کپتان: اس وقت مجھے بھٹکا دینا، جب سامنے منزل آ جائے


اس وقت پاکستان کی سیاست کو کم اور پاکستان میں رائج جمہوریت کو زیادہ خطرات نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے اپوزیشن کے تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان سے ملک چلایا نہیں جا رہا ۔ دوسری طرف عمران خان اپوزیشن سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان کا ایک مسئلہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں بہت ہی تنہا ہے۔ یہ بات بہت پرانی ہے۔ اکلوتے بیٹے اور اکیلے بھائی کی حیثیت  میں عمران خان اکیلا ہی رہا۔

پھر والدہ کی علالت میں بھی عمران کو اپنی بے چارگی کا بہت ہی احساس رہا اور اس ہی وجہ سے کپتان عمران خان نے اس بیماری کے علاج کے لیے ایک بڑا ہسپتال بنایا اور اصل حقیقت یہ ہے جب اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہسپتال کا منصوبہ سوچا تو اس کو زیادہ حمایت نہ ملی۔ اسی کے اپنے کردار اور عالمی حیثیت میں ناموری کی وجہ سے ہسپتال کے لیے پلاٹ اس وقت کی سرکار نے دیا اور ان کو یقین تھا کہ یہ کام عمران خان کے لیے ممکن نہ ہوگا۔

کپتان عمران خان جانب منزل اکیلا ہی چلا۔ پہلے اس کے ساتھ کچھ ہی لوگ تھے۔ اس نے اس ہسپتال میں اپنی ساری بچت اور آمدنی لگا دی۔ عمران خان نے بیرون ملک تارکین سے رابطہ کیا اور اس کو کمال کی امداد ملی۔ عمران خان کو حوصلہ ملا اور عوام میں اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ہسپتال کی تعمیر کے سلسلہ میں اس کے تجربات حیران کن تھے۔ اس کو سرکاری قوانین کے سلسلہ میں مشکلات کا سامنا رہا اور اس نے قوانین کا احترام کرنے میں پوری کوشش کی۔

اس کے غیرسرکاری دوستوں نے اس کی مدد کی اور وہ کٹھن حالات کے باوجود ہسپتال کو بنانے اور چلانے میں کامیاب ہوا اور اس کو حوصلہ ملا کہ وہ کچھ کر سکتا ہے۔ اس کو اندازہ ہوا کہ ملک کے اندر کرپشن کی وجہ سے ترقی ممکن نہیں اور عوام کی حالت بدلنے سے رہی اور عمران خان نے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ جس کا بنیادی مقصد ”انصاف سب کے لیے اور آسانی کے ساتھ“ تھا۔ تقریباً 22 سال کی محنت و مشقت کے بعد عمران خان مخلوط حکومت کے وزیراعظم بن گئے اور دو سال مکمل کر لیے مگر ان کے پاس اختیارات کی کمی ہے۔

اسمبلی میں ان کی اکثریت واجبی سی ہے اور اتنا اختیار بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی قانون بھی بنوا سکیں اور آئین میں عوام کے مفاد میں کوئی ترمیم بھی لا سکیں۔ بظاہر تو ان کے ہمارے عسکری حلقوں سے تعلقات بہت اچھے نظر آتے ہیں اور ہماری اپوزیشن پارٹیاں بھی حیران کن طریقہ سے عسکری حلقوں کے بہت ہی نزدیک ہیں اور اس ہی وجہ سے اپوزیشن کے لیڈروں کو مراعات ملتی نظر آتی ہیں۔ ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات کے باوجود ان کو رعایتی سہولتوں سے نوازا جا رہا ہے اور آپ کے سامنے ہے۔

دوسری طرف ہماری اعلیٰ عدالت سرکاری معاملات میں بدانتظامی کے بعد عوام اور قانون کے تحفظ کے لیے ایسے ریمارکس دیتی نظر آتی ہے جس سے سرکار کی سبکی ہوتی ہے۔ مگر سرکار بھی اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عمران خان کی ٹیم ان کی مرضی کے مطابق کھیلتی نظر نہیں آتی۔ ایک تو میڈیا کے حوالہ سے عمران خان کی ٹیم بڑی بے بس نظر آتی ہے۔ آئے دن ان کی اپنی صفائی دیتی اور نت نئے تجربوں کی کاوش ہی ان کو پریشان رکھتی ہے۔

پہلے چینی کے سیکنڈل میں رپورٹ پبلک کی گئی۔ بڑا اچھا اقدام تھا مگر حاصل کیا ہوا اور کیا کسی کو نامزد کیا جا سکا؟ قیمت اب بھی چینی کے سوداگر ہی طے کرتے ہیں اور ریاست بے بسی کی تصویر ہے اور فیصلہ کرنا مشکل لگ رہا ہے۔ پھر پٹرول کے معاملہ میں جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس کے بارے میں سب کچھ غیر شفاف ہے۔ اب تازہ ترین معاملہ مشیروں کا ہے۔ جن میں سے اکثر لوگ دو ملکوں کی شہریت کے حامل ہیں۔ یہ بات قابل فکر نہیں۔

وہ بھی محب وطن لوگ ہیں اور ان کے اثاثے بھی ایسے نہیں کہ ان پر انگلی اٹھائی جاسکے۔ مگر میڈیا نے دوہری شہریت پر سوال اٹھا دیا۔ سرکار جواب دینے میں شرما رہی ہے۔ اس سے تارکین وطن بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ہاں مشیروں کے اثاثوں میں چند لوگ ایسے ہیں جو قابل فکر ہیں ان کی صفائی ریاست کو نہیں بلکہ اس مشیر کو دینی بنتی ہے۔ عمران خان اس ساری صورت حال میں مکمل طور پر تنہا نظر آرہے ہیں۔ ان کی کابینہ میں کوئی ایسی تبدیلی نظر نہیں آتی جو عوامی معاملات میں عوامی مفادات کا تحفظ کرتی نظر آتی ہو۔

عمران خان کو شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ کرکٹ کی ٹیم اور سیاست کی ٹیم بالکل ایک جیسی ہے سب لوگ اپنے لیے اور اپنی مرضی سے کھیل رہے ہیں اور سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عمران خان کو مایوسی کا سامنا ہے۔ پھر ہمارے سیاسی لوگ اور سماجی اشرافیہ سرکار کو کوئی اچھی تجویز دیتے نظر نہیں آتے اور جناب بلاول بھٹو زرداری کی خوش کلامی اور نزاکت کا محور صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ عمران خان کو جانا ہوگا۔

بھائی ان سے کوئی پوچھے ان کو آپ سب مل کر بھی نکالنے کا ووٹ بینک بنا نہیں سکے۔ آئے دن سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی رہتی ہے اور اوپر سے مسلم لیگ نواز کے دوست تقسیم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کو سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کا بالکل احساس نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے سارے سیاسی نیتا ایک ہی بات کر رہے ہیں۔ عوام کا دم گھٹ رہا ہے مگر عوام میں ایسا کوئی تاثر نظر نہیں آتا، وبا کی کیفیت کے باوجود ہمارے عوام کا کچھ نہیں بدلا۔ ان کی کیفیت کا حال احوال میڈیا میں ہی زیادہ نظر آتا ہے۔

ورنہ پٹرول سستا ہوا تو عوام میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی۔ بلکہ پٹرول کی کھپت میں کمی ہی نظر آئی۔ مہنگائی کا گراف بھی اوپر زیادہ اور نیچے آتا کم ہی نظر آیا۔ سب سے زیادہ شور ہمارے سیاسی لوگ ہی کرتے نظر آرہے ہیں اور اب اس شور میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے بعد باقاعدہ بین شروع ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے کمال کا انصاف کیا ہے۔ نیب کے کردار پر جو سوال اٹھائے گئے ہیں ان کا جواب سرکار تو نہیں دے سکتی۔

نیب ایک خودمختار ادارہ ہے۔ اس کے چیئرمین بھی سابقہ حکومتوں کی باہمی مشاورت سے لگائے گئے تھے اور وہ بھی سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں اور ان کو انصاف اور قانون کے بارے میں کوئی غلط فہمی بھی نہیں ہے۔

پاکستان میں اندرون ملک سیاسی خلفشار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ کرپشن کے معاملات پر من حیث القوم ہمارا رویہ بالکل اچھا نہیں ہے۔ کرپشن کا ناسور قانون اور انصاف کو مفلوج کرتا جا رہا ہے۔ ایسے میں عمران خان کیا کرے۔ وبا کے دنوں کے بعد دنیا اور ملک بدلتے جا رہے ہیں۔

ایک طرف حاضر سرکار بہت سارے ایسے اقدامات کر رہی ہے جو ہماری معیشت کے لیے ضروری اور اہم ہیں مگر دوسری طرف گزشتہ حکومتوں کے معاہدے ہماری معیشت میں مسلسل گراوٹ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ابھی بھی اہم ادارے معافی اور تلافی کو مشکلات حل بتا رہے ہیں۔ مگر ہماری سیاسی اشرافیہ جس میں اہم سابق صوبے دار پنجاب میاں شہباز شریف، سابق صدر آصف زرداری کے سپوت بلاول علی زرداری بھٹو ایک دوسرے کے مقابل آتے جا رہے ہیں۔ وہ خودغرضی کے سمندر میں دوست بن رہے ہیں۔

خود غرض بنا دیتی ہے شدت کی طلب بھی
پیاسے کو کوئی دوسرا پیاسا نہیں لگتا
تبدیلی کا نعرہ اب بدل کر بدلنے کی سیاست میں آ چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں نظام کو بدلنے کی پرامن کوشش زیادہ بار آور نظر نہیں آ رہی اور خطرہ کا احساس صرف میڈیا کو ہی کیوں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments