انسان کیا تلاش کر رہا ہے؟


\"jamshedپہلے  انسان کو  ایک مشین  قرار دیا  اور پھر  ایک  محفلِ موسیقی میں مدعو کرلیا اور یوں  دُوسری ملاقات کی سبیل  نکل آئی  ۔ بتایا کہ ایک درمیانے درجے کے غزل گائیک اسلام آباد  آ رہے ہیں انہیں سننے چلیں گے ۔ جس روز شام  کو محفل ِ موسیقی میں جانا تھا  اس سے ایک روز قبل یاد دہانی کے لئے ایک فون کیا ۔ اگلے روز دفتر پہنچتے ہی ایک بار پھر یاد دہانی کرائی اور دفتر  سے نکلتے نکلتے چوتھی بار  تیار رہنے کو کہا اور فون کرتے ہوئے آدھے گھنٹے میں مجھے لینےگھر  پہنچ گئے ۔

راستے میں  بتایا کہ یہ تو کچھ نہیں ، غزل کی محافل کے لئے وہ  سینکڑوں میل طویل سفر کرچکے ہیں ۔ اس شام ہم درمیانے درجے کے گائیک کی غزل  سننے  جارہے تھے  مگر  وہ  شہنشاہِ غزل اور ملکہ تغزل کو  رُوبرو محافل میں سنتے رہے ہیں ۔

’’جینے کا تجربہ ہوتا ہے ان محافل  میں ۔زمان و مکان سے  رابطے ٹوٹ جاتے ہیں۔ باقاعدہ تلاش کرنا پڑتا ہے کہ شعور کے کس کُرے میں نکل آئے  ہیں ہم ‘‘۔ خاصے خوش اور پر جوش  تھے ۔ یہ احساس بھی ہواؤں میں اڑائے جارہا تھا کہ آج غزل سنیں گے اور وجد کی چند گھڑیاں میسر آئیں گی ۔ ہال کے قریب پہنچے  ۔ میں نے ایک سگریٹ سلگایا اور وہ گاڑی لاک کرنے لگے ۔  میں نے  پوچھا :

’’ کیا مشینیں وجد میں آتی ہیں ؟  موسیقی  اور مشاعرہ  سن کر ہم اپنی  کون سی ضرورت  پوری کرتے ہیں؟ ‘‘۔

یہ سن کر کچھ دیر کے لئے  خاموش ہوگئے  ، چند قدم چلے ، رُکے  ، پہلے قہقہہ اور پھر مجھے گلے سے لگا لیا ۔\"homeland-security-celebrating-conte\"

محفل ختم ہوئی تو بتایا کہ اس  مرتبہ انہیں زیادہ لطف آیا ہے  کیونکہ آج  خود کو مشین  مان کر نہیں  سنا ۔ اپنا آپ موسیقی  کی لہروں کے سپرد کردیا اور  جس طرح   آج  جھومے ہیں پہلے  کبھی نہیں جھومے تھے ۔

کہتے ہیں جب کچھ  سفید فام پادریوں کا پہلی بار   وحشیوں  اور  مذہب جیسی چیز سے ناواقف ہونے کی بنا   پر ’جہنمی  اور گناہ گار  کہلائے جانے کے مستحق افراد ‘اور    راندہ درگا ہ  قبائل  سے واسطہ پڑا  تو   پادری حضرات ان کے گناہوں   کا حجم جان  کر  رو پڑے   اور ’گناہ گار  ‘ انہیں روتا دیکھ کر خوب ہنسے  ۔جیسے ہمارے مبلغین حُوروقصور اور شرابِ طہور  کی مستیوں کے متلاشیوں  کو خُدا کے متلاشی سمجھتے ہیں ویسے ہی  ’گناہ گار  ‘   اگر اُن کے پاس آتے تو  مسیحی مبلغین بھی  یہ سمجھتے   کہ انہیں مذہب کی روشنی  کھینچ لائی ہے ۔  وہ  انہیں دیکھ کر  خوشی سے اٹھتے     اور    مذہب کی روشنی     سے لے کر  جدید چپاتی تک سب  ’گناہ گاروں ‘   کو پیش کردیتے ۔

تاہم  پادری حضرات کو  یہ دیکھ کر  مایوسی ہوتی کہ ’گناہ گار ‘  روٹی اور تسبیح  ایک طرف رکھتے ،   سرکے کی شراب اٹھا تے ،  ہنستے  گاتے   رفو چکر ہو    جاتے  اور  پادری حضرات   انہیں ہنستا    دیکھ کر ایک بار پھر رونا شروع کردیتے ۔

میرے گاؤں میں  ایک ادبی ذوق رکھنے  والا   جواری رہتا تھا ۔ اس نے ایک بار   مجھے بتایا   کہ جُو ا نہ صرف    باعث ِ کیف و نشاط  بلکہ مراقباتی  ارتکاز کا بھی ذریعہ   ہے۔ یہ بات مجھے شب و روز  کانٹے  سے  مچھلی پکڑنے  کے ایک شائق  نے   بھی  بتائی تھی  لیکن اس بار   جوے والی بات  مجھے  حیران  کرگئی۔ مجھے حیرت زدہ دیکھ کر جواری گویا ہوا : ’’آپ کیا یہ  سمجھتے ہیں کہ ہم لالچی ہیں ، پیسوں کے لئے  رات دن  جوا کھیلتے ہیں۔ ہم تو اس لئے کھیلتے ہیں کہ  یک گونا بے خودی ہمیں دن رات چاہیے  ؟ ‘‘ ۔\"african-dance-acrylic-on-canvas\"

 مجھے اس کی بات  پر یقین نہ آیا لیکن بعد میںپتہ چلا کہ جو راز نوابپور  کے اس جواری  پر عیاں   تھا  وہ   مو سیو ہک (Monsieur Huc)  پر  نہ تھا ۔

 موسیو   اس بات پر حیران تھا کہ   شدید  سردیوں میں چینی تاجر سارا سال تجارت کے بعد  دیوار ِ چین پر چڑھ کر  افیون  اور جُوے سے کیا  لطف اٹھاتے  ہیں ۔ وہ اس کھیل میں اس حد تک کیوں  غرق ہوجاتے ہیں کہ  اس وقت تک محاذِ میسری سے  نہیں ہٹتے  جب تک  کہ ان کے پاس ہارنے کے لئے زندگی کے علاوہ  کچھ نہیں بچتا ، یہاں تک کہ کپڑے بھی  ہار جاتے   ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی انہیں چند پیسے  بھی دیتا  ہے تو وہ کپڑے  خریدنے کی بجائے پھر جوا کھیلتے  ہیں  اور ہارنے کی صورت میں  سردی سے  اکڑ کر مرجاتے ہیں  ۔

موسیو سوال کرتا ہے  کہ  وہ ایسا کیوں کرتے تھے ؟

موسیو  کے   بعد بل موئیرز  ایک ا نٹرویو کے دوران   جوزف کیمپبل کے سامنے   کہتا ہے  کہ انسان معانی تلاش کرنے والی  مخلوق ہے  ۔  جوزف کیمپبل   جواب دینے کی بجائے  حیرانگی  کے عالم میں  اس کی طرف دیکھتے ہیں  اور پھر  میز پر رکھے  گلدان سے ایک پھول  نکال کر   موئیرز  کو دکھا تے ہوئے  پوچھتے ہیں ۔\"africandancers\"

’’اس پھول کے کیا معانی ہیں ؟‘‘  ۔

 موئیرز  خاموشی سے  کیمپبل کو دیکھتا ہے   اور کیمپبل نے اپنے سوال کا خود جواب  دیتے ہیں ۔

’’انسان معانی کی  نہیں  اُس لمحے کی تلاش میں ہے جس میں  وہ پوری  طرح جی رہا ہو ۔ انسان کیف، وجد اور مستی کی تلاش میں ہے‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments