ہماری عیدیں ہماری یادیں


”ہمارے وقتوں کی عیدیں چھوٹی عید جو ہم بچوں کی میٹھی عید، بڑی عید نمکین عید پھر محرم اور رمضان کی رونقیں بھئی کیا بات تھی ان کی۔ وائے افسوس کہ ان خوبصورت تہواروں سے وابستہ ثقافتی قدروں پر جھاڑو پھر گیا ہے۔ تب لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے مگر ایک دوسرے کے لئے خلوص اور محبتیں تھیں۔ پڑوسی رشتے داروں سے بڑھ کر سمجھے جاتے تھے۔ دکھ سکھ اور خوشیاں سانجھی تھیں۔ روزے رکھنا ضروری اور روزے کا احترام حد سے زیادہ۔

رمضان کے آخری عشرے میں جہاں گھروں میں سفیدیاں اور پڑ چھتیوں پر سجے برتنوں کی مانجھ منجھائی شروع ہوتی وہیں گھروں کی چھتوں پر سویاں بٹنے کے عمل کا بھی آغاز ہوتا۔ سارا خاندان اس کام میں جت جاتا۔ گھوڑی کے ہینڈل کو بچے زور لگا لگا کر گھماتے، لمبی سوئیاں رسیوں پر ڈالی جاتیں۔ سوکھنے پر بھنائی ہوتی۔ دودھ شکر کے آمیزے میں کیا لطف دیتیں۔ نئے کپڑے چھوٹی اور بڑی عید پر ہی نصیب ہوتے۔ اسی لئے ان کی بڑی وقعت تھی۔

میں بڑی آپ پھدری سی لڑکی تھی۔ زمانہ بڑا اچھا تھا۔ گنوے منوے (گنے چنے) پیسے ہوتے۔ روز مرہ کی ضروریات روزانہ کے سودا سلف لانے کے ساتھ جڑی ہوتیں۔ کبھی پاؤ بھر دودھ، پاؤ بھر دہی، آدھ پاؤ گوشت، اتنی ہی سبزی اور دال کا آنا ضروری ہوتا۔ ہم دو بچے خوشحال گھرانے کی سچی تصویر تھے۔ میں، میرا بھائی اور میرے چھوٹے چچا جو دسویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پاس ہی بازار تھا۔ سودا لینے بالعموم میں ہی جایا کرتی تھی۔ دو شوق پورے ہوتے تھے۔

ایک تو چنگا۔ ہمارے بعض دوستوں کو شاید یہ سمجھ نہ آئے۔ دراصل کریانے کی دکان پر ہمارے پھیلے ہوئے ہاتھوں پر دکان دار کا تھوڑے سے بھنے ہوئے چنے، میٹھی پھلیوں یا کسی سنگترے کی گولی کا رکھ دینا ہوتا تھا۔ اف کوئی اس ہفت اقلیم ملنے کی خوشی کا تصور نہیں کر سکتا ہے۔ دودھ دہی پر یہ چنگا تھوڑی سی بالائی کی صورت ہوتا۔ میں تو گھر آتے ہوئے راستے میں ہی کسی جگہ رک اسے اپنے گندے مندے ہاتھوں سے پار لگا جاتی تھی۔ اماں اگر کبھی کہتیں تو چٹا کورا الزام حلوائی کے سر تھوپ دیتی۔ اماں دو تین صلواتیں تو حلوائی کی شان میں ضرور ہی سنا جاتیں۔ کبھی کبھار دھیلے پولے کی بھی ہیرا پھیری کرلیتی کہ بچوں کی کہانیوں کا کرایہ دینا ہوتا تھا۔ اس کے بھی بڑے چسکے تھے۔

سودا لانے میں عموماً دیر کردیتی تھی۔ ونڈو شاپنگ والے کام بھی ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ یہ ونڈو شاپنگ دکان کے تھڑے پر چڑھ کر سامنے ریکوں میں سجے ریشمی کپڑوں کے تھان، ڈیزائن اور رنگ کا تھوڑا بہت اندازہ کرنے سے تعلق رکھتا تھا۔ پہلے روزے سے ہی اماں کی جان کھانی شروع کردیتی۔ پھر ایک دن گھسیٹ کر دکان پر لے جاتی۔ اماں اس کی قیمت سن کر دکان دار سے بھاؤ تاؤ میں لگ جاتی۔ کبھی بات بن جاتی اور کبھی وہ انکاری ہو جاتا۔

ایک بار ایسا ہوا بات نہ بنی۔ اماں نے میرا ہاتھ پکڑ کر دکان سے نکلنے کی کوشش کی۔ میں نے وہ غل غپاڑہ مچایا کہ اماں بیچاری کو تو ماتھے پر ہاتھ رکھنا پڑاکہ کیسی چنڈال بیٹی اللہ نے دی ہے۔ یہ بھی یاد ہے کہ میرے ایسے تماشے کرنے پر بے چارے دکان دار کو ہی شرم آ گئی یا ممکن ہے اسے اپنے بچے یاد آگئے ہوں۔ ”بہن جی آپ جس قیمت پر لینا چاہتی ہیں لے لیں۔ بچی روتی ہوئی میری دکان سے اترے یہ مجھے قبول نہیں۔“ آج بھی یہ الفاظ یاد ہیں۔ دیدہ لحاظ اور مروت کے زمانے تھے۔

پھر درزن کے گھر کے چکر۔ گلا ایسا بنانا ہے۔ پشت پر پھول بنانے والی ٹائیاں۔ خدا غریق رحمت کرے بیچاری ہماری درزن کو۔ عینک کے شیشوں میں سے ہنستی اس وقت بے طرح یادآ رہی ہے۔ دن میں کوئی چھ بار اس کے گھر کا چکر لگاتی۔ جب سل کر آ جاتے تو دس بار انہیں کھول کر دیکھنا معمول ہوتا۔ عید سے ایک دن پہلے رات کو جوتے والا ڈبہ، کپڑے سب سرہانے رکھ لیے جاتے۔ ننھے سے دل میں چور کا خوف بھی تو بیٹھا ہوتا۔ نور پیر کے تڑکے مہندی کا رنگ دیکھا جاتا۔

تیل لگتا کہ رنگ گہرا ہو جائے۔ گھر کے سامنے میدان میں کھانے پینے کی چیزوں اور انواع واقسام کے جھولے۔ عیدی کتنی ملتی۔ اٹھنی یا روپیہ۔ شام تک لور لور محلوں کی سیر کی جاتی۔ جب سارے پیسے خرچ ہوجاتے۔ کپڑے اور چہرہ دن بھر کے الم غلم کھانے پینے کی چیزوں اور گردوغبار سے اٹ سے جاتے۔ تب گھر واپسی ہوتی۔ اماں پھٹکا رتیں تو بہتیرا۔ پر سال میں دو دن تو ایسی موجیں ماری جاتیں۔ محرم پر تو دس دن یہ سلسلہ چلتا۔ ایسی رونقیں، دودھ شربتوں کی سبیلیں کجیاں ٹھوٹھیاں ڈھیروں کے حساب سے اکٹھی کرتے۔ کڑیوں بالو چیج ونڈی دی لے ہی جاؤ آواز گویا ایک خوشی کا سائرن ہوتا جو بھگا کر مطلوبہ گھر لے جاتا۔

ایک اور بڑی کھٹی اور میٹھی یاد ذہن میں مچل اٹھی ہے۔ بڑی عید کا تہوار تھا۔ ہماری امیر نانی نے ہمیں ایک روپیہ دیا۔ روپیہ ہاتھ میں پکڑا جہاں خوشی بے حساب تھی وہیں یہ فکر بھی دامن سے آ لپٹی کہ ان دنوں اماں اور نانی میں کچھ ناراضی کا سلسلہ تھا۔ ایسے میں اگر اماں کو پتا چل گیا تو نہ صرف ڈانٹ پڑے گی بلکہ ہاتھ آئی رقم بھی واپس کرنی ہو گی۔

حل یہی سمجھ آیا کہ دبا جاؤ ساری بات۔ اب روپے کو بھنایا جس کی ریز گاری بڑی حکمت عملی سے لی۔ ایک اٹھنی، ایک چونی، تین آنے اور ایک آنے کے چار پیسے۔ ہمارے اکلوتے کمرے کے کونے میں پیٹی کے اوپر رضائیاں دھری تھیں۔ نیچے والی رضائی کے کھلے کنارے سے ہاتھ آگے لے جا کر دو پیسے رکھ کر باقی سارا خزانہ وہاں چھپا دیا۔ اب ہر سو موجیں ہی موجیں تھیں۔ دولت کا خمار اور نشہ بھی کیا چیز ہے؟ پاؤں زمین پر ہی نہیں ٹکتا تھا۔ اماں کو تشویش سی ہوئی یہ پیٹ بھر کر کھانا کیوں نہیں کھاتی؟ سو دن چور کا اور ایک دن سادھ کا۔ بس تو ایک دن بھانڈا پھوٹ گیا۔ غلطی سے بھائی کو کھانے پینے میں شامل کر لیا تھا۔

اب اماں باز پرس کریں تو کیسے؟ بھرا پرا گھر۔ ساتھ لے باہر نکل آئیں۔ گلی سنسان تھی۔ ایک تھپڑ گال پر پڑا پھر تھپڑ، ایک دھموکا، ایک گھونسا۔ سوال جواب کی عدالت بھی سج گئی۔ آئینہ تو نہیں دیکھا مگر یہ ضرور یاد ہے کہ آنسو ا اس روانی سے بہے کہ گلی میں اور کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ نئی نویلی ساری چوڑیاں اماں کے عتاب کی نظر ہوگئیں۔ مار سے بھی زیادہ ملال رقم کی واپسی کا تھا جو نو آنے دو پیسے پر مشتمل تھی جس میں اماں نے بقیہ ڈال کا پورا روپیہ نانی کے منہ پر مارتے ہوئے کہا تھا۔ منڈھ سے بیر اور شاخوں سے جھپیاں۔

دراصل ہمارے ماموں لوگ اپنی چھ بہنوں میں تین سے چھوٹے تھے۔ بڑی بہنیں تو تقسیم سے قبل ہی رشتہ داروں میں بیاہ دی گئیں۔ نئے ملک میں ہماری نانی کے پڑھے لکھے افسر کنوارے بیٹے اونچی ملازمتوں پر لگ گئے۔ نانی اور کنواری سکولوں کالجوں میں پڑھنے والی بہنوں کے مزاج ہی بدل گئے۔ ہماری اماں بڑی خودار طبیعت کی مالک تھیں۔ اپنے شوہر کی 60 روپے تنخواہ میں گزارہ کرتیں اور کسی کا رعب نہ سہتیں۔

٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments