حالات کا کل ملا کر فٹے منہ ہی ہے


دو سال بعد آج کپتان کے قریبی قسمیہ کہتے ہیں کہ اسے کلبھوشن آرڈیننس کا پتہ نہیں تھا۔ پتہ کر کے بھی کیا کرنا تھا۔ وزیر اعظم بننا تھا بن گیا۔ بچپن کا شوق پورا ہو گیا۔
اس کے لیے کنٹینر گپ کام آئی کرسی پر پہنچ کر فٹ ہو گیا۔

اکانومی کا سائز اربوں ڈالر میں سکڑ کر رہ گیا ہے۔ دو ہزار سترہ سے موازنہ کریں تو پچاس ارب ڈالر کم ہوا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ سے حساب لگائیں تو تیس ارب ڈالر کا فرق پڑا ہے۔ فی کس آمدنی میں سو ڈالر کی کمی آئی ہے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر اسے انڈیا نے اپنا حصہ بنا لیا، کپتان نے اس پر اک تقریر کر دی۔
کرونا خدائی مدد کی طرح آیا ہے ہر نا اہلی اس پر ڈال کر فارغ ہوا جا سکتا ہے اور ہو بھی رہے ہیں۔

ترین جیسے اپنے قریبی ساتھیوں کو کپتان ڈِچ کر کے فارغ کر چکا ہے۔ لوٹے پر لوٹا رکھ کے حکومت بنائی تھی۔ ہر سیاسی پارٹی سے کچرا اکٹھا کیا تھا۔ حکومت چلانے کے لیے مشیر لانے پڑے۔
یہ مشیر خیر سے سارے ہی بارلے (باہر والے) ہیں۔ نیشنلٹی ریزیڈنسی ان کی امریکی کینیڈوی ہے، حکومت یہ پاکستان میں کھڑکا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر سے ان پر لعن طعن ہو رہی ہے لیکن کسے پروا ہے؟

سب سے اہم مشیر بخارے شاہ صاحب ہیں۔ ان کو منفرد اعزاز حاصل ہے کہ دو دوست ملکوں میں سرکاری اجلاسوں سے انہیں کان سے پکڑ کر نکالا گیا۔ موصوف اپنی لندن والی جائیداد بیچنے کے چکر میں وٹس ایپ پر اس کی ویڈیو اور فوٹو دکھانے پر تلے ہوئے تھے۔
میزبانوں کو سفارتی آداب اک طرف رکھ کے ڈنڈا اٹھانا پڑا۔

کہتے ہیں اک جگہ وزیراعظم کو معذرت تک کرنا پڑی۔ بھائی صاحب اب تک مشیر ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اب ٹرمپ کے داماد کو روزویلٹ ہوٹل عطیہ کرانے کے درپے ہیں۔
کنٹینر پر اک گیت جو سب سے زیادہ گایا جاتا تھا۔ جن کے بچے باہر جن کی جائیدادیں باہر جن کے کاروبار باہر وہ پاکستان کا مفاد کیا دیکھیں گے۔

اب یہی گیت دوست سفارتکار گاتے سنائی دیتے ہیں۔ جن کا سب کچھ باہر وہ پاکستان اور سی پیک کیا دیکھیں گے۔ وہ انہی کا خیال کریں گے جہاں ان کے بچوں کے کاروبار ہیں۔

سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کے لیے اک نیا بل لانے کی کوشش ہوتی ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کا بابو بے چین ہو کر اس بل کی مخالفت کرتا ہے۔ خبر چھپتی ہے پھر سائٹ سے ہٹانی پڑتی ہے۔ بل بھی کھو کھاتے گیا۔
البتہ خاطر تواضع بل پاس ہونے والی کرا لی گئی ہے۔

سارے الٹے کام صرف کپتان ہی کرے یہ بھی کوئی آسمانی قانون نہیں ہے۔ اپوزیشن میں بھی رنگ رنگ کا کلاکار موجود ہے۔ اکثر وزیراعظم بننے کا امب کیچ کر لیتے ہیں وہ چوپنے (چوسنے) بھی لگ جاتے ہیں۔

ایسے ہی اک حضرت کو یہ امب ملا تو اچھالتے ہوئے لندن پہنچ کر بتایا کہ میاں صاحب میں وزیر اعظم بن کر انقلاب لے آؤں؟ ان سے یہ پوچھا گیا کہ انقلاب تو لے آنا تم سے بڑا انقلاب تو عباسی کو آفر ہوا تھا اس نے تو بتانے تک کی زحمت نہیں کی۔ اس آفر کو اس قابل نہیں سمجھا۔ تم دوڑتے ہوئے ادھر پہنچ گئے۔

اب وہ انکل بھی اپنی کرا ورا کر واپس پہنچ چکے ہیں کہتے پھر رہے ہیں کہ ان ہاؤس تبدیلی نہیں آئے گی، الیکشن کراؤ۔

سچی بات یہ ہے کہ اپنے ملک اپنے لوگوں کے ساتھ اپنے ساتھ کوئی یہ نہیں کرتا جو ہم نے کیا، جو ہماری حکومت نے کیا جو ہماری اپوزیشن نے کیا جو ہماری سرکار نے کیا جو سب کر رہے ہیں۔

حکومت کا خیال ہے کہ وہ سب کو چپ کرا کر دبا کے ہی منوا لے گی کہ ہم اک عظیم ملک ہیں۔ بس مانگنے وانگنے کی تو ہمیں بیماری ہے۔ تو یہ غلط ہے ایسا نہیں ہو گا۔
اپوزیشن کا خیال ہے کہ ان کی چپ لگے گی اس حکومت کو۔ یہ گونگی بدمعاشی ان کو دوبارہ تخت دلوا دے گی۔ تو ہونا یہ بھی نہیں۔ جب آپ لوگوں کے دکھ کو زبان نہیں دے سکتے۔

تو لوگ بھی پھر آپ کو ہنس کر ہی دکھائیں گے نہیں یقین تو موقع آنے پر آزما کر دیکھ لیں۔
ویسے حالات حکومت اپوزیشن لوگ اور محنت خیال کا حساب کتاب لگائیں تو کل ملا کر فٹے منہ ہی ہے۔
یہ سب ایسے ہی چلے گا ٹینشن نہیں لینی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments