بچوں کےلیے وقت ہے؟


\"sarwat-khan\"

ہر سال یوم والدین بھی آتے ہیں، یعنی ماں اور باپ سے اظہار محبت کے دن، ماں کی عظمت کو سلا م پیش کرنے کے لیے دن مخصوص ہے تو باپ جیسے گھنا سایہ دار درخت جس کی چھاوں میں زندگی کی کڑی دھوپ کی تپش محسوس نہیں ہوتی۔ ان دو کرداروں کی ڈھال اولاد کے سروں پر تحفظ کی مانند تنی رہتی ہے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جو ہمارے دلوں میں بستی ہیں۔ دل میں بسنے والوں کےلیے احساس کو الفاظ اور جذبات کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہم اولاد، ہم بچے، ہم نئی نسل، ان کے دنوں کو، ان تہواروں کو منانا جانتی ہیں۔ پھول، کیک، کارڈ، ڈنر اور تحفے میں پرفیوم یا پسندیدہ رنگ کے لباس کی صورت میں، ایک رسمی سے جملے کے ساتھ، گویا دور تیزی کا چل پڑا لیکن میں مانتی ہوں، رسم دنیا ہی سہی، ہماری نسل، ہمارے بچے تہذیب یافتہ اور باشعور ہیں۔ رسموں کو خوب لے کر چل رہے ہیں لیکن کیا ایسا تو نہیں کہ ہم ان ہستیوں کو ”وش“ کرنے کے ”بڑے فرض“ کی ادائیگی کے بعد بقیہ کا سال اپنی دنیا میں گم ہوجاتے ہیں؟اگر ایسا ہے بھی، تو ماں باپ کی زبان پر شکوہ تک نہیں آتے، دینے کو دعائیں ہوتی ہیں۔ ماتھے پرناراضگی سے شکن نہیں آتی، گھر دیر سے لوٹنے کی فکر بل ضرور پڑجاتے ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو اپنی دھن کی لگن میں مگن انھیں وقت نہیں دے پا رہے۔ ہم جیسی مصروف ترین ہستی یعنی ” اولاد“ کا عالمی دن منایا گیا۔ ہمارا دن یعنی ”بچوں“ کا دن۔ ہم وہ ہیں جن کے دم سے ہمارے گھروں کے آنگن مہک رہے ہیں اور یہ مہک، یہ احساس ہمارے والدین کے لیے آکسیجن کا کام کررہی ہے۔

بچے، جن کے ذکر کے بغیر زندگی کا تصور نامکمل ہے، جن کے احساس کے بغیرکسی خاندان کی تصویر نا مکمل ہے۔ ان کی موجودگی سے مکان گھر کی صورت لگتا ہے، ان کی آوازیں شور نہیں زندگی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کے لاجواب کرنے والے سوال کبھی بے مقصد نہیں ہوتے۔ ان کے جواب کبھی کسی نئے زاویہ فکر سے عاری نہیں ہوتے۔ بچے، ہماری اگلی نسل کے نگہبان، ہمارے اگلےحکمران، ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ کیا ہم اس اثاثے کی صحیح طرح نگہبانی کررہے ہیں؟ کل صبح معمول کے مطابق گھر سے دفتر کے لیے نکلنا ہوا، سگنل پر گاڑی کا رکنا معمول کی بات ہے۔ یک دم لپک کر سب سے پہلے گاڑی کے شیشے کی طرف آنے والا ایک بچہ تھا۔ ہاتھ میں وائیپر، کندھے پر میلی سی جھاڑن ڈالے، گاڑی کی ونڈ اسکرین رگڑنے لگا۔ پیسے بھی نہ لیے اور اگلی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ اگلے سگنل پر گاڑی رکی تو پھولوں کے کنگن تھامے کم عمر لڑکا میری طرف متمنی نظروں سے دیکھنے لگا۔ یہ فطری عمل ہے کہ جب کبھی ایسی صورت حال میں گاڑی رکتی ہے، میری نظریں بچوں کو تلاش کرنے لگتی ہیں، اس امید پر کہ ان کی تعداد میں کمی واقع ہوئی یا نہیں؟ ایسے بچو ں سے خریداری ان کی حوصلہ افزائی ضرور ہے لیکن یہ ان کے مسائل کا مستقل حل ہر گزنہیں ہے۔ ہم میں سے روز سیکڑوں افراد صبح شام ان ہی مناظر کو بار بار اپنے ذہن کی اسکرین سے گذرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ ہماری گذرتی گاڑی کے پیچھے یہ یوں بھاگتے ہیں جیسے اپنے اچھے مستقبل کی امید انھیں ہماری جانب کھینچ رہی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بچے اپنے ممکنہ تاریک مستقبل سے فرار اختیار کرنا چاہتے ہوں۔ کیا کبھی یہ منظر بدلے گا؟ یا ان راہوں کے مسافر کی طرح، یا یہ کردار بھی چہرے بدل بدل کر روز ہم سے یوں ہی ٹکراتے رہیں گے؟

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 13 لاکھ بچے ”اسٹریٹ چلڈرن“ کہلاتے ہیں، یعنی وہ بچے جو حکومتی عدم توجہی، معاشرتی رویوں یا گھریلو ناچاقیوں کے با عث سڑکوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب یہ عدم توجہی کیا ہے؟ والدین کی حیثیت سے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے بچے کے ذہنی اورجذباتی مسائل کیا ہیں؟ ہمارے بچوں کے رویے روز بروز پیچیدہ اور منفی رجحانات کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ اچانک اور بلاوجہ تو نہیں ہوتا۔ کسی مشکل سے دوچار بچہ سب سے پہلے اپنے والدین کی طرف دیکھتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ایسے میں وہ اسے نہ صرف سنیں بلکہ اس کی کہی ہوئی بات کو اتنی ہی اہمیت بھی دیں۔ والدین کی توجہ اور سلوک ایسا ہو کہ بچہ گھر کے حصار میں خود کو محفوظ تصور کرسکے۔ کسی کہانی کے جادوئی کردار کی طرح اس کے مسئلے کو حل کریں، اسے اپنے جواب سے مطمین کریں۔ یاد رکھیے، محبت اور شفقت کی بھوک ہمیشہ بچوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ انہیں حقیقی محبت اور شفقت ملنی چاہیے اسی سے ان کے ننھے ذہن نشوونما پاتے ہیں۔ ان کا ذہنی ارتقاء درست سمت میں ہونا چاہیے۔ بچے کو ایک طرف محبت کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کی شخصیت احترام بھی چاہتی ہے۔

عام مشاہدہ ہے کہ کسی بھی ماحول میں خود کو غیر محفوظ تصور کرنے والا بچہ، دنیا بھی چھوڑنے کا فیصلہ با آسانی کرلیتا ہے۔ پہلے اسکول، اور پھر گھر کے ماحول سے فرار اختیار کرنے کا رجحان زور پکڑتا جا رہا ہے۔ پاکستانی کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی جانب سے بچوں پر بدترین تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور سندھ میں پیش آنے والے حالیہ واقعے میں نجی کیڈٹ کالج کا طالب علم استاد کے بدترین تشدد سے ہمیشہ کےلیے معذور ہوگیا۔ ایک ہونہار طالب علم احمد حسین کی جان پر بن آئی۔ یہی حال ہمارے کئی تعلیمی اداروں کا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو کیوں قصور وار ٹہرائیں، اساتذہ اپنے اندر کی کون سی گرمی ان معصوم طلباء پر نکالنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں؟ یہ معمہ سمجھ سے باہر ہے۔ تو پھر کیوں نہ بھاگیں ہمارے بچے اس ماحول سے جہاں علم کی آڑ میں جہالت کی مثالیں فروغ پا رہی ہیں۔ 14 سالہ طالب علم محمد احمد کو استاد نے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جس کے باعث طالب علم کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ ذہنی صلاحیت سے بھی محروم ہوگیا۔ واضح رہے کہ اس بار بچوں کے عالمی دن کا عنوان ”بچوں پر تشدد کو روکنا“ ہے۔

پاکستان میں نہ تو بچوں کی جسمانی صحت قابل فخر ہے اور نہ ہی ان کے حقوق سے متعلق سماجی آگہی موجود ہے۔ ملک میں بہت سے بچے تو ایسے بھی ہیں جنہیں تعلیم اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔ ہماری نئی پود سائنس و ٹیکنا لوجی، آئی ٹی سمیت دور جدید کے اہم تقاضوں سے پوری طرح واقف ہے۔ دنیا میں کسی بھی قوم سے پیچھے نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہےکہ ان بچوں کے ہا تھو ں سے گجرے، اخبار، غبارے، بوٹ پالش کے برش، اوزار، کچرے کے تھیلے اور کشکول لے کر انھیں کتابیں تھما دی جائیں تو یہ بچے بھی میرے اور آپ کے بچوں کی طرح کتابوں کے بستے تھامے تعلیمی اداروں کے راستے پر نظر آئیں۔ پھر ان کو با مقصد منزل سے کبھی بھی کوئی بھٹکا نہیں سکے گا۔ پاکستان کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے یہی بچے جنہوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، اس وقت بہت سارے مسائل سے نبردآزما ہیں، مگر ان سارے مسائل میں پاکستان میں بچوں پر بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔ پاکستا ن میں بچے جنسی تشدد، زیادتی اور قتل جیسے گھناونے فعل سے گذر رہے ہیں۔ بھیک اور اسٹریٹ کرائم میں بچوں کا استعمال عام بات ہے۔ کم عمر بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنا، زیادتی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال 2013 کی نسبت 2014 میں ان واقعات میں17 فیصد اضافہ ہوا۔

اگر ان واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملوث افراد میں زیادہ تر وہ تھے، جو کہ بچوں سے واقفیت رکھتے تھے۔ اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ قریبی تعلقات رکھنے والے افراد ہی بچوں کا سب سے زیادہ استحصال کرتے ہیں۔

جبکہ 2015 میں بچوں پر جنسی تشدد کے کل واقعات ساڑھے تین ہزار سے زائد ریکارڈ ہوئے۔ ان بچو ں کی عمریں 11 سے 15 سال کے درمیان تھیں۔ رپورٹ کے مطابق مجرمان میں 1200 کے قریب اجنبی افراد جبکہ ڈیڑھ سو افراد ایسے تھے جو بچے کے رشتے درار یا پڑوسیوں میں سے تھے۔ ہمارے مدرسوں کے مولوی، اسکولوں کے اساتذہ اور پولیس اہل کار بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں۔ رواں سال اس دن کا عنوان ’بچوں پر تشدد کو روکنا ہے‘۔ اور ہم ان کے جسم کے ساتھ ان کی روح بھی چھلنی کررہے ہیں۔ اپنے ہی چمن کی ڈالیوں پر لگے پھولوں کو روز مسلتے ہوئے دیکھںا، کیا یہ ہماری بے حسی کی انتہا نہیں؟

کیا ایک جمہوری معاشرہ اپنے وطن کے مستقبل کے حال کو محفوظ نہیں بنا سکتا؟ کیا اس کےلیے کی جانے والی قانون سازی مسئلہ کشمیر سے بھی گمبھیر ہے؟ خدارا، ہوش کیجئے، ہمارے کم سن بچوں کی لاشیں ندی نالوں سے مل رہی ہیں۔ معاشرتی ناہمواروں، قدرت آفات ایک طرف، والدین کی روک ٹوک اور عدم توجہی، اساتذہ کی مار پیٹ ہمارے بچوں میں نامحرومیوں کو جنم دے رہی ہے۔ وہ گھر سے نہیں زندگی سے بھاگ رہے ہیں۔ ہمارے بچوں کو اگر معیاری تعلیم، تہذیب یافتہ معاشرہ، عزت و جان کا تحفظ، کھیل و تفریح کے مناسب مواقع میسر آجائیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہ ستارے دنیا کے فلک پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکیں گے۔

سچ پوچھئے تو خوشبو بھی چبھنے لگی مجھے
دیکھا جو میں نے پھول کو پھول بیچتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments