اللہ کی رضا


اختلاف اور مخالفت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اختلاف اخلاص کی نشانی ہے، جبکہ مخالفت دشمنی کا پہلا زینہ ہے۔ اگر کوئی اختلاف کا اظہار نہیں کر رہا، تو کم سے کم وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بہترین مشورہ دینے کے بجائے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یعنی اس کا ذہن، اس کا فکر اسے بتا رہا ہے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے، مگر وہ اس قدر مخلص نہیں کہ ناراضی کا رسک لے کر اپنے وجدان کی حقیقت کا اظہار کر دے۔ اور بے وقوف ہے وہ شخص اور وہ ادارہ جو اختلاف رائے کے اظہار کو بے وفائی یا غداری گردانے۔

ہمارے عزیز دوست اور اردو کے بہترین لیکچرار، محترم اسد صاحب کہتے ہیں، آپ اچھے کالم لکھتے ہیں، مگر کیا ہی اچھا ہو کہ آپ کے ہر کالم میں کوئی امید افزا بات ہو۔ کہتے ہیں کہ ہر لکھنے والا مایوسی کی باتیں کرتا ہے۔ ہماری قوم کو امید دکھانے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ اسد صاحب سے ہماری نیازمندی بہت پرانی نہیں، مگر بہت گہری ضرور ہے۔ ایسے اعلیٰ ظرف اور صبر والے لوگ ہم نے اپنی زندگی میں بالکل بھی نہیں دیکھے ہیں۔ اپنے نومولود بیٹے کو دفنارہے تھے، ہم سے دیکھے نہ جاتے تھے، ہمارا دل پھٹتا تھا، مگر اسد صاحب کا صبر تھا کہ ابو یوسف ؑیاد آتے تھے۔

ہم ان کو کیا صبر کی تلقین کرتے، وہ ہمیں دلاسا دیتے رہے کہ کوئی بات نہیں، اللہ کی رضاء۔ اللہ مالک ہے، اب اس کے ساتھ ضد تو نہیں لگا سکتے نا۔ وہ جیسے خوش، ہم بھی خوش۔ تو کیا ہوا کہ دس سال بعد بیٹا پیدا ہو رہا تھا، تو کیا ہوا کہ سی ایم ایچ اسپتال میں ڈاکٹروں کے ہاتھوں اس ننھے سے جسم کو اپنی آنکھوں سے تڑپتا دیکھ آئے تھے، تو کیا ہوا کہ بیٹا تین دن بھی زندہ نہ رہ سکا۔ آخر اللہ کی امانت تھا، اللہ نے واپس لے لیا تو اللہ کی رضاء۔

ایسا حوصلہ ہم نے آج تک کسی چٹان میں نہ دیکھا تھا۔ سنا ہے اللہ والوں کی نشانی ہے کہ انہیں دیکھ کر اللہ یاد آ جاتا ہے۔ اسد صاحب کو دیکھ کر واقعی اللہ یاد آ گیا۔

ایک طرف اسد صاحب کا اللہ کی رضاء کہنا، اور دوسری طرف ہمارے دلخراش ہم نواؤں کا۔ کتنا سادہ سا جملہ ہے، اللہ کی رضاء۔ اور کس قدر وسیع سمندر اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ مگر سمندر کو کوزے میں بند کرنا بھی ہر کسی کا کمال نہیں۔ ہم نے ایسے بھی لوگوں کو دیکھاکہ جن کے لیے یہ جملہ فقط ظلم و زیادتی کے بعد معصومیت کی ایسی چادر کا کام دیتا ہے کہ جسے اوڑھ کر ان کا گھمنڈ چھپ جاتا ہے۔ کیسے کمال کے لوگ ہیں، جس بات پر اختیار نہیں، اس پر کہے دیتے ہیں اللہ کی رضاء۔

اور جن باتوں میں اختیار ہے، ان میں اپنی رضاء چلاتے ہیں۔ کیا اللہ کی رضاء صرف محرومیوں میں ہے؟ کیا اللہ کی رضاء امانت داری میں نہیں ہے؟ کیا سچ بولنا اور جھوٹ چھوڑنا اللہ کی رضاء نہیں؟ سادگی، عاجزی، جسم کا دکھاوا نہ کرنا، فیشن نہ کرنا، یہ سب اللہ کی رضاء نہیں؟ دل دکھاتے وقت اللہ کی رضاء یاد نہیں آتی انہیں؟ دھوکہ دینا، کسی کے مال پرقبضہ جمانا، احسان جتانا، تکبر کرنا، ناحق کسی کو اٹھا لینا، غائب کر دینا، جان سے مار دینا، کیا یہ سب کرتے ہوئے اللہ کی رضاء فوت ہو جاتی ہے؟ یعنی جس کام میں اختیار نہ ہو، اس میں اللہ کی رضاء۔ اور جس کا اختیار خود اللہ نے دے کر بتا دیا ہو کہ اس کی رضاء کیا ہے، اس کام میں اللہ کی رضاء جائے بھاڑ میں، بس اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات رہیں سر بلند۔ یہ ہے اللہ کی رضاء؟

سچ کڑوا ہوتا ہے۔ اور سچ ضروری بھی ہوتا ہے۔ ہمارے راہنما دوست محترم اسد صاحب کی بات نہایت مناسب ہے۔ ہمیں امید افزا گفتگو لکھنی چاہیے۔ مایوسی واقعی حرام ہے۔ سوال یہ ہے، اگر مایوسی حرام ہے، تو مایوس کرنے والے حلال کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہمیں کئی سال تک سچ لکھنا، سچ بولنا سکھایا جاتا ہے۔ ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہمیشہ سچ لکھیں، لیکن ہمارے حصے کا سچ سننے کے لیے تیار کوئی بھی نہیں۔ ہر پارٹی، ہر ادارہ فقط اپنے حصے کا سچ سننا چاہتا ہے۔ اور جو اس سچ سے اختلاف کرے، اس کے اختلاف کو مخالفت سے تعبیر دے کر غدار وطن قرار دے دیا جاتا ہے۔

سچ کڑوا ہوتا ہے۔ مگر سچ ضروری ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ مطیع اللہ جان صحافت کے معیار سے گری ہوئی باتیں کرتے اور کہتے آئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ وہ عمر اور تجربے میں نہایت سینیئر ہونے کے باوجود شائستہ زبان کے استعمال کے بجائے غیر شائستہ گفتگو کو ترجیح دیتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ میڈیا میں سینکڑوں نہیں، ہزاروں بلیک میلر موجود ہیں جو قلم کی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں، پریس کلبوں کا نا قابل ذکر استعمال کرتے ہیں، اور خود کو صحافی کہتے ہیں۔

لیکن سچ یہ بھی ہے کہ اختلاف اخلاص کی دلیل ہے، مخالفت دشمنی کا زینہ۔ سچ یہ بھی ہے کہ مطیع اللہ جان کی صحافت اور انداز گفتگو قابل اعتراض ہو سکتا ہے، مگر ان پر غداری کا فتویٰ بغیر ثبوت کے ایک بہیمانہ رنجش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ قانون کے رکھوالوں کی وردیاں پہن کر جب ایک آدمی کو بغیر کسی قانون کے اٹھایا جائے گا تو قانون کا جنازے کو کاندھا ملنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اگر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے نوسربازوں کو قانونی گرفت میں نہیں لا سکتے تو پھر قانون کی کتاب کو آگ لگا کر ہاتھ سیکنے کا وقت آ گیا ہے۔

خاموشی وہاں بہتر ہے جہاں سننے والا کوئی نہ ہو۔ اگر اللہ سننا نہیں چھوڑتا، تو ہم مانگنا کیوں کر چھوڑ دیں؟ مایوسی اسی لیے حرام ہے۔ دعا کرنا چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اللہ کی سماعت یا قدرت کا انکار کر دیا ہے۔ ہم مایوسی نہیں پھیلانا چاہتے۔ سچ بولنا چاہتے ہیں۔ سچ کڑوا ہوتا ہے۔ مگر سچ ضروری ہوتا ہے۔ اللہ کی رضاء ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ اور اللہ کی رضاء اپنی مرضی کے احکام ماننے میں نہیں، حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments