے خاص کر تب جب کسی کو کوئی خاص تجربہ بھی نہ ہو۔ ”نیشنل کالج آف آرٹس میں ڈائریکشن کے سر اصغر نے سمیر کی بنائی ہوئی شارٹ فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔ اور اس کی بنائی گئی شارٹ فلم کو بیسٹ شارٹ فلم آف دا سیشن کا ایوارڈملا تھا۔

آڈیٹوریم کچھاکھچ بھرا ہوا تھاوہتمام لوگ فلم کے طالب علم تھے اور وہ اس کامیابی پر اسے سراہ رہے تھے۔ اس کا سیشن مکمل ہو چکا تھا۔ وہ دراصل دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور وہ یہاں نیشنل کالج آف آرٹس میں دو مہینے کی ورکشاپ لینے آیا تھا تاکہ وہ اپنی خوابوں کی دنیا یعنی کہ ڈائریکٹر بننے کی طرف پہلا قدم بڑھا سکے۔ کالج سے نکل کر ابھی وہ بہ مشکل اپنے گھر کے دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ اسے کال موصول ہوئی اور اس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہونا شروع ہوئے۔

”یس سر“ بالکل سر بالکل سر میں کل تک پہنچ جاؤں گا۔ ”وہ خوشی سے اچھل پڑا اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ کال فلم انڈسٹری کے مشہور ڈائریکٹر سلیم کامل کی تھی۔ وہ اس کا پسندیدہ ڈائریکٹر تھا۔“ میں اب دل لگا کے کام کروں گا ”اور اس نے یہی کیا۔ چند سالوں میں اس نے اپنا مقام حاصل کر لیا۔ بہت کچھ سیکھا۔ ایک کال ڈائریکٹ اور پھر وہ سلیم کامل کی موویز کا کچھ حصہ ڈائریکٹ کر لیتا تھا۔ وہ فلم شوٹ کا آخری دن تھا۔ سمیر ہاتھ میں کاغذوں کا پلندہ پکڑے بڑی بے چینی سے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔

جیسے ہی کٹ ہوا وہ فوراً دوڑ کے ڈائریکٹر کے کیبن میں گھس گیا اور فوراً جا کے سلیم کامل کے پاس بیٹھ گیا۔“ ارے سمیر یہ مکمل ہو گئی ”۔“ جی سر یہ پڑھیں ذرا ”یہ کیا ہے؟“ ”سر کیا ہے“ سر اسکرپٹ ہے ”“ اچھا بابا پڑھتا ہوں۔ ”سلیم نے کہا اور پڑھنا شروع کیا اور پڑھتے پڑھتے وہ کبھی سمیر کو دیکھتا کبھی اسکرپٹ کو۔“ ”کیا ہوا سر اچھا نہیں لگا“ سمیر نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ”نہیں یار بہت اچھا ہے کسں نے لکھا ہے؟“ ۔

”سر میں نے“ سلیم نے اچنبھے سے اسے دیکھا اور اس کی آنکھیں کھلتی چلی گئیں۔ ”سر آپ اس پر فلم بنائیں گے ناں۔“ ”میں نہیں تم تم اس پر فلم بناؤ گے۔“ ”میں کیسے سر“ ”تم نے میری آدھی آدھی موویز ڈائریکٹ کی ہیں اب تم مکمل تیار ہو اب تم اپنی لکھی ہوئی فلم خود بناؤ گے اور اس فلم کو پروڈیوس میں کروں گا۔ یہ اس کی اپنی لکھی ہوئی فلم تھی کرئیر کی شروعات تھی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ فلم انڈسٹری میں اسے تین سال مکمل ہو گئے تھے اور وہ انیس سال کی عمر میں اپنی پہلی فلم بنا رہا تھا جو اس سال کی سب سے بڑی ہٹ فلم بننے والی تھی۔

”معروف فلم ڈائریکٹر سمیر ارشد کو فلم ایسوسی ایشن کی طرف سے بین کر دیا گیا ہے۔“ نیوزکاسٹر چیخ چیخ کر اس کو موردالزام ٹھہرا رہی تھی۔ اس کا ذہن تیزی سے ماضی کی طرف دوڑنا شروع ہو گیا۔ ٹپ ٹپ بارش کی بوندیں اسے فلم سیٹ میں دھکیل رہی تھیں۔ برسات کا سین شوٹ کرنا تھا اور اداکارہ شمائلہ حمید اس سین کو ٹھیک طریقے سے نبھا نہیں پا رہی تھی۔ سمیر نے کوئی دس بار کٹ کر کے دوبارہ سین کو شوٹ کیا مگر ندارد وہ کوئی محنت کرنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔

وہ اداکارہ اپنے کرئیر کے زوال سے گزر رہی تھی۔ پانچ سال پہلے جب وہ فلم انڈسٹری میں آئی تھی تو اس کا کیرئیر شان دار طریقے سے اوپر گیا تھا اور اتنا اوپر گیا تھا کہ وہ سب سے زیادہ معاوضہ پانے والی اداکارہ بن گئی مگر وہ اس شہرت کو سنبھال نہیں پائی اور آہستہ آہستہ محض پانچ سالوں میں قصہ پارینہ بنتی جا رہی تھی۔ سمیر نے اس دن کا شوٹ ختم کیا اور غصے میں شمائلہ کو نکل جانے کا کہا۔ ”تم مجھے جانے کا کہہ کیسے سکتے ہو میں شمائلہ حمید ہوں اس ملک کی سب سے بڑی اداکارہ۔ کل تم خود آؤ گے مجھے لینے یاد رکھنا۔“

”محترمہ اس سیٹ پر آپ کا کوئی کام نہیں یا تو یہاں آپ رہیں گی یا میں“ سمیر شدید غصے میں تھا اس نے اپنے غصے پر قابو رکھتے ہوئے مزید کہا ”میں اپنے فن کا مذاق نہیں بنوا سکتا اور میڈم آپ شاید اپنے فن کو داغدار کر رہی ہیں۔“

”وہ کل کا ڈائریکٹر مجھے مووی سے نکالے گا دیکھ لینا پروڈیوسر اسے نکال دے گا لودیکھو آ گئی پروڈیوسر کی کال“ شمائلہ نے تنفر سے کہا ”جی صدیقی صاحب اس ڈائریکٹر کو فلم سے نکالیں“ دوسری طرف سے جو کہا گیا تو شمائلہ کو چکر سے آ گئے اس کا سانس بند ہونے لگا فون اس کے ہاتھ سے گر گیا۔ ”کیا ہوا شمائلہ“ اس کی امی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا ”امی میں برباد ہو گئی میری فلم مجھ سے چلی گئی سب ختم ہو گیا“ شمائلہ کا دکھ کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا ”بیٹا میں نے کہا تھا ناں کہ غرور فن کو کھا لیتا ہے مگر تم کسی صورت نہیں مانیں اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ۔

“ اس کی امی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ”نہیں امی میرا کام اس سمیر نے خراب کیا ہے اب میں بھی اس کا کرئیر برباد کرتی ہوں۔“ شمائلہ نے آنسو پونچھتے ہوئے میڈیا کو کال کی اور چند ہی منٹوں میں اس کے گھر لان میں میڈیا کے نمائندوں کا جھمگھٹا لگا ہوا تھا۔ ”سمیر ارشد نے مجھے جنسی ہراسگی کا نشانہ بنایا اور منع کرنے اور روکنے پر مجھے فلم سے باہر کر دیا۔

”سر آپ جانتے ہیں مجھے میں ایسا کبھی کر ہی نہیں سکتا میں عورتوں کا بہت احترام کرتا ہوں“ سمیر نے بہتیرا سمجھایا منت سماجت کی۔ ”درندہ بننے میں ٹائم تھوڑی لگتا ہے کیا پتا تم بھی بن گئے ہو۔“ سمیر زمین پر ڈھے گیا اس کا دماغ ماؤف ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے اس قوم کو اس ملک کو اپنا خون پسینہ دیا۔ اپنا بہترین کام دیا۔ اس کی فلمیں بہت اچھی رہیں۔ اتنے سال محنت کی تب کچھ نہیں مگر ایک الزام اور لوگ سب بھول گئے۔ اب سے میں اس ملک کو کچھ نہیں دوں گا۔ شمائلہ تم کسی شخص سے طاقت ور ہو سکتی ہو مگر میرے رب سے نہیں۔ میں نے اپنا کیس اللہ کے سپرد کیا اور بے شک اس سے بہتر انصاف کرنے والا کوئی نہیں۔ سمیر ارشد امریکہ چلا گیا اس کے بعد اسے کسی نے نہیں دیکھا۔

بیس سال بعد شمائلہ حمید اپنے بیٹے کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے پریس کانفرنس کر رہی تھی۔ ایسی ہی ایک پریس کانفرنس اس نے بیس سال پہلے کی تھی جس میں اس نے سمیر ارشد کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا مگر اب اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ سمیر ارشد بے گناہ تھا میں نے اس کو بے وجہ بدنام کیا۔ بیس سال پہلے شمائلہ نے شطرنج کی جو چال چلی وہ اس پر بھاری پڑ گئی اور وہ چیک میٹ ہو گئی۔ سمیر کو انصاف ملا اور بیس سال بعد وہ اس جرم کے الزام سے بری ہوا جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں تھا۔

احمد رضا خان کھوسو
Latest posts by احمد رضا خان کھوسو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments