احتساب پر تحفظات اور میڈیا کا کردار


خواجہ برادرا ن کی ضما نت کے مقدمے میں عدالت عظمی نے احتساب ادارے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے، انہیں پڑھ کر ہماری یہ کیفیت ہے کہ۔ حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ سنا تھا کہ جج نہیں بلکہ فیصلے بولتے ہیں لیکن یہاں تو لگتا ہے کہ بولتی بند کردی گئی ہے۔

غالب نے کہا تھا کہ ہوتا ہے شب و روز تماشا مر ے آگے لیکن اس کی عملی تصویر تو آج کل خوب نظر آ رہی ہے۔ الحمد اللہ ہم کبھی بھی قانون کے طالب علم نہیں رہے کیونکہ مشاہدہ کہتا ہے کہ جتنی بے توقیری قانون دان نے قانون کی کی ہے اس کا تصور تو عام آدمی کر ہی نہیں سکتا۔ ۔ ۔ دیکھئے ناں کیسی عجیب صورت حال ہے۔ احتساب والے بڑی عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے بد عنوانی میں ملوث افراد کا کچا چٹھا جمع کرتے ہیں۔ ہزاروں دستاویزات بنکوں کے چیک اور رسیدیں ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی ایک اکاونٹ سے دوسرے اکاونٹ میں منتقلی جن غریب دہی بھلے والوں، قلچو ں والوں اور فالودو ں والوں کے اکاؤنٹس سے اربو ں روپے نکلتے ہیں ان غریبوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب دولت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی، پیسہ کہاں سے آیا، کہاں گیا، کدھر سے آیا کدھر گیا وہ اور پھر احتساب والے اپنی تمام تر تحقیقات مع ثبوتوں کے ٹی وی چینلوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔

اور اپنے تئیں صحافی کہلانے والے ٹی وی اینکر سرشام ان دستاویزات کو فضا میں لہراتے ہوئے ایک طوفان برپا کر دیتے ہیں۔ پگڑیاں اچھالنے کا محاورہ تو خاصہ پرانا ہو گیا ہے۔ یہ اینکر حضرات بندے کو پگڑی سمیت مینار پاکستان سے دھکا دے دیتے ہیں۔ قوم و ملت کو خوش خبری سنائی جاتی ہے کہ چور ڈاکو، رہزن اور لٹیرے قابو آ گئے۔ اربوں روپے کی وصولی ہوگی اور ملک خوش حالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

ہم اپنی کج فہمی پر ہمیشہ شرمندہ شرمندہ رہتے ہیں۔ اور یہ سمجھنے سے قاصر بھی کہ احتساب کا ادارہ جو تحقیقات کرتا ہے۔ اور بدعنوانی سے متعلق جو دستاویزی ثبوت اکٹھے کرتا ہے اسے عدالت کے روبرو پیش کرنے کی بجائے ٹی وی چینلوں کو مہیا کرنے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔

ہم یہ گستاخی تو نہیں کر سکتے کہ بندر کے ہاتھ میں ناریل آ گیا لیکن اتنا ضرور سمجھتے ہیں کہ خالصتا عدالتی معاملے کو زیربحث لانا اور کسی بھی کردار کشی اس تیقن کے ساتھ کرنے کا کیا جواز ہے۔ ہمارے یہاں تو ہر معاملے میں سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے۔ قانونی موشگافیاں ایسی کہ الامان الحفیظ۔ ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم ثابت کرنا ماہرین قانون اور اینکرز کے الٹے ہاتھ کا کھیل ہے۔

ایک طرف ہمارے اینکرز حضرات بلاتکلف عدالتی نظام کا تمسخر اڑاتے ہیں بلکہ بڑی دیدہ دلیری سے جج صاحبان کو مشورے بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کے فیصلوں کی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جن حضرات پہ بدعنوانیوں کا الزام ہوتا ہے وہ ٹی وی چینلوں پر آ کر صفائیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ گویا عدالتوں سے ہٹ کر دوسری عدالت ٹی وی چینلوں پر لگتی ہے۔ جہاں پھکڑ پن، جہالت اور خجالت کے عالمی ریکارڈ قائم کیے جار ہے ہوتے ہیں۔

اورپھر ایک اور مضحکہ خیز ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ جن حضرات پر بدعنوانی کا الزام ہوتا ہے اور جنہیں عدالت طلب کرتی ہے تو وہ حضرات پوری طرح بن ٹھن کر بڑی بڑی گاڑیوں میں عدالت تشریف لاتے ہیں جہاں ان پر گل پاشی کی جاتی ہے۔ نعرے لگائے جاتے ہیں۔ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو۔ یہ گاڑی سے برآمد ہوتے ہیں۔ فاتحانہ انداز میں وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔ چہرے پر مسکراہٹ بلکہ باچھیں کھلی ہوتی ہیں۔ اور یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ بے بس عدالتیں ہمارا کیا بگاڑ سکتی ہیں۔ عدالتی پیشی کے بعد ٹی وی کیمروں کے آگے آ کر اپنے مقدمے کے علاوہ علاقائی اور عالمی صورتحال کورونا وائرس اور ٹڈی دل کے حملے پر بڑے متاثر کن انداز میں اظہار خیال فرماتے ہیں۔

سوال بالکل سادہ سا ہے کہ کیا ایک عام آدمی عدالت میں اس لاؤ لشکر کے ساتھ جانا ہے۔ کیاعدالتوں کے باہر نعرے بازی کرنا اور امن عامہ کا مسئلہ کھڑا کرنا قانون کے دائرے میں آتاہے۔ کیا اس دھکم پیل سے عام آدمی کی زندگی اجیرن نہیں ہوتی۔ عدالت کی طرف جانے والے راستوں پر ہزاروں پولیس والے اپنی اصل ذمہ داریاں چھوڑ کر تعینات کیے جاتے ہیں۔ جبکہ شہر بھر میں ڈاکہ زنی، قتل و غارت گری، آبروریزی، جائیدادوں پر قبضے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف پولیس عدالتوں کے راستوں میں گھنٹوں کھڑی ملزمان کی پیشی بھگتنے کے ڈرامے سے نبردآزما ہو رہی ہوتی ہے۔ کیا پولیس کا کام شہریوں کو تحفظ فراہم کرتاہے یا وہ ان نام نہاد وی آئی پیز کی خدمت کے لئے ہے۔

ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک سیاسی رہنماخواہ اس کا قد کاٹھ کتنا ہی بلند ہو، اپنی گاڑی میں گارڈ کے ساتھ یا پولیس وین میں خاموشی سے عدالت نہیں جا سکتا۔ کیا صرف اس کی جان کو خطرہ ہے۔ باقی لاکھوں کروڑوں کی زندگیوں کے تحفظ کی کیا گارنٹی ہے۔

اس سارے ڈرامے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کبھی کسی نے احتساب کے محکمے کی اچھی کارکردگی کو نہیں سراہا۔ وہ لوگ جنہوں نے احتساب کے محکمے کے سربراہ کی تعیناتی اس خوش فہمی میں کی تھی کہ یہ ان کے احسان کے نیچے ایسے دبیں گے کہ ان کی تمام بدعنوانیوں پر پردہ ڈالیں گے۔ لیکن جب کچھ معاملات شفاف انداز میں آگے چلے تو اس شخصیت پرلعن طعن کو ملک و ملت کی خیر خواہی کا سب سے بڑا ہتھیار بنا لیا گیا۔

اگرمعاملات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ احتساب کے محکمے نے بدعنوان عناصر سے اربوں روپے کی ریکوری کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے ان اربو ں روپے کو کہاں استعمال کیا۔ ہمارے خیال میں اگر ان اربو ں روپے کو لاکھوں ایکڑ بنجر زمین کو زرخیز کرنے پر صرف کیا جاتا تو شاید ملک خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہو جاتا کیونکہ خوراک ہی اس ملک کا بنیادی مسئلہ ہے۔

ہمیں اپنی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہے لیکن جہاں ہر شخص نے مشوروں کی پٹاری کھول رکھی ہے وہاں ہم بھی ٹانگ پھنسا لیں تو کیا ہرج ہے۔ ہمارا عدالت عظمی سے مطالبہ ہے کہ وہ فوری طور پر حکم جاری کرے کہ کسی زیرسماعت مقدمے کے بارے میں ٹی وی چینلوں پر کوئی رائے زنی نہیں ہوگی۔ فیصلوں کے بعد صرف وہ حضرات جن کے پاس قانون کی سند ہو اور وہ قانون کا عملی تجربہ رکھتے ہوں، اپنی رائے پیش کریں۔ ٹی وی اینکرز اور ناخواندہ سیاسی رہنماؤں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مہمل بے ربط مجہول اور غیر شائستہ انداز میں عدالتی کارروائی پر رائے زنی کریں۔

تمام ٹی وی چینلوں کو عدالتوں کے باہر ملزمان کی کوریج کو روکا جائے۔ اس طرح امن عامہ کی صورت حال سے بخوبی نمٹایا جا سکتا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ اس ملک کے ہزاروں گمبھیر مسائل ہیں جن میں بے روزگاری، ناخواندگی، آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، اختیارات کا ناجائز استعمال، نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور بے یقینی قتل و غارت گری، لوٹ کھسوٹ اور دیگر جرائم کا بڑھتا ہوا عفریت سوال یہ ہے کہ ہمارے ٹی وی چینل کسی بھی معاملے میں کوئی رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں۔ کیا صرف سنسنی خیزی بات کا بتنگڑ بنانے اور معاملات کی گتھیاں الجھانے کا نام ہی میڈیا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن اپنے معیاری پروگراموں، خبروں اور حالات حاضرہ پر تبصروں کے ذریعے عوام کے دلوں پر خوشگوار تاثر قائم کرتے تھے اور آج کے یہ چینل ہیجان انگیزی کر کے اپنی ریٹنگ تو بڑھا رہے ہیں لیکن جو قومی نقصان یہ کر رہے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments