بکروں کی آخری خواہش


قدرت کی تخلیقات یوں تو ہماری ناقص عقل سے باہر ہیں لیکن تھوڑا غور کریں تو بعض چیزوں کی شان تخلیق کسی قدر سمجھ آتی ہے۔ مثلاً ایک عرصہ تک ہمیں بالکل سمجھ نہیں آتا تھا کہ بکروں کے کان اتنے لمبے کیوں ہوتے ہیں۔ لیکن اب ہمیں پتہ چل گیاہے کہ بکرے کے کان بنیادی طور پر اسے پکڑنے اور قابو کرنے کے کام آتے ہیں۔ اس عظیم تفہیم کی وجہ یہ ہے کہ ایک مدت سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بکروں کو پکڑنا ہو، انہیں چہل قدمی کروانا مقصود ہو یا انہیں ان کی مرضی کے خلاف ایک جگہ سے دوسری جگہ گھسیٹ کر لے جانا ہو، ان تمام مقاصد کے لیے انتہائی کارآمد اور مفید ذریعہ بکرے کے کان ہوتے ہیں۔

چنانچہ قصائی حضرات اور ان کے لائق اور مستعد صاحبزادے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے بکروں کو اس ذریعے سے بہت آسانی کے ساتھ قابو کرتے اور چلاتے بھگاتے پھرتے ہیں۔ کسی بڑے تگڑے اور بیل نما بکرے کو بھی جب قصائی کا بچہ کان سے پکڑتا ہے تو وہ بیچارہ بالکل ”بکری“ بن جاتا ہے۔ استاد محترم جناب عطاء الحق قاسمی صاحب کے کئی شاندار کالموں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بکرے باقاعدہ ان سے گفتگو کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی بکرے نے میرے ساتھ گفتگو فرمائی تو وہ یقیناً اپنی ”کان کھنچائی“ کے حوالے سے شکایت کرتے ہوئے اپنی آخری خواہش کا اظہار کرے گا کہ براہ کرم پکڑائی اور کھنچائی کے لیے ان کے کانوں کے علاوہ کوئی اور ذریعہ استعمال کیا جائے۔

چنانچہ ایک طویل عرصہ سے بکروں کی کان کھنچائی کے مناظر دیکھنے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ بکرے کے کانوں کا اصل مقصد کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بکرے سماعت وغیرہ کا کام بھی انہی کانوں سے لیتے ہوں لیکن خدا لگتی کہیے تو اس کا کوئی واضح ثبوت ہمارے سامنے کبھی نہیں آیا۔ ہم نے ان کے کانوں کا ہمیشہ وہی استعمال دیکھا ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ بعض اوقات تو ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی ضدی قسم کا قصائی کسی اڑیل بکرے کو کان سے پکڑ کر اس شدت سے گھسیٹتا ہے کہ ہمیں خدشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ ابھی اس قصائی کے ہاتھ میں صرف کان ہی رہ جائے گا اور بکرا علیحدہ ہو جائے گا۔ چنانچہ ہم بڑے اشتیاق سے یہ متوقع منظر دیکھنے کو رک جاتے ہیں۔ اس دوران ذہن میں آتا ہے کہ ہم نے ”کن ٹٹے“ انسان تو کئی دیکھے ہیں آج کن ٹٹا بکرا بھی دیکھیں گے لیکن خلاف توقع ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

میرے خیال میں کان بڑا مضبوط عضو ہے جتنا مرضی کھینچیں یہ ناصرف ٹوٹتا اکھڑتا نہیں بلکہ اس کا سائز بھی اتنا ہی رہتا ہے۔ یادش بخیر! زمانہ طالب علمی میں جس تسلسل اور شدت کے ساتھ اس ناچیز کے کان کھینچے گئے تاریخ عالم میں شاید ہی اس جیسی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔ ہمارے قابل احترام اساتذہ کرام میں درس و تدریس کے حوالے سے کئی دوسری خوبیاں بھی ہوں گی جو بوجوہ ہمیں نظر نہیں آسکیں لیکن ان کے ایک کمال کے ہم بخوبی و ”مضروبی“ واقف ہیں اور وہ ہے طلباء کے کان کھینچنا۔

ہم اپنے ان نابغہ روزگار اساتذہ کی مغفرت کے لیے دعا گو ہیں ( جو شاید بوجوہ مشکل نظر آتی ہے ) جنہوں نے اس وصف کو ایک فن کا درجہ دے دیا تھا۔ ایسے میں ہمارے ایک عظیم استاد رحیم بخش ہمیں خاص طور پر یاد آتے ہیں جن کے ”عہد ذریں“ میں اس فن کو کمال عروج حاصل ہوا۔ استاد رحیم بخش میں ہر صفت موجود تھی سوائے رحم کے! قبلہ رحیم بخش اگر کچھ اور نہ بھی کرتے تو صرف ”کان کھنچائی“ پر کمال دسترس کی بنا پر ہی ان کا نام تاریخ میں زندہ رہ سکتا تھا ( چنانچہ انہوں نے اور کچھ بھی نہیں کیا ) ۔

ان دنوں نالائق ( اور لائق ) طلباء کو معمولی سرزنش سے لے کر ”سزائے موت“ تک کی جملہ سزائیں کانوں کے ذریعے سے ہی دی جاتی تھیں۔ کان مسلنے اور مروڑنے کی باقاعدہ درجہ بندی تھی۔ ایک واضح ورائیٹی موجود تھی۔ پڑھائی کے حوالے سے ”سنگین جرائم“ میں ملوث طلباء کے کان اس انداز سے مروڑے جاتے کہ وہ اگلے لمحے مرغ بسمل کی طرح پھڑپھڑانے لگتے۔ ایسے میں ایک سٹیج ایسی بھی آتی کہ بدقسمت طالب علم موت کی خواہش کرنے لگتا۔

۔ ۔ گویا ’‘ موت آتی ہے پر نہیں آتی“ والی کیفیت طاری ہو جاتی۔ اکثر اوقات کان کھنچائی کے عمل کے دوران ایسے مراحل آتے کہ ہمیں لگتا کہ آج کانوں کے بغیر ہی گھر جائیں گے۔ ہمارے کانوں کے ساتھ اس ”مہربانہ“ سلوک کے ذمہ دار صرف اساتذہ کرام ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سلسلہ قبلہ والد محترم تک بھی جاتا تھا۔ گھر میں ہم سے جب بھی کوئی لغزش ہوتی ( اور ظاہر ہے یہ ہر دوسرے لمحے کی بات تھی ) تو والد بزرگوار کا ہاتھ سیدھا ہمارے کان پر جاتا۔

کان کھینچنے کے حوالے سے ہمیں لگتا تھا کہ ہمارے گھر اور سکول میں ایک خاموش سا مقابلہ چل رہا ہے۔ چنانچہ اس عرصے میں جس تواتر اور شدت کے ساتھ ہمارے کان کھینچے گئے اگر اس سے ان کے سائز میں کوئی فرق پڑ سکتا تو ہمیں یقین ہے کہ ہم بکرے اور گدھے وغیرہ کی کسی اور خوبی کی تو نہیں البتہ ان کی ”دراز گوشی“ کا مقابلہ ضرور کر لیتے۔ انہی دنوں ہمیں لگتا تھا کہ ہمارے کان کی باریک ہڈی مسلسل تختہ مشق ستم رہنے کے بعد تقریباً غائب ہو گئی ہے۔

۔ یعنی ”ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے“ والی بات لگتی تھی۔ ۔ ۔ بالکل کسی پروفیشنل باکسر کے ناک کی ہڈی کی طرح جو مسلسل گھونسے پڑنے کی وجہ سے چپٹی سی ہو کر ماس کا حصہ ہی بن جاتی ہے۔ ۔ کان پرگرفت کرنا والد صاحب کا فیورٹ مشغلہ تھا۔ عام حالات اور نارمل صورت حال میں بھی اگر کہیں ہمیں ساتھ لے جانا مقصود ہوتا تو وہ ہمیں ”احتیاطاً“ کان سے ہی پکٹرتے۔ ایسے کسی موقعے پر اگر کبھی ہم احتراماً بازو یا ہاتھ وغیرہ آگے کردیتے تو وہ ملائمت سے اسے پیچھے کر دیتے اور اس کے ساتھ ہی کان پر گرفت اور بھی سخت ہو جاتی۔

اس عید قرباں کے مبارک موقع پر میں نے ایک بار پھر بکروں اور کچھ دیگر جانوروں کو کانوں سے پکڑ کر بڑی شدت کے ساتھ کھینچنے گھسیٹنے کے کئی بے رحمانہ مناظر دیکھے تو اپنے عہد رفتہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں تو ہم نے ”مار نہیں پیار“ جیسی تحریک چلا کر معصوم بچوں اور ان کے کانوں کو اساتذہ کے عتاب سے محفوظ کر لیا ہے لیکن ان معصوم بے زبان جانوروں کے بارے میں کون سوچے گا جن کے ساتھ رحم بھرا سلوک ہماری دینی تعلیمات کا حصہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments