اپوزیشن کی اے پی سی اور مولانا صاحب کی فیملی کے خلاف نیب ریفرنس



25 جولائی 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں ملکی نظم و نسق جس طبقے کے سپرد ہوا، آج پورے دوسال اور چند دنوں بعد ثابت ہوا کہ یہ طبقہ سرے سے اس بڑی اور اہم ذمہ داری کے لائق ہی نہیں تھا۔ معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ خارجہ پالیسی کے مرکزی محور کشمیر پر سوالیہ نشان ہے۔ قانون ساز ادارے پارلیمنٹ میں کوئی قانون سازی نہیں ہورہی، صدارتی آرڈیننس سے کام چلایا جا رہا ہے۔ میگاکرپشن کیسز سامنے آرہے ہیں، مہنگائی سے عوام کا جینا دو بھر ہوگیا ہے۔ احتساب کے نام پر انتقام کا کھیل جاری ہے۔ صوبوں اور وفاق کے درمیان اہم قومی ایشوز پر کوئی اتفاق رائے نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی۔

دوسری طرف اپوزیشن ہے۔ پوری اپوزیشن یک زباں ہوکر کہتی ہے کہ موجودہ نظم ونسق کو جانا ہوگا پر کیسے؟ یہ خود اپوزیشن بھی نہیں جانتی، کون جد وجہد کرے گا اس نظم ونسق کو گھر بھیجنے کے لئے؟ کوئی اس کے لئے تیار نہیں۔ تقسیم در تقسیم اپوزیشن، اپوزیشن رہنماؤں کی آپس کی معمول کی ملاقاتیں بھی بغیر واسطے اور سفارتکاری کے نہیں ہو پاتیں، یہ حکومتی نظم ونسق کو کیا چلتا کریں گے کہ خود ایک جگہ بیٹھنے کے لئے پہلے مشاورتوں اور ملاقاتوں کا طویل سلسلہ ہوتا ہے۔

ملاقاتیں ہوتی بھی ہیں توان ملاقاتوں میں کوئی بہت اہم ایجنڈا زیر غور نہیں ہوتا بلکہ یہ شکوے شکایتوں کی مجالس ہوتی ہیں۔ ان شکوے شکایات کے ازالے کے لئے کچھ وعدے وعیدیں ہوتی ہیں تو پھر لے دے کے کسی قومی سطح کی بیٹھک کا فیصلہ ہوتا ہے لیکن وہ بیٹھک بھی نتیجے کے اعتبار سے صفر، ایک بیٹھک سے دوسری بیٹھک کے درمیان اتنا وقفہ ہوتا ہے کہ لگتا ہے کہ وقت گزاری کے لئے اے پی سی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

اسی قسم کی ایک اور اے پی سی کے انعقاد کے لئے جمعیۃ علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان آج کل پھر جد وجہد میں مصروف ہیں، طویل عرصے سے بیمار اور منظر عام سے غائب سابق صدر آصف زرداری سے ملاقات کی، گزشتہ دنوں طویل عرصے سے بیمار اور منظر عام سے غائب اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سے ملاقات پھر بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات اور اس ملاقات کے نتیجے میں بلاول اور شہباز شریف کی ملاقات کے لئے راہ ہموار کی کہ اس سے قبل بلاول کے اصرار کے باوجود میاں شہباز شریف نے ملاقات سے معذرت کی تھی۔ جبکہ خود مولانا صاحب اپوزیشن کی ان بڑی پارٹیوں سے سخت نالاں اور حکومت کو طول دینے کی ایک بہت بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔ مولانا صاحب کے آزادی مارچ کو جس برے روئیے کا سامنا کرنا پڑا ان اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے، وہ خود سے ایک الگ داستاں ہے،

دراصل بڑی اپوزیشن پارٹیاں چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ وہی رویہ رکھتی ہیں جو حکومتی جماعت کا اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ہے۔ اپنی بات سنانا اور اپوزیشن کی نا سننا۔ یہی کچھ پی پی اور ن لیگ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپنی بات کرکے چھوٹی پارٹیوں کو بات کا موقع نہیں دیتی اور واک آؤٹ کر جاتیں ہیں۔ جمعیۃ علماء نے اس حوالے سے کئی بار احتجاج کیا کہ اہم امور پر پارٹی موقف تبدیل ہونے کی وجہ سے جمعیۃ علماء کے اراکین کو موقع ملنا چاہیے اور اس کے بعد پھر واک آؤٹ یا جو بھی حکمت عملی ہو۔ لیکن جس طرح قومی اسمبلی سے باہر ان پارٹیوں کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں اور ان مجبوریوں پر اپوزیشن کے اتحاد کو ن لیگ اور پی پی قربان کردیتے ہیں اسی طرح پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن تقسیم در تقسیم ہے۔

مجبوریوں اور پریشانیوں میں گھری اس اپوزیشن کی ایک اور اے پی سی ہونے جارہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان صاحب پھرمتحرک ہوگئے، اپنے گلے شکوے دفن کرکے ن اور پی پی پی کے گلوں شکوں کو ختم کر رہے ہیں۔ ایجنڈا وہی ایک ہے کہ اس نظم و نسق کو گھر بھیجا جائے۔ اس کے لئے ایک اور اے پی سی ہوگی، فیصلے ہوں گے ، صفیں بنیں گی اور پھر سوالیہ نشان؟

ایک بات تو طے ہے کہ اس نظم ونسق کا اپنی نا اہلی کی بنیاد پر جانا طے ہے اس منتشر اور مجبور اپوزیشن کے بس کی بات نہیں کہ اس نظم ونسق کو گھر بھیج دے یہ اپوزیشن سنجرانی کے خلاف عددی اکثریت کے باوجود عدم اعتماد کامیاب نہیں کرسکی۔ یہ اپوزیشن جب بھی متحد ہوتی ہے اس کے خلاف کوئی ریفرنس تیار کر لیا جاتا ہے۔ ویسے ریفرنس سے یاد آیا کہ اس نیب کے ریفرنسز بھی انتقام کی آگ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ پشاور نیب نے گزشتہ ہفتے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے یہ مولانا فضل الرحمان صاحب ان کی اہلیہ، تینوں بیٹوں، دو بیٹیوں اور بھائی کے نام ہے۔ کسی نامعلوم شخص کی درخواست پر احتساب کیا جا رہا ہے۔ دشمنی اور انتقام کے یہ طریقے نئے نہیں ہیں۔ لیکن ان ہتھکنڈوں کی ناکامی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جو طرز عمل مولانا صاحب نے اس حکومت اور ان کے پس پردہ قوتوں کے خلاف اختیار کر رکھا ہے وہ طرز عمل دامن پر لگے داغ والوں کا کبھی نہیں ہو سکتا۔ بہر کیف اپوزیشن ایک اور اے پی سی کرنے جارہی ہے۔ اللہ کرے اسے کامیابی ملے۔ ورنہ عام طور پر جس طرح کسی حکومتی اقدام یا نوٹیفیکیشن میں اس کی نا اہلیت سامنے آتی ہے اپوزیشن کا بھی اپنی کسی سرگرمی میں وہی حال ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments